طارق شبنم
اردو زبان کے حوالے سے نسائی ادب کی اگر بات کی جائے توکشمیر میں فی الوقت اس حوالے سے صورتحال زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے ۔ میری جانکاری کے مطابق چند ہی ماہر خواتین ادیب و شاعرات، جن کے نام انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں،موجودہ ادبی منظر نامے پر نظر آتی ہیں،لیکن خوش آئیند بات یہ ہے کہ یہ ادب نواز خواتین مختلف صنفو ں جیسے ،افسانہ،ناول ،تنقید ، شاعری اور کالم نگاری میں طبع آزمائی کر کے مقامی اور قومی سطح پر بہترین انداز میں اپنا رول نبھا رہی ہیں۔ اس بھی خوش آئیند بات یہ ہے کہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی اچھی تعداد اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس ضمن میں قلم و قرطاس سے اپنا تعلق جوڑنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اگر نئی نسل سے تعلق رکھنے والی ان ادب نواز لڑکیوں کا یہ شوق و ذوق برقرار رہا اور بہتر انداز میں ان کی تربیت اور حوصلہ افزائی ہوئی تومستقبل قریب میں نسائی ادب کے حوالے سے صورتحال بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے ۔ نسائی ادب کے حوالے سے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیوں کہ میں زیر نظر مضمون میںکشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک معروف خاتون ادیبہ و افسانہ نگار ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی قادری ،جن کا قلمی نام نیلو فر ناز نحوی ہے، کے حوالے سے بات کرنے جا رہا ہوں جواردو ،کشمیری اور فارسی زبانوں میں لکھتی ہیں اور عرصہ دراز سے شعر و ادب کی زُلفیں سنوارنے میں منہمک ہیں ۔ فارسی زبان کے حوالے سے آپ نے بہت کام کیا ہے ۔آپ کے افسانے اور مضامین وادی کے مختلف اخبارات اور رسائیل و جرائید میں شایع ہوتے ہیں ،اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی آپ کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔
نیلوفر ناز نحوی کا جنم سرینگرکے کلاش پورہ علاقے کے ایک علمی گھرانے میں ہوا ۔ ابتدائی تعلیم سرکاری سکول خانقاہ معلی میں حاصل کرنے کے بعد آپ نے وومنز کالج ایم اے روڑ سرینگر سے گریجویشن کی اور بعد ازاں کشمیر یونیورسٹی سے فارسی میں ایم ۔اے پھر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں، جس کے بعد آپ محکمہ ہائیر ایجو کیشن میںبحیثیت لیکچرار تعینات ہوئیں اور جلد ہی ترقی پاکر پروفیسربن گئیں۔ آپ کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا اور علم و ادب سے گہرا شغف رکھتی تھیں ۔انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ترجمہ نگاری سے کیا۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کئی افسانہ نگاروں کی کہانیوں کو فارسی میں تر جمہ کیا جسے ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا ۔انہوں نے طالب علمی کے زمانے میں ہی لکھنا بھی شروع کیا اور ان کی پہلی کہانی ’’سنگ دل خدا‘‘ 1986ء میںروزنامہ آفتاب کے ادبی ایڈیشن میں شایع ہوئی،اس کے بعد آپ لکھتی ہی رہیں۔آپ شعر و شاعری سے بھی دلچیپی رکھتی ہیں ، انشائے اور مضامین بھی لکھتی ہیں اور اب تک آپ کی بارہ کتابیں جن میں ’’غنی کشمیری ۔۔۔حیات اور شاعری‘‘،’’فارسی کی طرف پہلا قدم‘‘ ،’’فارسی کی طرف پہلا قدم ۔۔۔جدید ایڈ یشن ‘‘،’’شہر ہائے نور‘‘(سفر نامہ حج)،’’غنی کشمیری ،جدید ایڈیشن‘‘ ،’’فارسی کی طرف دوسرا قدم‘‘، ’’اچھی کہانیاں اچھے بچوں کے لئے‘‘ (دوجلد)کے علاوہ’’وانجہ وٹھ‘‘ (افسانوی مجموعہ ۔۔۔کشمیری)’’ چنار کے برفیلے ساے‘‘،’’ خاموش آسمان ‘‘اور’’ روزن پہ میرے چاند‘‘ (افسانوی مجموعے ۔۔۔اردو )منظر عام پر آچکی ہیںجب کہ’’ شاہنامہ کشمیر‘‘ ،’’یاد گار ایران‘‘ اور’’ میرے مضامین ‘‘نامی کتابیں زیر ترتیب ہیں ۔کچھ اطلاعات کے مطابق’’ شاہنامہ کشمیر‘‘ جو دو جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے، بھی کچھ دن پہلے چھپ کر آگئی ہے ۔
نیلوفر ناز صاحبہ ادب کو فروغ دینے کے حوالے سے کئی ادبی انجمنوں سے وابستہ رہی ہیں اور فی الوقت ’’جموں کشمیر فکشن رائیٹرس گلڈ ‘‘کی خواتین ونگ کی سر براہ ہیں ۔آپ گلڈ کی ہفتہ وار نشستوں میں تواتر کے ساتھ شرکت کرتی ہیں اور وہاں مختلف زبانوں میں پڑھے جانے والے افسانوں اور دیگر تحریروں پر بصیرت آموز تبصرے کرکے افسانہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ آپ سرینگر میں ہونے والی دوسری ادبی تقریبات میں بھی نظر آتی ہیں ۔ بہترین کار کردگی کے صلے میں ڈاکٹر صاحبہ کوکئی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جن میں نگینہ انٹر نیشنل ایوارڈ، جس سے حال ہی میں ایک ادبی تقریب کے دوران انہیں نوازا گیا،بھی شامل ہے ۔نیلوفر ناز نحوی نے کئی قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کرکے مختلف موضوعات پر مقالے پڑھے ہیں ۔
نیلوفر ناز نحوی افسانوی ادب سے اچھی خاصی دلچسپی رکھتی ہیں اورانتہائی محنت اور لگن سے افسانے تخلیق کرتی ہیں ۔ ان کے مندرجہ بالا افسانوی مجموعے افسانوی ادب کے قارئین میں دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔ان کا اپنا ایک منفرد اسلوب اور لب و لہجہ ہے اور ان کے تحریر کردہ افسانوں میںسماجی نا ہمواریوں اور نا انصافیوں، بچوں کی پرورش کے مسائل اور دیگر مختلف عوامی مسائیل کی بہترین عکاسی ملتی ہے ۔وہ ایک حساس ادیبہ ہیں اور اپنے افسانوں میں نسوانی مسائیل پر سنجیدہ انداز میں فوکس کرتی ہیں ۔ان کے افسانوں میں موضوعاتی تنوع بھی ہے اور عام فہم دلچسپ انداز بیان بھی جو ان کے افسانوںکو ایک نیا انداز بخشتا ہے ۔ مرحوم پروفیسر حامدی کاشمیری ان کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔۔۔۔۔۔
’’نیلوفر ناز کے افسانوں کا اسلوب لسانی بر جستگی اور حقیقت کو خواب میں بدلنے کا جو انداز ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے ۔ان کی افسانہ نگاری کی یہ خوبی بھی نمایاں ہے کہ وہ کرشن چندرانہ طول و طویل تمہید و بیان سے احتراز کرتی ہیں۔ اختصار پسندی ان کے افسانوں کی پہچان ہے
(چاند کے برفیلے سائے ص۔۔۔۔8 )۔
اب ملاحظہ فرمائیں ان کے ایک افسانے سے یہ اقتباس ۔۔
امریکہ پہنچ کر شاذیہ نے دیکھا کہ ریاض کے گھر میں ایک خوبصورت لڑکی تھی ۔شاذیہ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ کون ہے ۔لیکن وہ لڑکی سامنے آئی اور ہاتھ ملاتے ہوئے بولی ۔
’’میں ڈاکٹر صائمہ ،مسز ریاض ۔۔۔اور آپ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’مسزریاض؟‘‘حیرانگی میں تقریباًچلا اٹھی ۔وہ ایک نظر ڈاکٹر صائمہ کو دیکھ رہی تھی اور ایک نظر ریاض کو ۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے اور کیوں کہہ رہی ہے ۔اُس نے اپنے لفظوں کو دہرایا۔
’’ مسز ریاض؟‘‘ڈاکٹر صائمہ بول اٹھی ،’’جی ہاں دلہن صاحبہ میں اس کی بیوی ہوں اور وہ بھی one piece میں‘‘ ۔
’’ تو پھر میں کون ہوں؟‘‘ ریاض نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ۔’’تم میرے والدین کی بہو ہو اور وہ بھی انجینر بہو ‘‘۔ (افسانہ ۔۔۔۔ایک دن کی حکومت )۔
زیر نظر افسانہ میں مصنفہ نے ایک اہم سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔افسانہ تلاش کسی ایک شاذیہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایسی بہت سی لڑکیوں کی کہانی ہے جنہیں شادی کے بندھن میں بندھنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی سرکاری نوکری کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں کیوں کہ سماج کے ایک طبقے میں یہ رسم چلی کہ بغیر نوکری والی لڑکیوں کو کوئی قبول نہیں کرتا ،چاہئے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،خوش اخلاق،شریف اور با سلیقہ ہی کیوں نہ ہو۔شاذیہ ایک ایسا ہی کردار ہے جو آخر میں ایک لالچی گھرانے کی بہو بن کر ان کے عیاش بیٹے کی بھینٹ چڑھ کر انتہائی پرلے درجے کے دھوکے کی شکار ہوجاتی ہے ۔ سماجی موضوعات پر ان کے کئی او ر بہتر ین افسانے بھی ہیں جو سماج کے ماتھے پہ موجود بدنما پھوڑے پھنسیوں کی ماہرانہ انداز میں نشتر زنی کرتے ہیں ۔ نیلوفر ناز نحوی کی افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے بزرگ فکشن نگار نور شاہ یوں رقم طراز ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
’’پروفیسر نیلوفر ناز صاحبہ اپنی کہانیوں میں اختصار سے کام لیتی ہیں اور بڑی بات کو چھوٹے پیرائے میں اپنے ڈھنگ سے خوبصورت جامہ پہنا کر سامنے لاتی ہیں۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے کہانی پن قائم و دائم رکھنا ایک فن ہے وہ اس فن سے بخوبی واقف ہیں ۔وہ آسان اور عام فہم زبان میں اپنی کہانیوں کو سجاتی ہیں جو قارئین کے ذہن و جگر کو تھام کر انہیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ‘‘۔
نیلوفر ناز نحوی اگر چہ کئی صنفوں میں طبع آزمائی کرتی ہیں لیکن خود ہی کہتی ہیں کہ انہیں افسانوی ادب سے زیادہ دلچسپی ہے جب کہ بحیثیت افسانہ نگار ہی انہیں ایک پہچان ملی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے افسانوں میں وہ دم خم اور اسلوب موجود ہے جو قاری کو متاثر کئے بنا، نہیں رہ سکتا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
نیلوفر ناز نحوی صاحبہ کشمیر کے نسائی ادب کی ایک ایسی آواز ہے جو عرصہ دراز سے محاذ پر ڈتی ہوئی ہے ،آپ اپنے مقدور کے مطابق ہر لحاظ سے سنجید ہ انداز میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں ۔ان کی بے لوث ادبی خدمات قابل تعریف ولائق ستائیش ہیں ۔کشمیر میں جب بھی نسائی ادب کے حوالے سے بات ہوگی تو نیلوفر نازصاحبہ کا نام سر فہرست ہوگا ۔ آپ ا یک قابل رشک ادیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حلیم اورصاف گو شخصیت کی مالک نر م دل خاتو ن ہیں ۔اللہ ان کے قلم کو اور زیادہ طاقت اور توانائی بخشے اور ترقیوں کی نئی منزلیں عطا فر مائے ۔آخر پر ملاحظہ فرمائیںان کی یہ مختصر نظم ۔۔۔۔۔۔
روزن پہ میرے چاند
جیسے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا ہو
میں نے اپنی بانہیں وا کیں
اور کھول کے اسے دل سے بلایا
کہنے لگا ،سوچ لو
چاند یا چاندنی ؟
میں نے کہا میرے مقدر میں
چاند بھی ہے چاندنی بھی
کب میرے روزن سے اندر آجائیں
میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہوں
���
اجس بانڈی پورہ
فون نمبر9906526432