۔5اکتوبر2021کو مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر سوچھ بھارت مشن کے تحت ایک ماہ طویل صفائی مہم کا جھیل ڈل سے افتتاح کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے اعتراف کیا تھاکہ ڈل کی شان رفتہ کی بحالی کیلئے اُتناکام نہیں ہوسکاجتناکرنیکی ضرورت تھی تاہم انہوںنے کہا تھاکہ اب اس کام میں سرعت لائی جائے گی اور ڈل کی عظمت رفتہ بحال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔اس اعلان کے کم و بیش چار ماہ بعد فروری2022میں مرکزی حکومت نے اپنے بجٹ میں جموںوکشمیر کیلئے مختص35581کروڑ روپے میں سے ڈل ونگین جھیلوں کی بحالی کیلئے 273 کروڑ روپے وقف رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت ان آب گاہوں کی شان رفتہ بحال میں سنجیدہ ہے تاہم یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے جب مرکزی حکومت ان آب گاہوں کے تحفظ خطیر رقم مختص رکھی ہو بلکہ وزیراعظم ترقیاتی فنڈ سے لیکر کئی سکیموں تک مرکزی حکومت نے زر کثیر جموںوکشمیر حکومت کو اس مد میں فراہم کی تاہم ڈل ونگین اور دیگر آب گاہوں کی حالت بدلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔آج کل تاہم حکام دعویٰ کررہے ہیں کہ ڈل جھیل ،نگین،آنچار اور خوشحال سرکے بارے میںریکارڈ کو درست رکھنے کے لئے ان آبی ذخائرکی تازہ پیمائش کی گئی ہے جس کے مطابق ڈل اور نگین کا رقبہ .18 50432 کنال اراضی ہے جس میں 39226آبی ذخائر اور 10206کنال اراضی خشکی ہے جبکہ تازہ ترین پیمائش کے مطابق خوشحال سر کارقبہ 1791کنال اراضی ہے جس میں 1701آبی ذخائراور 90کنال خشکی ہے ۔جہاں تک آنچار جھیل کا تعلق ہے تواس کا رقبہ .5 40728 کنال اراضی ظاہر کیا گیا جس میں 15748کنال اراضی آبی ذخائر اور28980کنال خشکی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ پیمائش جدید آلات اور ریموٹ سنسنگ اسٹلائٹ کے ذریعے کرائی گئی ہے۔
حکومت کا مزید کہنا ہے کہ 220میٹر کے دائر ے میں کوئی تعمیر نہیں کی جاسکے گی جبکہ ڈل کے سارے مکینوں کومکمل طور رکھ آرتھ منتقل کر نے کے بعد ان کی املاک کو مہند م کرکے اسکو بھی آبی ذخائر میں منتقل کیا جائے گا۔ اگر واقعی زمینی سطح پر ڈل جھیل کی بحالی کیلئے اتنا کام ہوا تو یہ حوصلہ افزا ہے اور اس سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ ڈل کی شان رفتہ بحال ہوسکے گی لیکن تاحال اگر غیر جانبدارانہ طور ڈل کا مشاہدہ اور معائنہ کیا جائے تو شاید مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ ڈل کا رقبہ26مربع کلومیٹر سے سکڑ کر16مربع کلومیٹر رہ گیا ہے ۔اتنا ہی نہیں اس آبگاہ کا قدرتی ماحول بھی بگڑ چکا ہے ۔محلول آکسیجن کی مقدار متواتر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔نائٹروجن ،فاسفورس اور دیگر معدنیات کی مقدار بھی اتار چڑھائو کا شکار ہے۔ڈل کا پانی اس قدر گاڑھا ہوچکا ہے کہ اب اس کی شفافیت بھی متاثر ہوچکی ہے۔1965سے برابر ڈل کے پانی کا معیار گھٹتا جارہا ہے کیونکہ پانی میں شہر کے نکاسی نظام کا گندہ پانی مل جاتا ہے جو زہر آلودہ معدنیا ت اور گیسوں سے بھرا ہوا ہے۔ایک سال میں پندرہ ڈرینوں اور دیگر کئی چھوٹی چھوٹی گندی نالیوں سے 156.62ٹن فاسفورس،241.18 ٹن نائٹروجن ڈل میں جاتا ہے جبکہ کئی اور ذرائع سے بھی سالانہ 4.5 ٹن فوسفیٹس اور18.14 نائٹروجن ڈل میں چلے جاتے ہیں،اتنا ہی نہیں مسلسل گاڑھا اور کیچڑ ڈل میںچلے جانے اور وہاں ناجائز تجاوزات کھڑی کرنے کی وجہ سے بھی ڈل کا رقبہ سکڑتا جارہا ہے۔اس صورتحال میں ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈل کی حالت بدستور غیر بنی ہوئی ہے اور یہ آبگاہ ارباب حل و عقد کیلئے صرف پیسہ بنانے والی مشین ثابت ہوچکی ہے کیونکہ سالانہ ڈل کی بحالی کے نام پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔پچھلے دنوں ہی بتایا گیا کہ نہرو پارک علاقہ سے150ے قریب ہائوس بوٹوںکو منتقل کیا جارہا ہے تاکہ ڈل کو مزید جازب نظر بنایا جاسکے لیکن شاید ہائوس بوٹوں کی منتقلی اس درد کا مداوا نہیں ہے۔فی الواقع جھیل ڈل کی رونق ہائوس بوٹوں سے ہے۔ لہٰذا یہاں ہائوس بوٹوں، ڈونگوں اورشکاروں کی ضرورت اور گنجائش ہے مگر اس میں ایک بھی مکان ،ایک بھی ہوٹل اور دکان کی نہ گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔ جھیل ڈل میں مکانات اور ہوٹل جہاں اس ڈل کے لئے بد نما داغ ہیں وہاں یہ اس کی ہیئت بگاڑنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔جھیل ڈل کے سکڑنے ،اس کا رقبہ محدود اور مسدود کرنے میں ملیاروں کا رول نہایت ہی افسوسناک اور پریشان کن ہے۔
جب تک جھیل ڈل سے بستیاں منتقل نہیں ہونگی، سبزی کاشت کرنے والوں کو دوسری جگہ سبزیوں کے لئے اراضی نہیں دی جاتی ، تب تک ڈل جھیل کی ہیئت واپس بحال ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے جھیل کے مزید سکڑنے کااحتمال رہے گا کیونکہ ہم آئے روز دیکھ رہے ہیںکہ ملیاری زمین شیطان کے آنت کی طرف لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ڈل جھیل کو بچانے کے نام پر اب تک جتنی دولت خرچ کی گئی اگر اس رقم کی آدھی پلاننگ کے مطابق خرچ کی گئی ہوتی تو جھیل موت کے دلدل سے نکل آیا ہوتا۔ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ڈل جھیل رشوت کا ایک بدنام زمانہ ذریعہ بن گیا ہے ۔ ڈل کے باسی جھیل کو قبرستان جیسا بنانے کے در پے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ سب حکام کی ناک کے نیچے ہورہا ہے اور وہ کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔سرکار نے ڈل جھیل کی بستی کو یہاں سے منتقل کر نے کے لئے رکھ آرتھ میں زمینیں دی ہیں لیکن وہ کالونی برسہا برس سے مکمل نہیںہوپارہی ہے اور اب تو ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ کئی لوگ وہاں اپنے پلاٹ بیچ کر واپس ڈل میںبسنے جارہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کالونی فوری طور مکمل کرکے ڈل باسیوں کو فوری طور وہاں منتقل کیا جائے تاکہ ڈل میں انسانی عمل دخل ختم ہوسکے لیکن یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب ڈل و نگین کی بحالی سے منسلک ایمانداری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ورنہ پیسہ یونہی آتا رہے گا اور ڈل بھی یونہی اپنے وجود کیلئے ترستا رہے گا۔