ٹی این بھارتی
نہیں ! نہیں ! نہیں ! مجھے نہیں چاہئیں یہ ڈگریاں، پھاڑ دینے دو !!! میں ان کو جلا کر خود بھی ان کی آگ میں بھسم ہو جا وں گیْ اب یہ ڈگریاں میرے کس کام کی ہیں؟ ایک جاہل مو ٹر میکینک کے ساتھ میری زندگی کی ڈور مت باندھو ابو جان !! میری بات سن لیجئے میں جینا چاہتی ہوں۔ نام کمانا چاہتی ہوں۔ میں شادی نہیں کرنا چاہتی ۔ میری پریشانی کا حل شادی نہیں ہے ابو جان مجھے جینے کا حق دو۔یہ کہہ کر معصومہ پھو ٹ پھو ٹ کر رونے لگی ۔ اس کی ہمدرد سہیلی سدھا گپتا اسے سمجھانے لگی پاگل مت بن معصومہ یہ ڈگر یا ں ہی تو تیری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ان ہی کے باعث سماج میں تیری عزت ہے تیرا وجود ہے میری بات مان اور شادی کے لئے ہاں کہہ دے، شادی کو تعلیم کے ترازو میں مت تول میری دوست ۔! سدھا جانتی تھی اس کا اپنا سماج ہی اسے کنوارے پن کے طعنے مار رہا تھا کیونکہ گرتے سنبھلتے اس نے زندگی کی ستائیس سیڑ ھیاں طے کر لی تھیں۔ سدھا چاہتی تھی معصومہ مزید زخمی نہ ہو۔ چنانچہ اس نے معصومہ کو بہت سمجھایا دیکھ تیری چاروں چھو ٹی بہنوں کی شادی میں بھی تُو رکاوٹ بن رہی ہے۔ معصومہ نے سسکتے ہوئے کہا میں نے کب اُن کو شادی کرنے سے روکا ہے ؟ میری دوست تو سمجھنے کی کوشش کر کہ ہندوستانی سماج میں اگر بڑی بہن کنواری رہ جائے تو لوگ اس زندگی حرام کر دیتے ہیں۔ ہمارے سماج کی یہی ریت ہے جسے ہم بدل نہیں سکتے ۔ ان فرسودہ دقیا نوسی رسم و رواج کو میں نہیں مانتی۔کسی ایک فرد کی رائے سے سماج نہیں بدل سکتا۔ معصومہ میری بات توجہ سے سن تو بہت خوش قسمت ہے کہ کتنے بڑے مالدار خاندان سے تیرا رشتہ آیا ہے ۔ بنگلہ ، گا ڑی ، نو کر چاکر زندگی کی آسائش کا ہر سامان وہاں مو جود ہے ۔ سب سے بڑی بات تیرے بوڑھے والدین بھی ایک بیٹی کی ذمے داری سے سبکدوش ہو جائیں گے ۔ میری دوست کنواری لڑکی تو دھرتی پر بوجھ ہوتی ہے پھر تیری چاروں چھو ٹی بہنوں کے لئے بھی شادی کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔ معصومہ اپنی پیاری سہیلی سدھا کی بات مان تو گئ لیکن وہ جانتی تھی شکیل سے شادی کے بعد وہ اپنی پہچان کھو دے گی ۔ سپریم کورٹ کی وکیل بننے کا اُسکا خواب ٹوٹ جائے گا ۔
معصومہ نے بے حد غریب اور غیر تعلیم یافتہ خاندان میں آنکھ کھولی تھی ۔ اس کے عزت دار شریف النفس والد سرکاری نوکر تھے ۔ تیرہ افراد پر مشتمل خاندان کا خرچ بمشکل تمام چل پاتا تھا ۔ گیارہ بہن بھائیوں میں معصومہ سب سے بڑی تھی ۔ غر یبی کی سطح پر زندگی گزارنے کے با وجود معصومہ کو جنونی طور پر تعلیم کا شوق تھا ۔ بارہ برس کی کچی عمر میں وہ ٹیوشن پڑھا کر خود کفیل بن گئ ۔ اس کی تعلیم کو لے کر آئے دن گھر میں جھگڑ ا ہوتا رہتا لیکن وہ خا موشی سے علم کی پیاس بجھانے میں مصروف رہی ۔ اپنی محنت لگن اور شوق کے بل بوتے پر مشہور و معروف یو نیور سٹی سے ایل ایل بی کی ٹاپر فہرست میں اس کا نام درج ہو گیا ۔ پھر اس نے ایل ایل ایم میں بھی اپنی کا میا بی کا پرچم لہرا دیا ۔ اسے اپنی اس کا میابی پر فخر تھا کیونکہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے اس نے سینکڑوں کڑوے گھو نٹ نوش کئے تھے۔ بہنوں کے طعنے ، ماں کے کو سنے اور بھائیوں کی مار تک کھائی تھی لیکن معصومہ کے لئے وہ لمحات نہایت حسین تھے جب اس کے ابو جان نے لاء کالج میں داخلہ کی اجازت دے دی تھی صرف اپنے والد کا رتبہ بلند کرنے کے لئے معصومہ شادی کے لئے رضا مند ہو گئی۔
نئی دہلی، انڈیا
[email protected]