پلوامہ حملہ کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں تجارت یا تعلیم کی غرض سے عارضی طور مقیم کشمیریوں پر حملوں کا سلسلہ ابھی تک مکمل طور تھما نہیں ہے اور اب بھی وقفے وقفے سے مختلف ریاستوں میں کشمیریوں کو ہراساں ،یہاں تک کہ لہو لہان کرنے کی خبریں موصول ہورہی ہیں جس کے نتیجہ میں اب تک سینکڑوں کشمیری واپس اپنے گھروں میں لوٹ چکے ہیں جن میں بیشتر طالب علم ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ مخصوص ذہنیت رکھنے والے مٹھی بھر لوگوں کا کام ہے جنہوںنے پلوامہ حملہ کی آڑ میں پورے ملک میںکشمیریوں کے خلاف ایک ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے تاہم گزشتہ چند روز سے جس طرح بھارتی سیول سوسائٹی کے کچھ ذمہ دار افراد کی جانب سے مشتعل بیانات آرہے ہیں ،وہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کررہے ہیں اور اب افسوس کا مقام ہے کہ اس دوڑ میں میگھالیہ کے گورنر بھی کود پڑے ہیں۔متنازعہ بیانات کیلئے مشہور میگھالیہ کے گورنر تتھا گتا رائے نے ایک سابق فوجی جنرل کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں اس تجویز کی تائید کی کہ پلوامہ حملہ کے ردعمل میں نہ صرف کشمیری مصنوعات کا بائیکاٹ کیاجائے بلکہ امر ناتھ یاترا بھی چند برسوں کیلئے بند رکھی جائے اور لوگ کشمیر کی سیاحت پربھی نہ جائیں تاکہ کشمیری عوام معیشی طور تباہ ہوسکیں ۔لوگوں کے ہجوم میں چند بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی جانب سے کشمیریوں پر حملے قابل فہم تھے کیونکہ اُن کا ایجنڈا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے تاہم جب کسی ریاست کے گورنر کی جانب سے اس طرح کے عناصر کی پشت پناہی کی جائے تو معاملہ گھمبیر بن جاتا ہے ۔یہ تو اچھا ہوا کہ ریاست کے سابق گورنر اور سینئر کانگریس لیڈر ڈاکٹر کرن سنگھ نے جوابی بیان میں اُنکی خوب خبر لی تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ ریاستوں میں گورنر وں کی تعیناتی کی ذمہ دار مرکزی حکومت نے میگھالیہ کے گورنر کے اس بیان کا کوئی نوٹس نہیںلیا اور نہ ہی اُن کی کوئی سر زنش کی گئی حالانکہ مرکزی حکومت کا آفیشل مؤقف ہے کہ ملک کی سبھی ریاستوں میں مقیم کشمیریوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے ۔اگر واقعی مرکز ی حکومت کا یہی موقف ہے تو پھر مسٹر رائے سے وضاحت طلب کیوںنہیں کی گئی اور کیوں اتنا اشتعال انگیز ٹویٹ کرنے پر اُن کی سرزنش نہیں کی گئی ؟۔ پلوامہ حملہ میں انسانی جانوں کے زیاں پر ملکی سطح پر ناراضگی کی لہر پیدا ہونا ایک فطری ردعمل تھا تاہم اس حملہ کی آڑ میں ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ایک منصوبہ بند پلاٹ کا حصہ لگتا ہے جس کے تحت بادی النظر میں کشمیریوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔یہ محض ہوائی بات نہیں ہے بلکہ گزشتہ برس جولائی میں کانسٹی چیوشن کلب آف انڈیا میں منعقدہ ایک کانکلیو میں مخصوص ذہنیت والے بیشتر مقررین نے کہا تھا کہ جب تک بھارت میں مقیم کشمیریوںمیں خوف پیدا نہیں کیاجاتا ،پنڈتوں کی وادی واپسی پر کوئی بات نہیں کرے گا۔اُس کانکلیو میں وہ سبھی لوگ شامل تھے جن کی نظریاتی وابستگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کانکلیو اُن لوگوں نے منعقد کیا تھا جن کا موجودہ مرکزی حکومت سے براہ راست نہ سہی لیکن بالوسطہ تعلق ضرور ہے اور ان کا نظریہ بھی مشترک ہے جبکہ ماخذ بھی ایک ہی ہے ۔آج بھی ملک میں کشمیریوں کو خوفزدہ کیاجارہا ہے تو اُن لوگوں کو اس میں اپنی جیت نظر آرہی ہے تاہم اگر بے باکی سے بات کی جائے تو یہ جمہوری بھارت کی ہار ہوگی کیونکہ جمہوری بھارت میں بلا لحاظ مذہب و ملت سب کو اظہار و عمل کی آزادی حاصل ہے اور اس ملک میں رنگ ،نسل یا مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے ۔آج اگر ایک مخصوص سوچ کے حامل لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کو خوف زدہ کرکے اُنہیں اس قدر پشت بہ دیوار کیاجائے کہ وہ کشمیر میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں تو یہ اُس نظریہ کی موت ہوگی جو گاندھی اور امبیدکر نے بھارت کے متعلق پیش کیاتھا اور جن کی بنیاد پر یہ ملک استوار ہوا تھا۔پلوامہ حملہ یا اس جیسے دوسرے واقعات کی آڑ میں کشمیریوں کو نشانہ بنانا آسان ہے لیکن اس کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔کشمیری پہلے ہی اپنے آپ کو انڈین مین سٹریم سے لاتعلق محسوس کررہا ہے اور ایسی حرکات سے وہ مزید اس سسٹم سے بے گانہ ہوجائے گااور یہی احساس پھر ملک کیلئے مسائل پیدا کرنے کا مؤجب بن سکتا ہے ۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ملک میں سیکولر روایات کے حامی لوگ ابھی مرے نہیں ہیں اور آج بھی ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہے جو گنگا جمنی تہذیب ،مخلوط تمدن اور فرقہ وارانہ یگانگت میں یقین رکھتے ہیں اور جن کے نزدیک کشمیری ہونا کوئی گناہ نہیں ہے ۔ایسے لوگ امید کی ایک ایسی روشن کرن ہیں جن سے فرقہ واریت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا پاش پاش ہورہا ہے ۔اس ملک کو ایسے ہی لوگوں کو ضرورت ہے اور ایسے لوگوں کو آگے آکر کھل کر اُس نظریہ کی بات کرنی چاہئے جس پر بھارت کی بنیادیں استوار ہوئی تھیں ،نہ کہ اُن لوگوںکو سر چڑھانا ہے جو میگھالیہ کے گورنر کی طرح صرف منافرت کی سیاست کرنا جانتے ہوں ۔الیکشن سیاست اپنی جگہ ،لیکن محض ووٹ بنک سیاست کیلئے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب کو بڑھاوا دینا اس ملک کے مفاد میں نہیںہے اور یقینی طور اس ملک کے جو خیر خواہ ہونگے ،وہ ایسی قوتوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کریں گے بلکہ کشمیریوں میں اپنائیت اور تحفظ کا احساس جاگزیں کرنے کیلئے ہر وہ اقدام اٹھائیں گے جو ضروری ہے ۔امید کی جانی چاہئے کہ یہ سب بنا کسی مزید تاخیر ہوگی کیونکہ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔