ہڑتال کال نیشنلائیز ہو گئی۔کیا سنا نہیں آپ نے۔ مانا کہ آپ نے بنک نیشنلائز ، پرائیویٹ ادارے نیشنلائز ، ہوائی کمپنیاں نیشنلائز سنا ہے کہ ادارے سرکار اپنی تحویل میں لے ،لیکن چونکہ کشمیر کا باوا آدم نرالا ہے یہاں ہڑتال نیشنلائز ہوگئی۔لو جی اہل کشمیر اب موج منائو بلکہ گائو ناچو کہ ملک کشمیر میں ہڑتال کے مسئلے پر سرکار اور آزادی نوازوں میں ٹھن گئی اور ہڑتال میں سے بر سر اقتدار لوگ اپنا حصہ مانگنے لگے ۔عرف عام میں اسے ہڑتال کی کال کہتے ہیں اسی لئے ہم سے زندہ دلان کشمیر پوچھتے رہتے ہیں کہ آج ہڑتال بند ہے یا کھلی ہے۔ہڑتال کا فائنل رزلٹ دکانیں مقفل، کارو باری ادارے بند رکھنا ہوتا ہے اور عبور و مرور پر قدغن ہے۔اس کا ایک حصہ تعلیمی اداروں کے پٹ بھی کھینچنے مقصود ہے لیکن اس پر سرکار پہلے ہی سے اپنے تار ہلاتی رہی ہے۔خیر یہ جو ہڑتال ہے پہلے تو آزادی نوازوں کا اس پر حکم چلتا تھا کیونکہ ان کے نام ہڑتال کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بلکہ اس مسلے پر تمام تر تفصیلات نوے کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں ان کے نام منتقل ہوگئیں ۔مانا کہ بیچ بیچ میں ٹرانسپورٹر یا کاروباری حضرات اس مسلے میں اپنی ٹانگ اڑایا کرتے تھے یا صاف الفاظ میں کہہ دیجیے مداخلت بیجا کرتے رہے ہیں۔گویا ہڑتال نہ ہوئی مسلہ کشمیر ہوگیا کہ ہر کوئی اپنی لیڈری اسی پر چمکاتا ہے ۔وہ بھی جنہیں مسلہ کشمیر کا الف با پتہ نہیں اور جو ملک کشمیر کبھی آئے نہیں اس مسئلے پر کتابیں اور مضامین تحریر کرتے ہیں ۔حد تو یہ کہ تیرہ سالہ لڑکی بھی ترنگے والا چھوٹا سا جھنڈا لے کر ہوائی اڈے پہنچی اور لالچوک میں جھنڈا لہرانے کاا علان کردیا ۔پھر جو ٹی وی پر تصویر آگئی تو کشمیر کے نام پر چمک گئی ۔ پورے بھارت ورش میں اس کے نام کی واہ واہ ہو گئی کہ اہل کشمیر کو دھمکانے والی چھوٹی بچی میدان عمل میں کود گئی اور جو کام نوے میں مرلی منوہر جوشی سے نہ ہو پایا وہ اس کھلتی کلی نے کر دکھایا۔خیر ہڑتال یعنی دوکانیں وغیرہ بند رکھنے کی بات اب تو قلم دوات کنول مشترکہ سرکار بھی اس میں اپنا حصہ مانگنے لگی۔مطلب ہڑتال کی کال نیشنلائیز ہو گئی۔جبھی تو سرکار نے باری باری شہر میں دوکانیں بند کرانے کی کال دے ڈالی۔خیر سرکار کے ذمے جو کام تھے ان کا نپٹاوا تو اس نے کر لیا اب تو ہڑتال کی کال ایک مدعا بچا تھا کہ اس پر ہاتھ صاف کرنے کی باری آئی۔سرکار کا کام بجلی فراہم کر نا ہوتا ہے سو سرکار نے کر ڈالا ۔بلکہ بجلی کا شیڈول بھی مشتہر کر دیا اور یہ بھی دھمکی دے ڈالی کہ صارف بجلی کا صحیح استعمال کرڈالیںتو کٹوتی برائے نام رہے گی۔اور صارف بیچارے بھی فوراً صحیح استعمال کرنے لگے ۔بجلی ظایع ہونے سے بچائو کا انوکھا طریقہ نکالا ۔لالٹین کو صاف کردیا ۔ اس میں مہنگے داموں والا مٹی کا تیل ڈال دیا کہ سرکاری دوکانوں سے کم قیمت پر تیل خاکی ملنا اب بند کردیا گیا ہے۔ موم بتیاں خرید لیں، کہیں کہیں کائرو لکڑی کے ا لائو کا بھی انتظام کردیا تاکہ بجلی کا مناسب استعمال ہو۔سرکار کے ذمے صاف پانی کا انتظام ہوتا ہے اور صارفین کا کام مناسب استعمال ۔سرکار نے نلکے خشک کردئے صارفین نے سردی کے موسم میں کم پانی پینے کا رواج ڈھونڈھ نکالا کہ زیادہ پئیں تو بلا لحاظ عمر و جنس زیادہ پیشاب کی مصیبت ہوگی اس لئے سرکار اور رعایا دونوں خوش ۔اشیائے خوردنی کی قیمتیں بھی واجب ہونی چاہئیں ۔ سرکار نے نرخنامہ مشتہر کردیا اور اس کی ذمہ داری ختم۔اس کے بعد بھی سرکاری کارندے بازاروں میں گشت لگاتے ہیں کہ قیمتیں اعتدال میں رکھیں۔یقین نہ آئے تو کبھی کبھار ٹی وی پران کی تصاویر دیکھ لیں۔اتنا ہی نہیں اعلیٰ افسران اور وزرا میٹنگ بلا کر جائزہ لیتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں پھر بھلا کسی کو جھٹلانے کی کیا ضرورت۔کیونکہ سرکار جب کمیٹ مینٹ کرتی ہے تو پھر اپنے آپ کی بھی نہیں سنتی ۔اور بقول فلمی ہیرو سرکار جو کہتی ہے وہ کرتی ہے اور جو نہیں کہتی وہ definitely کرتی ہے۔اسی لئے مخلوط سرکار نے سارے کام نپٹا لئے تو یہ دیکھنے کی بات کی کہ کہیں کوئی کام باقی تو نہ رہا ۔ پتہ چلا کہ ہڑتال کی کال کو نیشنلائز کر نا بھول گئے ہیں فوراً اعلان کرڈالا کہ فلان دن فلان علاقے میں دوکانیں بند رہیںگی۔مانا کہ دوکاندار اور کاروباری رونا روئے کہ ہمیں تو ویسے بھی کچھ کرنے کو نہیں کہ ادارے کسی نہ کسی بہانے بند ہی رہتے ہیں لیکن سرکار جو نہیں کہتی وہ ضرور کرتی ہے اسلئے دوکانیں باری باری سے بند۔سرکار کی کامیابیاں سن کر ہم پریشان تھے کہ ماحولیات اور تعلیم کا کیا ہوگا کہ یہ چیزیں ٹھیک ہوں تو سارا ملک کشمیر بہتر ہوگا۔پھر تو ہماری باچھیں کھلیں کہ خبر آئی ملک کشمیر ماحولیات اور نظام تعلیم میں دوسرے نمبر پر آگیا۔واہ نظام کو درست کرنا کوئی ہم سے سیکھے یا ہماری قلم دوات کنول سرکار کے نقش قدم پر چلے۔خبریں اڑانے والے تو اپنا کام کرتے رہیں گے کہ سرینگر کی پینسٹھ فیصد آبادی کا فضلہ آبی پناہ گاہوں میں چلا جاتا ہے۔اس کا کیا تک ہے ۔کسے نہیں معلوم ہم جھیل ، دریا ، آبی پناہ گاہیں سال بھر صاف کرتے رہتے ہیں پھر ماحولیات درست کیوں نہ ہو۔اور تعلیمی نظام کو درست کرنے کا ہم نے جو نیا طریقہ ایجاد کیا ہے اس پر ہم قومی ایوارڈ ہی نہیں عالمی ایوارڈ کے مستحق ہیں۔سکول کالج نصف وقت کسی نہ کسی بہانے بند رکھتے ہیں تو ہوگیا نا تعلیمی نظام درست۔جب بانس نہ رہی تو بانسری کیسے بجے۔
موج منانے کی بات اور بھی ہے کہ قلم دوات کنول سرکار عام معافی کا اعلان کرگئی ہے اور ان بچوں کے خلاف ایف آئی آر واپس لے رہی ہے جو پہلی بار سنگباز بنے۔کیا بات ہے دلی کا دل وسیع ہو گیا ۔وہ جو جادو کی جپی سے کشمیری دل جیتنے کا اسکرپٹ لکھا گیا تھا اس پر شوٹنگ ہونے والی ہے۔گانے بجیں گے ، ڈول تاشوں کی دھن پر رقص ہو گا کہ ہم نے تمہیں معاف کیا، ہم نے تمہیں معاف کیا۔اب کی بار مودی سرکار میں قومی دھارے میں شامل ہو جائو ۔کنول کے پھول کھلائو۔قلم دوات ہاتھ میں لیکر تعلیم پر دھیان دو اور پھر جو بڑے ہو جائو گے تو وردی پوش طاق میں ہیں ۔وہ تو بھائی اور بات ہے کہ اس وقت مملکت خدادا کا سیدھا الزام لگتا ہے۔سنا ہے دلی والے دنیش بابو پھر ملک کشمیر پدھاریں گے جادو کی جپی کا دوسرا دور شروع کریں گے۔طلبا سے بات کرنے والے ہیں ۔ مودی سرکار کے زیر سایہ من کی بات کریں گے ۔کسی کی سنیں نہ سنیں اس کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں کہ جب ستر سال نہ سنا آج سننے کی کیا ضرورت؟
لگتا ہے کہ جاد وکی جپی کے ساتھ بریانی بھی کھلائیں گے ۔ہاں بریانی پر سابق بیروکریٹ سونالی کمار کی کتاب یا د آئی جس میں تحریر ہے کہ اہل سیاست کو بریانی نہ کھلانے پر تبدیلی عمل میں آگئی۔مطلب وہ جو کشمیری کہتے ہیں کہ پیٹ کا کینہ سب سے بڑا ہوتا ہے بلکہ مہلک ہوتا ہے ،اس کا شکار میڈم بھی ہو گئی۔کسے نہیں معلوم اہل سیاست کا دماغ بھلے ہی چھوٹا ہو لیکن پیٹ بڑا ہوتا ہے ۔اس میں جتنا ڈالو سما جاتا ہے پھر بریانی کی کیا بات ہے ؎
دونوں کے درمیان ہیں بے انت دوریاں
امکان اتصال کہاں خوب و زشت میں
نیتا کی توند دیکھ کے آتا ہے یہ خیال
دوزخ کو کہاں لے کے جائے گا بہشت میں
ایک دلچسپ خبر ہے کہ بروڈہ شہر کے ایک علاقے میں بنک ڈکیتوں نے تین دوکانوں کے نیچے سے چالیس فٹ سرنگ کھود کر بنک میں چوری کی۔ہمارا مشورہ کوئی مانے نہ مانے لیکن ہم ہمیشہ مشورہ مفت دیتے ہیں کیونکہ ایک ہم کشمیری ہیں دوسرے ہم صحافی ہیں۔ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ ملک کشمیر کے پہاڑی علاقوں کو ملانے کے لئے سرنگوں کی اشد ضرورت ہے ۔ جبھی تو یہ دور دراز علاقے ایک دوسرے سے ملے رہیں گے اور ان کے بیچ کا فاصلہ کم ہوگا ۔مطلب ٹنل کیا کھدی لوگوں سے لوگ اور دلوں سے دل ملیں گے۔مانا کہ ٹنل کھودنے کا کام بہت مشکل ہے اور اس میں کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے لیکن ہماری بات سنیں تو ان ڈکیتوں کو فوراً کام پر لگایا جائے۔بغیر انٹرویو اور فارم بھرے انہیں ملک کشمیر میں ٹنل کھودنے کا کام سپرد ہو ۔ہمارے انجیٔنیر دیکھتے رہہ جائیں گے اور اہل سیاست افتتاحی رسم انجام کے بدلے سنگ بنیاد رکھنے میں خوشی محسوس کریں گے۔ سنگ بنیاد یعنی سیاسی اہلکار کے نام کی تختی دکھنی چاہئے پھر پروجیکٹ مکمل ہو نہ ہو اس کی ذمہ داری حالات پر ہے کہ وہ ٹھیک رہیں تو کام ہوگا ورنہ۔۔۔۔ یہ مشورہ ہم اس لئے بھی دے رہے ہیں کہ اپنے شہر کے کسی منچلے اور دل جلے نے تنگ آکرایک زیر تعمیر بیت ا لخلا ئی کی دیوار پر کوئلے سے لکھ دیا کہ افتتاح کا انتظار وزیر نہیں ملتا۔
سنا ہے بھارت ورش اور مملکت خداداد کسی مسلے پر یکجا ہو ں نہ ہوں لیکن آلودگی یکسان ہوتی ہے۔دلی ، پنجاب ، یو پی ہریانہ میں پچھلے دنوں سے زہریلی آلودگی نے گھیر رکھا ہے لیکن دھواں تو کچھ زیادہ ہی پریشان کر رہا ہے ۔ایسے میں خبر آئی کہ پنجاب کے آر پار بھی یہ مسلہ ہے۔اسی لئے پاک پنجاب اور مشرقی پنجاب کے وزرائے اعلیٰ اس مسلے پر یکسان حکمت عملی پر قدم اٹھانے والے ہیں۔مطلب دھواں اور آلودگی آر پار موجود ہے اور اس کے بیچ روکنے والی کوئی سرحد نہیں۔یعنی محبت کی لہریں سرحدوں کو پھلانگتی ہیں اور دھواں کوئی کانٹے دار تار نہیں مانتی۔ایسے میں پنجابی پنجابی بھائی بھائی ، شہباز شریف اور امریندر سنگھ یہ غزل گنگناتے پھرتے ہیں ؎
تیرا ہر مرض الجھتا میری جان ناتوان سے
جو تجھے زکام ہوتا تو مجھے بخار ہوتا
جو میں تجھ کو یاد کرتا تجھے چھینکنا بھی پڑتا
میرے ساتھ بھی تویہی بار بار ہوتا
کنول والوں کا شاہ تو بادشاہ ہے ، جو چاہے کر کے دکھاتا ہے کہ مودی اسے مرد میدان یعنی Man of Matchکہتا ہے۔ مظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات کراکے یوپی الیکشن جتوایا۔جسے چاہے خلا میں پیسے کمانے کی تربیت دے۔اسی لئے تو جے امت شاہ نے پچاس ہزار بزنس میںلگا کر اسی کروڑ کمائے۔اب تو الزام ہے کہ اس کا گجرات میں سہراب الدین کیس سننے والا جج مشکوک حالت میں مرا ۔جج موصوف کی بہن کا الزام ہے کہ بھائی کو شاہ دوست فیصلہ سنانے کے لئے ایک سو کروڑ کی رشوت کی پیش کش ہوئی لیکن دنیا کے سب سے بڑے جمہور میں اکا دکا لوگ منہ کھول رہے ہیں باقیوں کو تو سانپ سونگھ گیا ہے کہ آخر کنول والا شاہ تو ان کا بادشاہ ہے۔
چلتے چلتے یہ دلچسپ اور دل کو خوش کرنے والی خبر سن لیجئے کہ اب پینسٹھ سال کی عمر تک لوگوں کو جوان ہی تصور کیا جائے گا۔عالمی صحت ادارے WHO کی رپورٹ میں اٹھارہ سے پینسٹھ برس تک لوگوں کو جوان مانا جائے گا یعنی ایک پیر قبر میں ہو اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہم گاتے جائیں گے کہ ابھی تو میں جوان ہوں!!
رابط [email protected]/
فون نمبر9419009169
�����