وادی کے طول و عرض سے روزانہ آج کل چرس، پھکی اور اسی قبل کی منشیات کی ضبطی اور منشیات کا دھندہ کرنے والوں کی گرفتاریاں عمل میں لانے کی خبریں تواتر سے موصول ہورہی ہیں، جبکہ وقفے وقفے سے بھنگ کی فصلیں تباہ کرنے کی کارروائیاں بھی عمل میں آتی ہیں۔ یہ خوش آئندہ رجحان ہے جس کا عوام کے سنجیدہ فکر حلقوں کی جانب سے کھلے دلوں اعتراف کیا جارہا ہے ۔ لیکن عوامی حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ جب یہ فصلیں اُگ کر تیار ہوجاتی ہیں، اُس وقت تک ہماری انتظامیہ کیوں خواب خرگوش میں رہتی ہے، کیونکہ یہ فصلیں تیار ہونے کے لئے چند گھنٹوں یا چند دنوں کی نہیں بلکہ ایک پورے فصلی موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح محنت کش کسان اپنا خون پسینہ بہا کر خوردنی اجناس کی فصلیں تیار کرتے ہیں، بعینہ یہ فصلیں بھی تیار کی جاتی ہیں۔ مگر اتنے طویل عرصہ تک یہ عمل کس طرح پولیس، محکمہ مال اور محکمہ آبکاری کی نظروں سے اُوجھل رہتا ہے، یہ ایک سوال ہے جس کا جواب سماج چاہتا ہے اور انتظامیہ کو یہ جواب دینا چاہئے۔جس عنوان سے کچھ عرصہ سے منشیات کی مختلف اقسام کی بھاری پیمانے پر ضبطی عمل میں لائی گئی ہے، اس سے یہ اشارہ مل رہا کہ ریاست کے اندر اس خوفناک اور تباہ کُن شے کے ساتھ کس پیمانے پر مختلف عناصر کے مفادات فروغ پا رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ منشیات کا دھندہ ساری ریاست میں خطرناک طریقے پر اپنے پنجے گارڑ ھ چکا ہے اور ہزاروں نوجوان اس زہریلی لت کا شکار ہوگئے ہیں۔ منشیات کے کاروبار کا فروغ اس وقت ساری دنیا میں سماجی ڈھانچوں کی شکست وریخت کا ایک بہت بڑا سبب بنا ہوا ہے اور امریکہ جسے سُپر پاور ملک میں بھی اس وباء کی وجہ سے سماجی تانے بانے بکھر رہے ہیں، جبکہ لاطینی امریکہ،براعظم افریقہ اورجنوبی ایشیا میں میں متعدد ممالک اس میں ملوث مافیا کے ہاتھوںتاخت و تاراج ہو چکے ہیں، کیونکہ اکثر اس کاروبار سے ارب پتی بننے والے لوگ مختلف راہوں سے سیاسی اقتدار واختیار کی قربت حاصل کرکے بالآخر فیصلہ سازوں کو روپ دھار لیتے ہیں۔ اس طرح عوامی رائے اور سوچ کو انکی سوچ کے تابع بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے خوفناک خطرات کے بیچ ہماری انتظامیہ ، سماج ، دینی و سماجی اداروں کو خواب خرگوش سے بیدار ہو جانا چاہئے کیونکہ ڈور ہاتھوں سے تیزی کے ساتھ چھوٹتی جارہی ہے۔ہماری ریاست ،میں جہاں تقریباً40فیصد غذائی اجناس بیرونِ ریاست سے درآمد کئے جاتے ہیں، زرعی اراضی کا ایک بھاری حصہ منشیات کی کاشت کے لئے استعمال ہوتاہے ۔اس کے متعلق مختلف محکموں کے پاس موجود اعداد وشمار نہ صرف متضاد ہیں بلکہ مشکوک بھی ہیں۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ ہزاروں کنال اراضی پر منشیات کی کاشت ہوتی ہے ، جس سے اربوں روپے مالیت کی مختلف منشیات تیار کی جاتی ہیں ۔ایسا کیوں ہے؟اس بحث میں پڑے بغیر منشیات کے زیرکاشت اراضی کاحجم بذات خود ایک انتہائی تشویشناک امرہے کیونکہ اس زمین سے اْگنے والا زہرصرفے کے لئے بالآخر سماج میں ہی راہ پاتاہے ، جس سے نسلوں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں۔ سماج کے اندر پنپنے والی بے شمار بیماریوں کا سبب اس دھندے سے حاصل ہونے والی غیر قانونی دولت ہے ، جو سماجی کو ایک نئی اور خطرناک طبقاتی کشمکش کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس خوفناک صورتحال پر فوراً جاگنے کی ضرورت ہے۔اس وقت چونکہ ان کی کٹائی کا سیزن چل رہا ہے اور ایسے میں چوٹیاں کاٹنے کے واقعات سے وادی بھر میں خوف و ہراس کا جو عالم برپا ہوا ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر یہ عناصر سرگرم ہونگے۔ لہٰذا اس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس طرح کے حالات اس ڈرگ مافیا کی نقل و حمل کے موافق ہوتے ہیں۔ ایسے میں انتظامیہ کو فوری طور پر متحرک ہوکر اس تباہ کن سرگرمی کا قلع قمع کرنے کے لئے ہر اعتبار سے متحرک ہونا چاہئے۔