ڈَمی

Mir Ajaz
7 Min Read

افسانہ

برکھا شکلا(ہندی )
ترجمہ:استوتی اگروال

شہر کی مشہور ڈریس ڈیزائنر کاویری اپنا بوٹیک بند کرکے جا چکی تھی۔ہر روز کی طرح وہاں موجود پتلے(ڈَمی)آپس میں گپ شپ کرنے لگے۔پہلی ڈمی بولی،’’کاویری دیدی مجھ پر جو بھی ڈریس لگواتی ہیں،وہ بڑی جلدی سیل آئوٹ ہو جاتی ہے۔‘‘
’’ہاں،تم نے بالکل ٹھیک کہا۔‘‘دوسری ڈمی نے جواب دیا۔
’’میں اُنکے لئے لَکی ہوںکیونکہ اُسی ڈریس کے کئی آڈر بھی آئے ہیں۔‘‘پہلی ڈمی بولی۔
’’یہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔‘‘دوسری ڈمی نے کہا۔
’’پر آج تم کچھ اُداس لگ رہی ہو؟‘‘پہلی ڈمی نے سوال کیا۔
’’ارے!آج تم نے ایک لڑکی کو دیکھا تھا؟‘‘دوسری ڈمی نے اچانک استفسار کیا۔
’’دن بھر کتنی تو لڑکیاں آتی ہیں۔تم کس کی بات کر رہی ہو؟‘‘پہلی ڈمی نے پوچھا۔
’’وہ جو معمولی سے کپڑے پہنے ہوئے تھی۔مجھ پر لگی ڈریس کو بڑی حسرت سے تک رہی تھی۔‘‘دوسری ڈمی نے بتایا۔
’’پھر؟‘‘پہلی ڈمی گویا ہوئی۔
’’پرائز ٹیگ کو اُلٹ پلٹ کرکے دیکھ رہی تھی۔تبھی کاویری دیدی بولیں،’’یہ ڈریس لیناہے آپ کو؟‘‘
وہ لڑکی بولی،’’ڈریس تو مجھے بے حد پسند ہے لیکن قیمت کچھ زیادہ ہے۔کچھ ڈسکائونٹ ہو سکتا ہے کیا؟‘‘
کاویری دیدی آگ بگولا ہو گئیں،’’اِس بوٹیک سے کپڑے خریدنا تم جیسوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ہاتھ لگا کر ڈریس کوگندا مت کرو۔‘‘
’’دیدی کی تلخ کلامی سے وہ لڑکی آب دیدہ ہو گئی۔اُسے روہانسا دیکھ کر دل اُداس ہو گیا۔‘‘دوسری ڈمی بولی۔
’’دیدی کو ایسا نہیں بولنا چاہیے تھا۔‘‘پہلی ڈمی نے افسردگی سے کہا۔
’’ہاں،ہم تو بے جان ہیں۔پھر بھی ہمارا دل دُکھتا ہے۔‘‘دوسری ڈمی پہلی کی بات کی تائید کرتے ہوئے بولی۔
’’لیکن کاویری دیدی کے دھڑکنے والے دل میں کوئی جذبات نہیں ہیں۔‘‘پہلی ڈمی نے کہا۔
’’ہم ڈمی ہوکر بھی انسان کی طرح سوچتے ہیں اور یہ انسان ڈمی ہو گئے ہیں۔‘‘دوسری ڈمی نے طنزاً کہا۔
تبھی باہر کچھ ہلچل ہوئی اور دونوں خاموش ہو گئیں۔اِس واقعہ کے گزرنے کے قریب آٹھ دن بعد دونوں ڈمی پھر باتیں کرنے لگیں۔
دوسری ڈمی بولی،’’آج دیکھا تم نے؟اُس دن والی لڑکی بوٹیک کے سامنے گھوم رہی تھی۔ساتھ میں اُس کی ماں بھی تھی۔دیدی اُنہیں اپنے ساتھ کیبن میں لے گئیں۔اب تم بتائو،کیبن میں کیا باتیں ہوئیں؟کیونکہ تمھیں اُس وقت ڈریس سیٹ کرنے اندر لے گئے تھے۔‘‘
’’شاید تم نے دھیان دیا ہو،اُس لڑکی نے جس کا نام سنیتا ہے،جو ڈریس وہ دیکھ کر رک گئی تھی،ویسی ہی ڈریس پہنی ہوئی تھی۔اُس کی خوبصورت ڈریس دیکھ کر دیدی نے سوال داغ دیا ،’’یہ کس نے بنائی؟‘‘
’’تو وہ بولی،میں فیشن ڈیزائننگ کا کورس کر رہی ہوں۔میری ماں سلائی کرتی ہیں۔ میں نے انہیں ڈریس کے ڈیزائن کے بارے میں بتایا اور اُنہوںنے ویسا ہی سِل دیا۔‘‘پہلی ڈمی نے بتایا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘دوسری ڈمی نے پوچھا۔
’’اُس لڑکی کے بابا(والد) نہیں ہیں۔ڈریس دیکھتے ہی دیدی کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیںاور وہ عاجزانہ انداز میں بولیں،’اگر آپ چاہیں تو ہمارے بوٹیک کی ڈریسز اِسٹچ کر سکتی ہیں۔انھوںنے بخوشی حامی بھر لی۔‘‘پہلی ڈمی نے بتایا۔
’’یعنی اپنی دیدی کے سینے میں دل ہے۔ہم غلط سوچتے تھے۔‘‘دوسری ڈمی بولی۔
’’دل نہیں دوست،دماغ ہے۔دیدی انہیں بہت کم پیسے دے رہی ہیں۔تم تو جانتی ہو، ماسٹر جی کتنی سلائی لیتے ہیں۔‘‘پہلی ڈمی نے جواباً کہا۔
’’اچھا! تو یہاں بھی فائیدہ دیکھ لیا دیدی نے۔‘‘دوسری ڈمی نے خفیف سی مسکراہٹ سے پہلی ڈمی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اور کیا۔‘‘پہلی ڈمی بولی۔
بات مکمل کرکے دونوں نیند لینے لگیں۔اب سنیتا اکثر آڈر لینے اور اور سلے ہوئے کپڑے دینے آنے لگی۔ دیوالی قریب تھی۔کاویری بوٹیک میں رنگ روغن کروا رہی تھی،کچھ پرانا سامان بھی نکلوا رہی تھی۔اُسی روز سنیتا بوٹیک میں آئی اور بولی،’’دیدی ،میرا کورس ختم ہو گیا ہے۔اب میں بھی ممی کا ہاتھ بٹائوںگی۔‘‘
’’اچھا ہے۔‘‘دیدی بولیں۔
تبھی بوٹیک میں کام کرنے والی ایک لڑکی نے آکر پوچھا،’’دیدی،آپ وہ دونوں ڈمی ہٹانے کا بول رہی تھیں نا؟‘‘
دونوں ڈمی کا دل دھڑک اُٹھا۔سنیتا بلا تامل بولی،’’دیدی،ابھی کسی سے بات نہیں ہوئی ہو تو میں لے جاتی ہوں۔‘‘
’’ہاں،ابھی کسی سے بات نہیں ہوئی ہے۔تم لے جائو۔‘‘دیدی نے پر مسرت لہجے میں کہا۔
روپئے دے کر سنیتا نے دونوں ڈمی لے لیں۔دونوں ڈمی نے دل ہی دل میں سوچا،کیسے دیدی نے بے دلی سے اُنھیں ہٹا دیا ہے!
جب سنیتا اُنھیں لے کر گھر پہنچی تو اُس کی ماں بے حد خوش ہوئی۔وہ اپنے سلے ِ کپڑے دونوں ڈمی کو پہنا دیتیں۔وہ گھر سے ہی سلائی کا کام کرتی تھیں۔اب سنیتا بھی اُن کا ساتھ دے رہی تھی،لہٰذا اُن کے یہاں گاہکوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔دونوں ڈمی کو اُن کے یہاں اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا۔آجکل شادیوں کا سیزن تھا ،اوریہ ماں بیٹی کام بھی بڑے سلیقے سے کرتی تھیں،اِس لیے کافی سلائی آ رہی تھی۔
اِن کے پاس اب کچھ پیسہ بھی اکٹھا ہو گیا تھا۔کچھ لو َن لے کر سنیتا نے اپنا بوٹیک کھولنے کا ارادہ کیا۔ایک شاپ بھی کرائے پر لے لی۔
سنیتا کی ماں نے محبت آمیز لہجے میں کہا،’’بیٹا!اِن دونوں ڈمی کو بھی شاپ میں رکھوا دینا۔‘‘
یہ سنتے ہی دونوں ڈمی کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔اچانک سنیتا بول پڑی،’’نئی شاپ میں اِن پرانی چیزوں کا کیا کام؟‘‘
دونوں کا دل بجھ گیا۔
’’ایسا نہیں بولتے بیٹا۔اِن کے آنے کے بعد ہی ہم نے اِتنی ترقی کی ہے۔‘‘ماں نے کہا۔
’’لیکن ممی۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن –ویکن کچھ نہیں۔کچھ نیا کرنے پر اپنے پرانے ساتھی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ماں سمجھاتے ہوئے بولی۔
’’ممی،آپ کو اِن بے زبان پتلوں سے اتنا لگائو کیوں ہے؟بوٹیک کے لئے میں نے نئے ڈمی منگوا لئے ہیں۔‘‘سنیتا کے لہجے میں چھپی خفگی نمایاں تھی۔
’’بھلے ہی منگوا لئے ہوں،یہ دونوں بھی وہاں جائیگی،تاکہ ہمیں اپنے پرانے دن یاد رہیں۔‘‘ماں بولی۔
تبھی سنیتا کو وہ دن یاد آیا جب کاویری دیدی نے اُس کے ساتھ کیسا ناروا سلوک کیا تھا۔اُسے اپنی ماں کی دوراندیشی پر فخر ہوا۔
رضامندی ظاہر کرتے ہوئے سنیتا بولی،’’ہاں ممی۔یہ دونوں میرے ساتھ نئے بوٹیک میں ضرور جائیں گی۔‘‘
دونوں ڈمی نے ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر سوچا،’’انسانیت ابھی زندہ ہے۔‘‘
����
اگروال جیولرز،سرونج،ایم پی
موبائل نمبر؛9575089694

Share This Article