مشتاق الاسلام
پلوامہ //’قومی زعفران مشن ‘ کے مرکزی سرکاری کے 411 کروڑ روپے پروجیکٹ کو محکمہ زراعت کی ناقص منصوبہ بندی سے ناکام ہوگیا ہے اور جس مقصد کی خاطر اسکی شروعات کی گئی تھی وہ مقصد بھی مکمل طور پر فوت ہوا ہے۔پانپور کے زعفران گرورس نے الزام لگایا ہے کہ مشن کی ناکامی میں کروڑوں روپے کی بندر بانٹ بنیادی محرکات میں سے ایک ہے جسکی تحقیقات بڑے پیمانے پر کی جانی چاہیے۔ گرورس کا کہناہے کہ سکیم محکمہ زراعت کے ذریعہ سال 2010میں بڑے دھوم دھام سے شروع کی گئی جسے 2014میں مکمل ہونا تھااور اس میں 2018 تک توسیع کی گئی۔ اس سکیم کے دو اہم جز تھے۔ ایک زعفران کی پیدوار بڑھانے کیلئے زعفران کے بیج کی فراہمی اور دوسرا بورویلوں کے پانی کو ڈرپ سسٹم کے ذریعہ دستیاب کرانا تھا۔ زعفران اراضی پر ڈرپ سسٹم کیلئے 128بورویل کھودنے کی نشاندہی کی گئی اور اسکے لئے 125 کروڑ روپے منظور بھی کئے گئے۔ تاہم زمینی سطح پر صرف 71بور ویل کھودے گئے۔نیز جو بور ویل کھودے گئے وہ مکمل ناکارہ ہوگئے اس طرح سرکاری خزانے کو کروڑوں روپیوں کا چونا لگا اور زعفران مشن ناکام ہوگیا۔
زعفران اراضی
پانپورتحصیل میں تقریباً 3200ہیکٹر اراضی ہے جس پر زعفران اگایا جاتا ہے، جب کہ پورے کشمیر میں زعفران کی کاشت کے تحت کل زمین 3715ہیکٹراراضی ہے۔زعفران گروورس کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت کو زعفران اراضی کیلئے پانی کی فراہمی کی خاطر ڈرپ سسٹم کیلئے 128 بور ویل( کنویں) کھودنے تھے جن پر 125 کروڑ روپے خرچ کرنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ ڈرپ سسٹم لگانے کیلئے محکمہ نے کسانوں سے فی کنال 5ہزار روپے بھی وصول کئے۔ محکمہ کا دعویٰ ہے کہ اب تک 128 میں سے صرف 71 بور ویل کھودے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک بور ویل کی تعمیر پر تقریباً ایک کروڑ روپے لاگت آئی اور ایک بور ویل 30 ہیکٹر اراضی کو سیراب کرنے کیلئے کافی ہے۔
گروورس کیا کہتے ہیں؟
زعفران گروورس نے انکشاف کیا کہ بور ویلوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود ایک بور ویل ایک کنال اراضی کو بھی سیراب نہیں کرسکا،بلکہ یہ منصوبہ مکمل طور ناکام ہوگیا ہے۔ جن گروورس کی زمین میں بورویل کھودے گئے انہوں نے ڈرپ سسٹم کی ناکامی کا زمہ دار محکمہ زراعت کو ٹھہرایا ہے۔ محمد عبداللہ ساکن لدھو پانپور کا کہنا ہے کہ سال 2016 میں انہوں نے ڈرپ سسٹم کیلئے اپنی ملکیتی اراضی محکمہ زراعت کو فراہم کی ، لیکن 6 سالوں سے بورویل ناکام پڑا ہے۔لدھو پانپور کے ایک اور شہری ماسٹر محمد عبداللہ کی اراضی پر کھودا گیا بورویل بھی بے کار ہے۔ گنڈی بل کے نمبردار نیاز احمدنے کہا کہ سال 2014 میں انہوں نے 6 مرلہ اراضی کو بورویل کھودنے کیلئے دی، لیکن دیگر مشینری کی عدم دستیابی سے بورویل تاایں دم بے کار پڑا ہوا ہے۔دوسو پانپور کے محمد مقبول نے کہا کہ ان کے علاقے میں 6 بورویل کھودے گئے جن میں سال 2016 میں ایک بورویل کو ڈرپ سسٹم کے لئے استعمال میں لایا گیا تاہم دوسرے سال سے دھول چاٹ رہا ہے۔دوسو کے ہی سید اویس احمد نے کہاکہ ان کے گائوںمیں5 بورویل بے کار پڑے ہوئے ہیں۔چندہار پانپور کے محمد اشرف گنائی کا کہناہے کہ زراعت محکمے کی لاپرواہی سے پانپور میں بنائے گئے قریبا تمام بورویل زنگ آلودہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اراضی پر بنائے گئے بورویل کی مشینری، جس کی قیمت لاکھوں روپے تھیں، کو اب چوروں نے لوٹ لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بورویل شیڈوں پر نگرانی کا عملہ تعینات نہ ہونے سے اکثر بورویلوں کی قیمتی مشینری کو لوٹا گیا ہے۔میج پانپور کے غلام نبی کھانڈے نے کہا کہ پچھلے 6 سالوں سے اس کی زمین پر بنایا گیا بورویل بے کار پڑا ہے۔منپورہ پانپور کے نمبردار غلام محی الدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی زراعت محکمے کو بورویل کے لئے زمین فراہم کی اور پچھلے کئی سالوں سے وہ بورویل کے ذریعے زعفران اراضی سیراب کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ زراعت بورویل کے لئے ڈیزل کے خرچہ کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔محی الدین کا کہنا ہے کہ منپورہ میں 6 بورویل بنائے گئے لیکن ان میں 5 بورویل، جو کہ عابد ریاض راتھر،افضل خالق راتھر،فیاض علی راتھر اور مجید علی راتھر کی اراضی پر بنائے گئے، مکمل طور بے کار پڑے ہیں۔
بور ویل کہاں کہاں ؟
دوسو میں 5،لیتہ پورہ میں9،منڈکھپال میں 2،ووین پانپور میں4، کھریو میں 1،منپورہ میں6 ، سانبورہ میں1، پتل باغ میں1، شار شالی میں4،لدھو میں2،گنڈی بل میں1،چند ہار میں7،نمبلہ بل میں1،کرنسو میں 2،بارسو میں3،اندروسہ میں1،میج میں2،نمبلہ بل 1،آلوچی باغ1،لالپورہ 1،فرستہ بل 1،کھنموہ 2، بالہامہ 2اور بڈگام میں 4 بورویل کھودے گئے۔
پروجیکٹ کی صورتحال
جہاں جہاں بور ویل کھودے گئے، وہاںہر ایک بورویل کیساتھ ٹین کا شیڈ بنایا گیا جہاں موٹر نصب کئے گئے اور زعفرانی اراضی سیراب کرنے کیلئے ڈرپ سسٹم لگائے گئے۔ لیکن تقریباًسبھی 71بور ویل بیکار پڑے ہیں۔متعدد بور ویلوں کے پانی کے موٹر یا تو چرائے گئے، یا زنگ آلودہ ہوچکے ہیں۔ڈرپ سسٹم کی پائپیوں کا بھی یہی حال ہے۔پہلے پہل جب افسران ان بور ویلوں کو دیکھنے آتے تھے تو پانی کے موٹرچلانے کیلئے محکمہ زراعت کی جانب سے پیٹرول ا ڈیزل دیا جاتا تھا لیکن پروجیکٹ ختم ہونے کیساتھ ہی یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور زعفران گروورس کے پاس ایندھن کیلئے پیسے نہیں تھے لہٰذا یہ سسٹم بیکار پڑ گئے۔
محکمہ زراعت کیا کہا ہے
چیف ایگریکلچر آفیسر پلوامہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ زعفران مشن مکمل طور پر ناکام نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ مشن کیلئے ابتدائی طور پر رقوم واگذار کئے لیکن بعد میں رقوم کی واگزاری روک دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں مرکز کیساتھ متعدد بار خط و کتاب کی گئی لیکن ابھی تک بقایا رقم وازگذار نہیں کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ زعفرانی اراضی میں نمی برقرار رکھنے کیلئے پانپور اور اسکے ملحقہ علاقوں میںڈرپ سسٹم کیلئے 128بور ویل کھودنے کی نشاندہی کی گئی تاہم صرف 71کھودے گئے۔انہوں نے کہا کہ57بور ویلوں کیلئے مرکز کی طرف سے پیسے واگزار نہیں کئے گئے۔انکا کہنا تھا کہ جونہی پیسوں کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے بور ویل کھودے جائیں گے۔