گزشتہ دنوں ریاستی ڈرگ پالیسی کے حوالے سے شائع شدہ ایک خبر میں یہ افسوسناک انکشاف کیاگیا ہے کہ ڈرگ پالیسی لاگو ہونے کے باوجود بھی سٹنڈارڈ ٹریٹمنٹ پروٹوکال کاکہیں نام ونشان نہیں ہے جس کے نتیجہ میں غریب مریض ڈرگ پالیسی کے فوائد سے مسلسل محروم ہیں۔اس ضمن میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ سٹنڈارڈ ٹریٹمنٹ پروٹوکال سکمز صورہ اور گورنمنٹ میڈیکل کالج میں لاگو ہوگا اور ریاستی شعبہ صحت اس کے تحت کام نہیں کرتا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محکمہ صحت ابھی اسٹنڈارڈ ٹریٹمنٹ پروٹوکال تشکیل دے رہا ہے ۔اول تو محکمہ صحت کے حکام کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ڈرگ پالیسی محکمہ صحت و طبی تعلیم کے بالعموم اور محکمہ صحت کیلئے ہی بالخصوص لاگو کی گئی تھی جبکہ سکمز کو یہ استثنیٰ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی گورننگ باڈی کے ذریعے ڈرگ پالیسی منظور کرے ،تو ایسے میں سٹنڈارڈ ٹریٹمنٹ پروٹوکال سکمز یا میڈیکل کالج سے منسلک ہسپتالوں تک محدود ہونا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ریاست میں نام کیلئے تو ڈرگ پالیسی نافذ ہے تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے ۔جنوری2012میں انتہائی طمطراق کے ساتھ منظور کی گئی ریاستی ڈرگ پالیسی پر عملدرآمد کا یہ عالم ہے کہ یہاں6سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ڈرگ مافیا کی طوطی بول رہی ہے اور مریضوں کو مجبوراً انتہائی مہنگے داموں ادویات خریدنا پڑتی ہیں۔ریاستی کابینہ نے 12جنوری2012کو ایک فیصلہ زیر نمبر10/02/2012کے تحت ریاست میں نئی ڈرگ پالیسی کے اطلاق کو منظوری دے دی تھی جس کے بعد 2فروری 2012کو صحت و طبی تعلیم محکمہ کی جانب سے باضابطہ ایک حکمنامہ زیر نمبر80-HME of 201کے تحت ریاست میں ڈرگ پالیسی کے اطلاق کو منظوری دیتے ہوئے ریاستی صحت و طبی تعلیم محکمہ کے تحت آنے والے تمام سرکاری ہسپتالوں میں اس پالیسی کا حکمنامہ صادر کیاگیاتھا جبکہ شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے حوالے سے اس حکمنامہ میں کہاگیا تھاکہ یہ ادارہ اپنی گورننگ باڑی کی منظوری سے ریاستی ڈرگ پالیسی اور لازمی ادویہ فہرست کا اطلاق عمل میں لانے کا فیصلہ لے گا۔اس کے بعد اُس وقت کے وزیر صحت شام لعل شرما نے اپریل2012سے اس پالیسی کو نافذ العمل کرنے کا اعلان کیاتھا تاہم جب سے اب تک 6برس گزر گئے لیکن ڈرگ پالیسی نافذ نہیںہوپارہی ہے۔ محکمہ کے کئی ڈاکٹروں اور انتہائی بااثر ڈرگ مافیا کی آپسی ملی بھگت کی وجہ سے اس پالیسی کا نفاذ ممکن نہیں ہوپارہا ہے۔اس مافیا کی مداخلت کا یہ عالم ہے کہ ڈرگ پالیسی منظور ہونے کے 6برس بعد بھی حکومت نے آج تک اس پالیسی کے تحت لازمی ریاستی ڈرگ کمیٹی کو تشکیل نہیں دیا ہے۔عالمی صحت تنظیم نے 356ادویات تجویز کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ حکومت ہند نے بھی 348ادویات کو لازمی ادویات کی فہرست میں رکھا ہے جنہیں تمام سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب رکھنا لازمی قرار دیاگیا ہے جس کے نتیجہ میں مرحلہ وار بنیادوں پر ادویات کے حوالے سے بازاروں پر انحصار ختم ہوجاتا۔اگرچہ ریاستی حکومت نے بھی ڈرگ پالیسی میں ان ادویات کی فہرست تیار کررکھی ہے تاہم ان کی دستیابی ابھی تک ایک خواب ہے۔ ڈرگ پالیسی کے مطابق صحت و طبی تعلیم محکمہ کو ماہرین پر مشتمل ریاستی ڈرگ کمیٹی تشکیل دینا تھی جس میں کلنیشنز ،مائیکرو بیولاجسٹس،فارماسسٹس اور آزاد ماہرین کے علاوہ محکموں کے سربراہان شامل کئے جانے تھے تاکہ وہ سرکاری ہسپتالوں کیلئے لازمی ادویہ کی فہرست تیار کرنے کے علاوہ ہر دو برس بعد اس پر نظر ثانی کریں تاہم آج تک ایسی کوئی کمیٹی ہی نہیں بنائی گئی ہے جبکہ انڈین سسٹم آف میڈیسن کے تحت بھی ایسی ہی ایک کمیٹی کے قیام کی تجویز تھی تاہم وہ کمیٹی بھی تاحال نہیں بنی ہے جس کے نتیجہ میں لازمی ادویہ کی فہرست ہی تیار نہیں ہوپارہی ہے اور یوں ڈرگ پالیسی کے اطلاق کو طول دیاجارہا ہے۔ڈرگ پالیسی کے عدم اطلاق کے نتیجہ میں ریاستی ہسپتالوں میں تعینات تمام ڈاکٹر جنرک ناموںکے بجائے کمپنی کی جانب سے تجویز کئے ناموں سے ادویات تجویز کررہے ہیں جبکہ ڈرگ پالیسی کے تحت ادویات کو اپنے اصل ناموں سے تجویز کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ حکومت اُس ڈرگ مافیا کے دبائو میں آگئی ہے جو ڈرگ پالیسی پر عدم اطلاق کے نتیجہ میں سالانہ ایک ہزار کروڑ روپے کا کاروبار کررہاہے۔ ڈرگ مافیا اور ڈاکٹروںکی ملی بھگت کی وجہ سے حکومت نے ڈرگ پالیسی کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے اور حکومتی سطح پر اس کااطلاق یقینی بنانا تو دور ،اس پر بات تک نہیں کی جارہی ہے۔2فروری 2012کو ڈرگ پالیسی کے اطلاق کے ضمن میں باضابطہ حکمنامہ تو جاری کیاگیا تاہم وہ حکمنامہ حکم نواب تادر نواب ہی ثابت ہوا اور ڈرگ پالیسی آج بھی کاغذات تک ہی محدود ہے جبکہ مریضوں کو ادویات کیلئے ترسایا جارہا ہے اور ڈرگ مافیا مجبور مریضوں کو دودو ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔