ڈاکٹر ماجدالاسلام
کسی بھی ملک کے ترقی کا راز جاننے کے لیے وہاں کا نظام تعلیم،نظام صحت اور نظام دفاع کو دیکھا جاتا ہے۔نظام تعلیم کا کردار ان میں سے نمایاں اور اول نمبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی انسان کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی،جس کے پیچھے مضبوط نظام تعلیم کام کررہا ہے۔اگر جموں کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں کا تعلیمی نظام کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ جن میں ڈگری کالجوں کا نظام بہت اہم اور ضروری ہے۔ان ڈگری کالجوں میں کام کررہے کنٹریکچول لیکچرروں کی خستہ حالی اور ابتر صورت حال کی اگر بات کی جائے تو انسان شرم کے مارے قلم کو حرکت دینے سے احتیاط برتتا ہے، کہیں اس سے معاشرے میں منفی تاثر قائم نہ ہوجائے اور ان آفیسر صاحبان کا معاشرے میں غلط تاثر نہ چلا جائے ،جنہوں نے وقتا ًفوقتاً اس معاملے میں منفی کردار ادا کیا۔پہلے پہل ڈگری کالجوں میں کام کررہے استادوں کو ایڈہاک کا نام دیاگیا،پھر کنٹریکچول، اس کے بعد قوم کے ان معماروں کو اکیڈمک ارینج منٹ اور آج کل حالت ان آفیسروں نے یہاں پہنچا دی کہ اب ان کو نیڈ بیس اکیڈمک ارینج منٹ کا نام دیا گیا۔حد تو یہ ہے ان کی تنخواہ اٹھائیس ہزار مقرر کی گئی ہے،وہ بھی صرف چند مہینوں کے لیے ۔اس کے بعد ان کو رخصت کر دیا جاتاہے۔سردیوں اور گرمیوں کے دنوں کی چھٹیاں کا تنخواہ بھی ادا نہیں کیا جاتا۔جب کہ ان صاحبوں کے پاس اعلیٰ ڈگریوں کے سندیں موجود ہیں جن میں پی جی ،نیٹ ،سیٹ،ایم فل،پی ایچ ڈی اور حتی کہ کچھ لوگوں نے پی ڈی ایف بھی کر رکھا ہے۔نیز ان کے نہ صرف تحقیقی مقالے قومی و بین الاقوامی سطح کے رسالوں میں شایع ہوئے ہیں اورہوتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ معیار کی کتابیں بھی شایع ہوچکی ہیں۔افسوس صد افسوس اس بات کا ہے ان بدقسمت لیکچرروں کو اس سال اپریل مہینےمیں جون کے مہینے تک بطور گیسٹ مقرر کیا گیا جس سے کسی کو دس ہزار تو کسی کو بارہ ہزار بطور تنخواہ ملی۔جولائی سے اکتوبر تک ان کو پھر سے گھر پر آرام دے کر ان کی ذہنی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے اور وقت یہ تقاضا کر رہاہے کہ ان کی جائز آواز کو سنا جائے اور عدل وانصاف کے بند دروازوں کو کھول کر انصاف فراہم کیا جائے۔ذیل میں ان کے مسائلوں کا ایک ایک کر کے تذکرہ کیا جائے تاکہ حکومت وقت بالعموم اور وزیر اعلیٰ ،وزیرتعلیم اور متعلقہ حکام بالخصوص ان کے مسائل کا ازالہ کرنےکی بھرپورکوشش کریں تاکہ قوم کا یہ مستقبل اور معمارقوم بد ظن ہونے ،مایوس ہونے سے محفوظ رہےاور تابناک و روشن مستقبل کی تعمیر جاری و ساری رہے۔
ا۔ ڈگری کالجوں میں تعینات ان لیکچرروں کی تنخواہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دیا جائے، جس میں کہا گیا تھا کہ برابر کام برابر تنخواہ یعنی جس طرح محکمے کے باقی مستقل ساتھی کام کے لحاظ سے تنخواہ لے رہے ہیں ،اسی طرح ان کے برابر کام کرنے والے غیر مستقل ساتھیوں کو بھی ان کے برابر تنخواہ دیا جائےاور یو جی سی کے مطابق دیا جائے۔یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ خط لدا خ جو کہ اسی وحدت کا حصہ تھا،جس کو جموں کشمیر کی طرح یو ٹی بنایا گیا،وہاں بھی یہ حکم نہ صرف جاری کیا گیا بلکہ عملایا بھی گیا کہ کالجوں میں کام کررہے کنٹریکچول لیکچرروں کو یو جی سی کے مطابق ستاون ہزار سات سو روپے ماہنامہ ادا کیا جارہا ہے ۔
۲۔ کام کا دورانیہ مکمل بارہ مہینہ کیا جائے۔
۳۔ تنخواہ کٹوتی کی نا انصافی کے نظام کو باقی ملازموں کی طرح ختم کیا جائے۔
۴۔ہر سال ایک ہی کنڈڈیٹ کا درخواست جمع کرنے کے سلسلے کو بند کیا جائے۔جس طرح باقی محکموں میں ہوتا ہے کہ درخواست گزار ایک ہی بار فارم جمع کرتا ہے۔
۵۔باقی محکموں کی طرح یہاں کام کر رہے لیکچرروں کے لئے بھی کوئی پالیسی بنائی جائے۔تاکہ یہ لوگ بھی اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھانے کے بجائے عزت کی زندگی جی سکیں اور تعلیم کا سماج میں وقار بحال رہے۔ورنہ جو صورت حال پچھلے کچھ مہینوں سے دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ قلب و نظر کو رنجیدہ کرنے والی صورتحال ہے کہ جس میں بہت سارے پی ایچ ڈی حاصل کیے ہوئے جوانوں کو پٹریوں پر خشک میوہ اور جوس بیچتے ہوئے دیکھا گیا۔جس سے نئی نسل تک ایک غلط پیغام پہنچ گیا۔ضرورت اس بات کی ہے اس صورتحال کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک مثبت پیغام نئی نسل کو پہنچ جائے اور سماج و تعلیم کا وقار بحال رہے۔