شبینہ کوثر۔پونچھ
ہماراملک آج بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے، بیشک اس کی معیشت بھی ترقی کر رہی ہے لیکن پھر بھی یہاں غربت ایک بڑا چیلنج ہے۔ جس کی بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔ملک میں 29.9 فیصد بیروزگاری ہے۔روزگار کے وسائل ڈھونڈنے میں بھی بے روزگاروں کو طرح طرح کے پاپڑ بھیلنے پڑتے ہیںزبردست مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جموں و کشمیرکی بات کی جائے تو یہاںبڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے۔ یہاں سروسز سلیکشن بورڈ کی قیادت میں ہونے والے فائنانس اکاؤنٹ اسسٹنٹ کے امتحان میں ایک لاکھ پچانوے ہزار کے قریب امیدوار شرکت ہوں گے، جبکہ کُل اسامیوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔جس سے بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں پر بے روزگاری کس سطح پر ہے۔ جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی بات کریں تو یہاں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ پونچھ کے بلاک منکوٹ کے ضلع ترقیاتی کونسل ممبر چودھری عمران ظفر کا کہنا ہے کے دفعہ 370 کی منسوخی کے پہلے سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ جموں کشمیر کی عوام کوروزگارفراہم ہوگا،یہ بھی وعدہ کیا تھا کے نجکاری لائیں گے، لیکن ایساابھی تک ہوانہیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ یہاں کی بے روزگاری کے پیچھے ایک وجہ کمزور تعلیمی سسٹم بھی ہے، کئی اسکولوں میں عملہ کی کمی ہے،جن سکولوں میں 20 یا 25 اساتذہ درکار ہیں، وہاں محض پانچ تاسات ہیں۔ زمینی سطح پر مقابلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جس پر اُترنا آسان نہیں ہے ۔عمران ظفر کہتے ہیں جب سے میں نے ڈی ڈی سی ممبر کا عہدہ سنبھالا ہے، تب سے اِنہی مدعوں کو اُٹھاتا رہا ہوں لیکن یہاں کے تعلیمی معیار میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
بلا شبہ بے روزگاری سماج میں کئی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ منشیات کے دھندے اور استعمال کو بھی بے روزگاری نے پروان چڑھایا ہے۔بے شک ایک تعلیم یافتہ انسان کبھی سماج میں خلل پیدا نہیں ہونے دیتا لیکن ایک بے روزگار اور ناخواندہ شخص سماج میں ایسے مسائل کو جنم دیتا رہتا ہے۔اگر بے روزگاری پر قابو پالیا جائے تو سماج میں کافی بہتری آسکتی ہے اور جرائم کا بھی سدباب ہوجائے گا۔بے روزگاری کے مسائل کو اگر زمینی سطح پر دیکھا جائے تو کئی نوجوان اعلیٰ ڈگریاں لے کر گھر میں بیٹھے ہیں ،کچھ ہنر مند ہونے کے باوجود ذریعہ معاش سے محروم ہیں۔دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی ستم ڈھارہی ہے۔ بے روزگار مرد حضرات دوسرےممالک میں جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں ، لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بے روزگاری کے عالم میں گھر وں میں مقید ہو کر رہ گئی ہیں۔ اُن کے پاس ایسے ذرائع یاوسائل موجودنہیں کہ وہ بھی اپنا روزگار حاصل کر سکیں۔اگرچہ حکومت دیہی سطح تک کئی سارے فلاحی پروگرام اور اسکیمیں لے آئی ہے لیکن بے روزگاری کامسئلہ آج بھی موجود ہے۔ ضلع پونچھ کی تحصیل منکوٹ میں رہنے والی 24برس کی سلمیٰ کا کہنا ہے کہ میڈیکل فیلڈ میں گریجویشن کر کے گھر بیٹھی ہوں کیونکہ جموں کشمیر سے باہر جا کر پرائیویٹ نوکری کرنے کی گھر والوں کی اجازت نہیں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے ڈگری صرف گھر رکھنے کے لیے اور دیکھنے کے لئے حاصل کی ہے۔اُن کا مزید کہنا ہے کہ آگے پڑھنے کے لیے مجھے ایک سال کا تجربہ چاہیے لیکن ضلع پونچھ میں کوئی ایساذریعہ ہی نہیں،جبکہ بیرونِ ریاست جانا میرے لئے ناممکن ہے۔سلمیٰ کا کہنا ہے کہ بس اسی انتظار میں ہوں کہ کہیںنرسنگ جاب کے لئے کوئی پوسٹ نکلے تو میں درخواست دوں ۔29 سال عمرکے ظہیر عباس، جن کا تعلق تحصیل مینڈھر کے ساگرہ سے ہے، ایم ایس سی کر کے بے روزگار ہیں۔اب گھریلو حالات سنبھالنے کیلئے مسافر گاڑی چلانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔بقول اُس کے ڈگری تو میرے پاس ہے لیکن سرکاری نوکری نہ ہونے کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محمدجہانگیرعمر 30سال ،نے تین سال قبل ایم ایس سی کی تھی لیکن نوکری ابھی تک حاصل نہیں ہو سکی ہے۔اُن کے مطابق عمر کا ایک حصہ نوکری کی تلاش میں گزر گیا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اسامیوں کی بھرتی ہوتے ہوتے عمر کی حد گزر جائے گی کیونکہ جموں و کشمیر میں ایک فارم بھرنےکے بعد امتحان کیلئے برسوں لگ جاتے ہیں۔عاصمہ عمر24 سال نے بی ایڈ کی ڈگری کر رکھی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ یہ ڈگری ان کے کسی کام کی نہیں ہے۔کیونکہ یہاں پر جاب ریکروٹمنٹ ہی نہیں ہے۔الغرض یہاں ظہیر ،جہانگیر ، عاصمہ اور سلمیٰ جیسے بہت سےنوجوان ہیں، جن کے پاس ڈگری بھی ہے اورہنر بھی ۔لیکن انہیں کوئی جاب ہی نہیں ملتا۔ سرکاری نوکری کے متلاشی یہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ جموں وکشمیر میںبے روزگاری کی صورتحالیہ ہے کہ نوجوان ایس پی او کی نوکری کیلئے بھی ترس رہے ہیں۔اس اہم مسئلے میں سرکار کو ایک موثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست ہوسکےاور اُن کی زندگیاں بُرباد ہونے سے بچ سکیں۔(چرخہ فیچرس)