ملک منظور
دور ایک ریگستانی علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔اس گاؤں کے ایک کونے میں ایک چشمہ تھا جس سے صاف وشفاف اور میٹھا پانینکلتا تھا ۔چشمے کے نزدیک ایک شاندار خوبصورت عمارت تھی ۔ عمارت کی عجیب بات یہ تھی کہ اس کے چاروں طرف دروازے تھے۔لیکن گاؤں میں لوگ اس عمارت کے بارے میں الگ الگ توہمات بیان کرتے تھے۔لوگوں کو اس عمارت کے اندر نہ جھانکنے کی اجازت تھی اور نہ دروازے کھول کر دیکھنے کی ۔ تاجرلوگ اس کے بارے میں جھوٹے پراپیگنڈے پھیلا رہے تھے ۔وہیں چند درویشوں نے اس عمارت کو خبیث جنوں کا مسکن بنارکھا تھا ۔گاؤں کے شاطر دماغ لٹیرے اس عمارت کو منحوس قرار دیتے تھے ۔نتیجتاً یہ خوبصورت عمارت بدصورتی کی علامت بن گئی تھی۔ والدین بچوں کو اس کے قریب بھٹکنے نہیں دیتے تھے ۔ جو بچہ کبھی جانے کی غلطی کرتا تھا اس کو گھر میں بند کردیتے تھے ۔درویش اس بچے کو جھاڑو سے پیٹتے تھے ۔ اگر اتفاقاً کوئی انہونی ہوتی تو بچے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا ۔لڑکیوں پر سب سے زیادہ پابندی تھی ۔انہیں اس عمارت کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔اگر کوئی دیکھنے کی جرأت کرتی تو لوگ اس کو مار مار کر لہولہان کرتے تھے۔اس عجیب وغریب ماحول کی وجہ سے پورا گاؤں جہالت کے گپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ تاجر برادری ناپ تول میں کمی کرتی تھی۔ مکار لوگ عام لوگوں کو فریب دے کر لوٹ لیتے تھے ۔درویشوں نے توہمات کی سینکڑوں زنجیریں بنائی تھیں جن میں لوگوں کی سوچ جھکڑی ہوئی تھی۔ غریبوں کا خون چوسا جارہا تھا ۔لڑکیوں کی زندگیاں جہنم بن گئی تھیں۔ بیوہ عورتوں اور یتیموں پر بےتحاشہ ظلم ڈھایا جارہا تھا ۔ امیر دن بہ دن امیر ہوتے جارہے تھے اور غریب غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے تھے۔انصاف کا دور دور تک کوئی نام و نشاں نہیں تھا۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج تھا۔ایک دنایک نوجوان نے عمارت کے اندر جھانکنے کی کوشش کی تو گاؤں کے سردار نے اس کو درخت کے ساتھ باندھ کر اتنا مارا کہ وہ نوجوان لہولہان ہوگیا۔ ان دشوار ترین حالات میں چشمے کے نزدیک ایک خوبصورت پھول کھلا ۔پھول کی خوبصورتی دیکھ کر لوگ حیران ہوگئے ۔ پھول میں ایسی کشش تھی کہ سب لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔کچھ جوانوں کو پھول کے بارے میں پتہ چلا تو وہ روزانہ اسے دیکھنے جاتے تھے۔ ننھا پھول کھلتے کھلتے مسکراہٹیں پھیلانے لگا ۔اس کی خوشبو ماحول کو معطر کرنے لگی ۔ چشمے کے پانی میں مٹھاس بڑھ گئی۔ سورج کی کرنیں پھول کے اردگرد رقص کرنے لگیں ۔گاؤں کی بنجر زمین میں گھاس اُگنے لگی۔ بھیڑ بکریوں کے لئے خوراک وافر مقدار میں مہیا ہونے لگا ۔غریبوں کی بکریاں زیادہ دودھ دینے لگیں۔ ریگستان نخلستان میں بدلگیا ۔ گاؤں کی حالت بدلنے لگی تو درویشوں نے اس پھول کو آنے والی آفت کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا” یہ پھول اس گاؤں کے لئے منحوسیت کا سایہ لے کر آیا ہے۔نوجوان اس کی چمک دمک دیکھ کر گمراہ ہورہے ہیں ۔ہمیں اس پھول کو روندنا ہوگا تاکہ ہمارا تہذیب وتمدن محفوظ رہے ۔ ”
مکاروں ، لٹیروں، ظالموں اور جاہلوں نے اس پھول کو ختم کرنے کی سازشیں شروع کیں۔ لیکن پھول کے آس پاس اکثر نوجوانوں کی بھیڑ رہنے کی وجہ سے وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر کچھ بچے بھی چوری چھپے وہاں جانے لگے ۔چند جوانوں نے عمارت کا رخ کیا اور دروازے کھولنے کا منبنایا۔ ان کے ساتھ بچے بھی گئے بچوں میں عمارت کے اندر جھانکنے کا تجسس پھول دیکھنے کے مقابلے میں زیادہ تھا ۔ لہذا وہ چوری چھپے بلڈنگ کے اندر جھانکنے کے لئے چلے جاتے تھے ۔ایک دن ایک نوجوان، جس کا نام پیام تھا، نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک دروازہ کھول دیا۔ جب دروازہ کھلا تو اندر کا منظر دیکھ کر وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے بہت خوش ہوئے ۔ ” سچائی کی دنیا میں آپ کا خیر مقدم ہے ۔میں سچائی کا پھول ہوں ۔” ایک حسین و جمیل پھول نےکہا ۔
” تمیہاں کیا کر رہے ہو ؟” پیام نے پوچھا ۔
” مجھے یہاں قید کیا گیا ہے۔” پھول نے کہا۔
جوانوں نےدوسرا دروازہ کھولا تو وہاں علم کی شمع تھی ۔
” نوجوانو، میں روشنی کی دنیا میں آپ سب کا دل سے خوش آمدید کرتی ہوں” شمع نے نور پھیلاتے ہوئے کہا ۔
تیسرا دروازہ کھولا تو وہاں سچائی کے موتی تھے۔سچائی کی روح نے جوانوں کو تازگی بخشی ۔
چوتھا دروازہ کھول کر جوانوں نے انصاف کا ترازو دیکھا ۔جو اپنی چمک دمککے ساتھ نور بکھیر رہا تھا ۔ پانچویں دروازے کے اندر انسانیت کا وسیع گلستان موجود تھا۔ کچھ دنوں تک یہ بات مخفی رکھی گئی ۔پھرجوانوں نے بچوں کو اس عمارت میں لایا ۔وہاں انسانیت نے بچوں کی بصیرت کو جلوہ بخشا ۔ علم نے حکمت کے موتی پروس دیئے۔ سچائی نے ان کی آنکھیں کھولیں۔ انصاف نے ہمدردی کے بیج بوئے۔
ادھر گاؤں میں یہ خبر تیزی سے پھیل گئی کہ جوانوں نے اس شاندار عمارت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور بچے وہاں کی روشنی سے فیضیاب ہورہے ہیں ۔ بچے علم کے نور سے جونہی منور ہوئے تو چوروں ، لٹیروں، ظالموں ، فریبیوں ، جھوٹوں اور مکاروں کے جھوٹے پروپیگنڈوں کے کچے دھاگے ٹوٹنےلگے۔جہالت کا گپ اندھیرا چھٹنے لگا۔ لڑکوں کے حوصلوں کو دیکھ کر لڑکیاں بھی نورانی عمارت میں جاکر نور سے فیضیاب ہونےلگیں۔پہلے لڑکیاں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھیں لیکن دھیرے دھیرے ان کے حوصلوں کو پنکھ مل گئے ۔وہ علم کی شمعیں جلا کر گھروں کو روشن کرنے لگیں۔ مکار درویشوں کی دکانداری بند ہوگئی ۔غربت کی دیواریں گرگئیں۔ محبت ، ہمدردی ، ایثار اور انسانیت کے گلشن کِھل گئے ۔ گاؤں کی فضا بدل گئی اور علم وفضل کی بہار سے گاؤں دنیا کا مرکز بن گیا ۔یوں ڈر کا گھر فیضان کا سرچشمہ نکلا جس پرجھوٹ ،مکاری، توہمات، جہالت اور بربریت کے تالے لگے ہوئے تھے ۔
���
کولگام جموں وکشمیر
موبائل نمبر؛9906598163