کس قدر نم ہے مری آنکھ تجھے پانے پر
اور یہ دل تو مچلتا ہی چلا جاتا ہے
تیری جانب کو لپکتے ہوئے خوش رو چہرے
اس یقیں سے کہ انہیں تجھ سے سکوں حاصل ہو
ان کو امید ہے اس تری عطا کردی سے
کہ یہ سب لوٹ کے مایوس نہیں جائیں گے
دیکھتا بھی ہے کوئی رب کی عطائیں ، کہ نہیں
کس طرح اس نے تجھے علم کا زیور بخشا
ہو بیاں کیسے کہ یہ تیرے حسیں کوزہ گر
کس طرح خاک سے انسان بنا لیتے ہیں
جس جگہ طفلِ جہاں تھک کے ٹھہر جاتے ہوں
یہ وہاں اک نیا امکان بنا لیتے ہیں
کتنے دلکش ہیں ترے باغ میں کھلتے ہوئے پھول
جیسے بدلی سے کوئی چاند نکل آتا ہے
کیا کہوں کیسی ملائم ہے ترے لان کی گھاس
دل مچلتا ہوا اک پل میں بہل جاتا ہے
یہ ترے صحن میں سالوں سے کھڑا ایک چنار
تیرے بچوں کی نگاہوں کو سکوں دینے کو
سبز ہوتا ہے ، کبھی سرخ ہوا جاتا ہے
چار جانب سے پہاڑوں کی قطاروں میں گھرا
تو مجھے جان سے بڑھ کر مرے پیاروں میں سے ہے
رب سدا تجھ کو رکھے اپنی نگہبانی میں
ہر تموّج میں ہر اک جذر میں طغیانی میں
جعفر تابش(طالب علم ۔پی جی)
ڈگری کالج بھدرواہ،موبائل نمبر؛8492956626