خان سحرش، سرینگر
موجودہ ڈیجیٹل دور کی بات کی جائے تو جہاں موبائل انسانی زندگی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے وہیں یہ چھوٹے بچوں کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔چھوٹے بچوں کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہونے کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ موبائل کا بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔آخر انہیں ان چیزوں سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟موبائل کا زیادہ استعمال سے بچے کن خرابیوں میں مبتلا ہورہے ہیں،یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔حالانکہ ملک کے دیہی علاقوں سے کہیں زیادہ شہری علاقوں کے بچے موبائل کے عادی ہو چکے ہیں۔اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے، جس میں ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا بہت اہم رول ہے۔ ہر چھوٹے اور بڑے کام اس کے ذریعے آسان ہوگئے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو جتنا آسان بنایا ہے اتنا ہی مشکل بھی بنا ڈالا ہے۔ خاص کر چھوٹے بچوں کے معاملے میں یہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور اسمارٹ موبائل فونز کے کثرتِ استعمال سےہمارے بچوں پر مثبت کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی پڑرہے ہیں۔ابتدا میں تو والدین اپنے بچوں کی تھوڑی اور وقتی خوشی کے لئے موبائل فون ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں لیکن بعد اس کا زیادہ استعمال بچوں کے لئے ذہنی اور جسمانی تباہیوں کا سبب بن جاتا ہےاور بچوں کو موبائل فون پر ویڈیو اور مختلف گیمز دیکھنے کا اتنا چسکہ لگ جاتا ہے کہ وہ والدین کے کسی اور بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوجاتےہیں۔ جموں کشمیر کے بچوں میں بھی یہ عادت بڑے پیمانے پر لگ چکی ہے۔ پہاڑی علاقے کی رہنے والی ایک خاتون اپنے بچوں کی صحت سے جڑی باتیں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ آج ہمارےبچے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کتابوں سے زیادہ موبائل کا استعمال کر رہے ہیں،جوکہ کافی حد تک نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔بچوں کے آنکھوں پر اتنا بُرا اثر پڑرہا ہے کہ اُن کی بینائی میں بھی کمی پیش آرہی ہے۔ آنکھیں خراب ہونے کی وجہ سے یہ بچے اب کتابیں بھی نہیں پڑھ پا رہے ہیں۔اس لئے چھوٹے بچوں کو موبائل سے پرہیز کرانا والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔کئی اشخاص کا کہنا ہے کہ موبائیل کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کو بُری طرح متاثر کررہاہے۔ چھوٹے بچوں کو اس سے جتنا ہو سکے بچانا چاہئے۔وہ والدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ جب ان کا بچہ روئے اس کو موبائل نہ دیں اور ہر ممکن اپنے بچوں کو موبائیل کی لت سے باز لانے کی کوشش کریں۔ظاہر ہے کہ جب بچے موبائل کا عادی ہو جاتے ہیں تو پھر اُنہیں یہ عادت چھڑانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں 13 سالہ ایک لڑکی بتاتی ہے کہ ’’میں بچپن میں بہت زیادہ موبائل استعمال کرتی تھی۔جب میرے والدین کو یہ محسوس ہوا کہ میری انکھوں میں بہت زیادہ جلن ہونے لگی ہے اور نیند نہیں آتی ہے تو مجھے موبائل سے دور رکھا گیا۔مجھے ڈاکٹرکو دیکھایا گیا ،جنہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ اگر یہ موبائل استعمال اسی طرح کرتی رہے گی تو اس کی انکھوں کی بینائی جانے کا خطرہ ہے۔جس کے بعد میں نے موبائل چھوڑ دیا۔اب مجھے وقت پر نیند آتی ہے اور غذا بھی اچھے سے کھا لیتی ہوں اور میری یاد اشت جو کمزور ہوگئی تھی وہ ٹھیک ہو گئی ہے۔اس سلسلے میں آنکھوں کی ماہر ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ دو سال سے 10 سال کی عمر تک کے بچے اگر موبائل کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو ان کے آنکھوں کی بینائی کو متاثر ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے اور اگرچہ اس سے زیادہ عمر کے بچوں نے استعمال کیا تو اُن کی آنکھوں میں بھی کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں دو فیصدسے زیادہ بچےان ہی پیچیدگیوں کےباعث ہسپتال میں آتے ہیں۔ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آنکھوں کی پریشانی کب سے شروع ہو جاتی ہے تو انہوں نے کہا کہ بچپن میں ہی موبائل کا زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی میںپریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ جبکہ موبائل زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے دماغ پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے۔اس لئے والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں تو اپنے بچوں کو موبائل فون کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ بچوں کی تربیت میں والدین کے اعمال و افعال کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے موبائل فون کا بہت کم استعمال کریں تاکہ وہ اپنے گھر میں ہی انہیں ایک بہترین مثال دے سکیں۔ایک ایسا عمل جو بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند بنا سکتا ہے۔ اس کام میں سب سے اہم ذمہ داری بچوں کے والدین کی ہے۔ اُن پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون جیسی آفت سے نجات دلائیں۔