زندگی اور موت کی سنگینیوں اور کائناتی سچائیوں کوکہانی کے انداز میں اس طرح پرودینا کہ فنٹاسی حقیقت اور حقیتت فنٹاسی لگنے لگے، ورنہ حقیقتوں کو پیش کرنے کے لیے علم وحکمت کی مختلف شاخیں اور ادب کی دیگر اصناف سخن موجود ہیں ۔افسانہ شعور و ادراک کی پُر اسرارکائنات کو دریافت کے بعد تخلیقی جمال کے ساتھ پیش کرنے کی سعی ہے۔
کہانی انسان کی سرشت میں اس طرح داخل ہے کہ انسان عہد طفلی سے پیران سال اور اس سے آگے دامن کش نہیں ہوسکتا ،جس طرح غزل اردو زبان وادب کی تہذیب ہے اسی طرح کہانی انسانی تہذیب کا جُز ہے۔اسی لیے حیات تا موت انسان کی دلچسپی اس سے قائم رہتی ہے۔کہانی کہنے سننے کے عمل میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔انسان کی کہانی انسان کے ذریعے انسان کو سنانے کا یہ طریقہ روز ازل سے آج تک جاری وساری ہے۔پیش نظر کائنات کیسے بنی ؟کیونکر بنی؟کس کے لیے تخلیق ہوئی؟نظام کائنات کو چلانے والا کون ہے؟بظاہر نظام زندگی انسان کس طرح چلائے ؟افزونی حیات کے لیے کیا اپنائے اور کیا چھوڑے ؟ایسے سوالات ہیں جن کوحل کرنے کے لیے فرد روز ازل سے امروز تک اور فکر فردا میں روز و شب مصروف ہے ،مگر صفر ہاتھ لگتا ہے اور پھر نئے سرے سے غور وفکر کرتا ہے۔حیات وممات اور عالم ارضی وعالم سمویٰ کے مسائل کے سد باب میں کوشاںہوجاتا ہے۔کہانی ہونے کا عمل زیریں لہروں کی طرح اسی رنگ میں چلتا رہتا ہے اور کہانی کہنے والا اسی رنگ کو اپنا آہنگ دے کر پیش نظر کائنات کے متوازی ایک نئی کائنات تخلیق کرتا ہے جوحقیقی ہوتے ہوئے بھی تخیلی ہوتی ہے اسی لیے بیدیؔ کہتے ہیںکہ افسانہ حقیقت اور تخیل کی آمیزش سے بنتا ہے۔افسانہ نہ تو نرا سچ ہوتا ہے اور نہ ہی جھوٹ بلکہ جذب وکیف میں ڈوبی ہوئی ایک سچائی ہوتی ہے یعنی زندگی کے سچ کی Remakingہوتی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں فرد حقائق پسندی کے زعم میں کہانی ہونے یا کرنے سے انکار کرے ،لیکن موت وزندگی کے واقعات یا ناگہانی حادثات اور پُر اسرار سانحات جو اس کائنات میں رونما ہوتے ہیںاس کا اقرار کرنے کے لیے وہ مجبو ر بھی ہے اور معذوربھی:
’’میں جیتے جی قبر میں پہنچ گیا تھا۔اوپر والے کی مہر کہ زندہ ہوں ،دنیا والو!زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ،
کب اوپروالے کا بلاواآئے۔اس لیے سنبھل جاو۔اچھے بُرے کا خیال رکھو‘‘ (افسانہ ’’قبر میں زندہ آدمی‘‘)
رقت آمیز لہجہ میں یہ بیان یار خان لوگوں کے ہجوم کو مخاطب کرتے ہوئے اس وقت کہتا ہے کہ ایک نئی طرز کے بیت الخلا میں رفع حاجت سے فارغ ہونے کے بعد وہ اس میں بند ہوجاتا ہے اور باوجود بہت کوششوں کے باہر نہیں نکل پاتا ہے ۔آخر میںحسینہ بیگم کی مدد سے دروازہ توڑ کر وہ باہر نکل پاتا ہے۔اس دوران وہ اپنے آپ کو قبر میں زندہ آدمی کی طرح محسوس کررہا تھا ۔دراصل مشتاق احمد وانی کے افسانوی مجموعہ کی کہانی ’’قبر میں زندہ آدمی‘‘کا بنیادی کردار یار خان نئے زمانہ کا صاحب ثروت اے کلاس ٹھیکیدار ہے۔دولت کی فراوانی ہے۔بقول مصنف:
’’اس قدر رنگین مزاج تھے کہ دنیا کو دارالعمل کے بجائے دارالتفریح سمجھتے تھے‘‘
ایمان کی کمزوری کے سبب شراب جس کو اسلام میں ام الخبائث کہا جاتا ہے کے شوقین تھے۔عمر۶۰ سال ،چار بچوّں اور نوکرو چاکر پر مشتمل ایک خاندان خوشگوار اور خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔رجنی نام کی لڑکی پر فریفتہ ہوجاتے ہیں ۔اس کو گھر میں لانے کے لیے حسینہ بیگم جوان کی شریک حیات ہے کے کام میں ہاتھ بٹانے کے بہانے بیاہ کر لانے کے لیے طوعاً وکرہاًراضی کرلیتے ہیں ۔بیت الخلا کے واقعہ کا ان کے دل ودماغ پر ایسا اثر ہوا کہ انھوں نے رجنی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور یار خان اپنی بیوی حسینہ بیگم کے ساتھ بقیہ زندگی اپنی عاقبت سدھارنے میں لگ جاتے ہیں ۔
مشتاق احمد وانی مذہبی فکر اور اسلامی تعلیمات کو اپنی کہانیوں میں ابھارنے میں کہیں نہیں چوُکتے۔قرا ت کے وقت کہانیوں میں مصلحانہ کوشش اور واعظانہ تصّور کرداروں کی حرکات وسکنات اور نطق وزبان سے ظاہر ہونا مصنف کی مذہب پرستی کی دلیل ہے ۔مابعد جدیدناقدین مذہبی فکر کو اسلامی تہذیب کا اہم عنصر خیال کرتے ہیں ۔مسلہ پیش کرنے کا ہے کہ تخلیقی سطح پر اسے کیسے کہانی کی بافت میں گوندھا جائے ۔یہ مصنف کے فنی برتاوکا معاملہ ہے ،جس کا رشتہ اس کے تخلیقی شعور سے جڑا ہوتا ہے:
’’میں رات کو تہجد پڑھتی ہوں ۔تمہارے اس نرم گرم بستر پہ جب لیٹوں گی تو میں کہاں جاگ پاوں گی۔
قبر میں یہ نرم گرم بستر تو نہیں ہوگا‘‘ (افسانہ’’سب کی ماں ‘‘)
’’دھرم چند ۔۔۔یار۔۔میرے پاس توحید ورسالت کی عظمت وفضیلت،پانچ وقت کی نمازوں کی ٹھنڈک،رمضان المبارک کے تیس روزوں کا تقویٰ،عشر وذاکوۃ کی اہمیت وافادیت اور حج وعمرہ
کی تمّنا تھی ۔چنانچہ دو متضاد طبعیتوں کے سنگم میں بُری طرح مجھ سے میراحق چھینا گیا‘‘
(افسانہ’’معاوضہ‘‘)
’’امّاں !اللہ نے دنیا کے ہر لڑکے اور لڑکی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی،لڑکے سے شادی کریں۔
اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے‘‘ (افسانہ’’مجھے ایک دن گھر جانا ہے‘‘)
اسی طرح کہانی’’ کار خیر ‘‘ انتظار مرگ‘‘قبر میں زندہ آدمی‘‘انتقام‘‘ وغیرہ مذہبی فکر سے لبریز ہیں جو انسانیت کا درس دیتی ہیںاور عوام وخواص کو اصلاحی پیغام سناتی ہیں کہ وہ انسانیت کی فلاح وبہبود اور کردار واخلاق کی تعمیر وتشکیل کا خو اہش مند ہے۔مصنف نے فنی لوازمات کی کسوٹی پرمقصدیت کو فوت نہیں ہونے دیا ہے۔افسانے کی عنصری باریکیوں کو سر سری طور سے گزرتے ہوئے کہانی کہنے پر توجہ دی ہے اور موضوعی سطح پر نگاہ کو مرکوز رکھتے ہوئے واقعہ نگاری میں اصلاحی پہلووں کو ڈھونڈ نکالا ہے۔یہی سبب ہے کہ ان کی کہانیوں میں اصلاحی پہلواس طرح حاوی ہیں جیسے سطح آب پرروغی بوندیں جھملارہی ہوں۔ان کی کہانیوں میں ہمیں مقصدیت کی افادیت کہانی کو افسانہ بنانے کی بافت سے زیادہ اہمیت کی حامل معلوم ہوتی ہے ۔اسی لیے ان کا بیانیہ سہل اور رواں ہے کہ کہانی کو سمجھنے میں کوئی دقّت نہیں اور قاری کو کسی ذہنی کسرت سے نہیں گزرنا پڑتا ۔بہرحال کہانی پڑھنے کے بعد اثر انداز ہونے لگے ،اس فن سے مصنف اچھی طرح واقف ہے۔انھوں نے پلاٹ کی تعمیر وتشکیل میں وحدت وندرت پیدا کرنے کے بجائے سیدھے سادے انداز میں کہانیوں کو بیان کیا ہے۔صنفی بنیادوں سے قطع نظر اگر موضوعی نقطئہ نظر سے مشتاق احمد وانی کی کہانیوں پر غور وفکر کریں تو ان کے یہاں زیادہ تر سبق آموذ اور عبرت آمیز موضوعات ملیں گے جن کا یک مذہبی پس منظر ہوتا ہے۔
کہانی ’’چار چہرے‘‘موجودہ سیاسی صورتحال پر طمانچہ ہے۔برسر اقتدار پارٹی کی حکومت کے پیداکردہ مسائل سے عوام کو سخت ترین حالات سے گزنا پڑرہا ہے۔کمرتوڑ مہنگائی،نوٹ بندی،جی ایس ٹی نافذ ہونے سے پورا ملک خصوصی طور سے غریب عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جمہوری راستے سے حکومت اقتدار میں آئی ہے اور جمہوری نظام کا گلا کاٹ رہی ہے ۔گنگا جمنی تہذیب میں زہریلا مادہ گھول کر سیاسی اور سماجی ماحول کو گندہ کردیا گیا ہے۔صفائی ابھیان کا ذکر بھی اس کہانی میں موجود ہے۔بینک میں پرانے نوٹ بدلنے کی غرض سے ایک غریب بُڑھیا جاتی ہے۔بھیڑ کی زیادتی،گرمی کی شدت اور بڑھاپے میںسخت تکلیف اٹھانے کے سبب اس کی آتما پرماتما کے پاس پہنچ گئی:
’’ایک آدمی اسے پانی پلانے کے لیے دوڑا۔وہ جونہی پانی کا گلاس لے کر بڑھیا کے قریب پہنچاتو اتنے میں اس کی آتما ،پرماتما کے پاس پہنچ چکی تھی۔اس کے دونوں ہاتھ پاس بُک اور پانچ سو روپے کے نوٹ کے ساتھ مٹھیوں کی صورت میں ہمیشہ کے لیے بند ہوچکے تھے‘‘
(افسانہ’’چار چہرے‘‘)
ملک میں پھیلی رشوت کو کہانی ’’ہاتھ میں ڈنڈا منہ میں گالی‘‘میں موضوع بنایا گیا ہے۔اس بد عنوان نظام میں نوکر شاہی سے لے کر کرسی پر براجمان نیتا لوگ بھی ملّوث ہیں ۔کہانی کا مرکزی کردارلعل محمد اپنا جی پی فنڈ جلدی نکلوانے کی غرض سے سفارش کے لیے میونسپل کمیٹی کے صدر دھیان سنگھ کے پاس جاتا ہے تو اس کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہوکر اپنے آپ سے کہتا ہے:
’’اس جمہوری دور میں بھی راجپوتانہ شان وشوکت برقرار ہے‘‘
کہانی کا عنوان چونکانے والا ہے۔اس کی وضاحت ایک ضمنی کردار محلے کا نیتا دھیان سنگھ اس طرح کرتا ہے:
’’بہتر تو یہ تھا کہ آپ پیتل کا ڈنڈا ہروقت اپنے پاس رکھتے ،لیکن چونکہ آپ ابھی نئے ہیں اس لیے کڑی کا ڈندا ہی چلے گا‘‘
(افسانہ’’ہاتھ میں ڈنڈا منہ میں گالی‘‘)
آگے وہ گالیوں کی ایک نئی پری بھاشا اس طرح کرتا ہے:
’’لعل محمد صاحب ،سفید گالیاں اشاروں ،کنایوں ،تشبیہوں ،علامتوں ،استعاروں ،طنز ورمزکی میں دی جاتی ہیں ۔جب کہ کالے رنگ کی گالیاں سیدھی چہرے پہ دی جاتی ہیں جوچھاتی اور پشت کو چیرتی ہوئی باہر نکل جاتی ہیں ‘‘(افسانہ’’ہاتھ میں ڈنڈا منہ میں گالی‘‘)
دراصل لعل محمد محکمہ آبپاشی میں تیسرے درجہ کا ملازم ہے ۔محکمہ کی خدمت گزاری میں اپنی عمر کے قیمتی بیس سال دے چکا ہے ۔ابھی رٹائرڈ ہونے میں دس سال باقی ہیں اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر جی پی فنڈ نکلوانے کے لیے درخواست دیتا ہے ،لیکن آفس کلرکوں کی ٹال مٹول سے فائل ادھر ادھر گھومتی رہتی ہے۔اپنا ہی پیسہ نکلوانے کے لیے بیس ہزار روپیہ اور ایک بوتل وہسکی کا مطالبہ ہے۔آفس کے چکر لگاتے لگاتے جسمانی اور ذہنی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔جس کا براہ راست اظہار کہانی میں ہوا ہے۔
’’واپسی‘‘ میں سماجی نابرابری کی نشاندہی کی گئی ہے ۔دلت ساہتیہ ،ادب میں ایک ڈسکورس کی حیثیت رکھتا ہے ۔ہندوسماج میں چھوا چھوت ،اونچ نیچ اور غیر برابری کا تصّور ہندودھرم کی آتما ہے ۔ہزاروں سال سے پورا ہندو سماج چار ذاتوں میں تقسیم ہے ۔انسانی سماج میں چھوٹے بڑے کی یہ تقسیم غیر انسانی عمل ہے،لیکن کیا کیا جائے۔اس بے ہودہ روایت نے مذہبی صورت اختیار کرلی ہے ۔اس لیے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اتنا آسان بھی نہیں ۔آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے ۔دانشور طبقہ نے اپنے اپنے طور سے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کو مٹانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔باباصاحب امبیڈکر نے اس منوواد ی سماج کے خلاف سیاسی اور سماجی پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی ۔خود گاندھی جی دلتوں کے ساتھ چھو اچھوت کے برتاو کو ناپسند کرتے تھے اور اپنی ٹھوس دلیلوں کی بنیاد پر اپنے نظر یہ کی وکالت کرتے نہیں تھکتے تھے،لیکن مذہبی روح کے سامنے ہر سائنٹیفک دلیل بے معنی تھی۔آج اس سائنسی دور میں بھی اونچی ذات کا طبقہ چھوٹی ذات کے لوگوں کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کو وہ عزت ووقعت نہیںملتی ۔انسان ہونے کے ناطے جس کے وہ مستحق ہیں ۔آزاد ہندوستان میں روزمرہ کے واقعات سے اخبارات بھرے ہوتے ہیں کہ اعلیٰ ذات نے دلت سماج کے ساتھ کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں ۔یہ قدیم تاریخ کا حصہ ہی نہیں بلکہ جدید دور میں بھی ان کو سیاسی ،سماجی ،نفسیاتی اور معاشی اعتبار سے حاشیہ پر رکھا جاتا ہے۔ہندوستان میں سماجی تقسیم اس قدر Powerfulہے کہ اس کے اثرات ہندوستانی مسلم سماج پر بھی نظر آتے ہیں ،جب کہ اسلام اونچ نیچ اور رنگ ونسل کے خلاف ہے بلکہ مسلکی فرق نے بھی شدت اختیار کرلی ہے:
’’ارے آپ تو اسلام قبول کرنے آئے تھے ،کس سوچ میں پڑگئے؟فوراً واپس چل پڑے‘‘
دیا رام نے جواب دیا
’’مفتی صاحب!میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ میں کون سا مسلمان بنوں ۔سنّی بنوں،
شیعہ بنوں،مالکی بنوں،حنبلی بنوں،شافعی بنوں،غیر مقلد بنوں،دیو بندی بنوں یا بریلوی؟‘‘
کہانی لکھنے میں مشتاق احمد وانی کی نظر کہانی کہنے اور خصوصی طور پرموضوع پر ٹکی رہتی ہے جو ساختیاتی نظام کے اندرونی سطح پر اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ قاری کو اس کی جستجو کرنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آتی۔یہی سبب ہے ان کے یہاں نہ کوئی پیچیدگی ہے اور نہ کوئی ابہام ۔ سیدھی سادی زبان میں انھیں کہانی بیان کرنے کا فن آتا ہے۔ایک مختصر کہانی ’’حاضر جواب‘‘کا مرکزی کردار پُکار ناتھ کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔ایک ہائر اسکینڈری اسکول میںعلم حیاتیات(Zoology)کا استاد ہے۔بہت زیادہ لالچی اور مطلب پرست انسان ہے۔پڑھانے لکھانے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ۔گھر میں ٹیوشن پڑھانے کا وہ عادی ہے۔فرائض منصبی سے وہ غافل ہے۔بقول مصنف:
’’اسکول کے اندر اور باہر لوگ انھیں اچھی طرح جانتے ہیں۔کھانے پینے والے آدمی ہیں۔انھیں
معمار قوم کے بجائے اگر مسمار قوم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا‘‘
(افسانہ’’حاضر جواب‘‘)
اس کے باوجود مکّاری اور حاضر دماغی کی وجہ سے اس کی فائل محکمہ تعلیم کے اعلیٰ آفیسر کے حکم سے پرنسپل کو بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کی منظوری کے لیے آفس بھیجنی پڑتی ہے۔اس دور کی یہ بد نصیبی ہے کہ ایسا کل جُگ آئے گاہنس چُگے گا دانہ دُنکاکوّا موتی کھائے گا۔
کہانی ’’سب کی ماں‘‘کرداروں کی کہانی ہے۔بہاراں عمر کی بیاسی بہاریں دیکھ چکی ہے۔اس عمر میں حواس،عوارض سب ہی شل ہوجاتے ہیں ۔ضعیف ہونے کے باوجود طبعیت میں طمطراق ہے۔ صحت بھی چست درست ہے ۔ لاٹھی کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔وہ تو عادتاًلاٹھی لے کر اس لیے چلتی تھی کہ راستے میں کوئی بندر،کُتّا،بھیڑیا وغیرہ حملہ آور نہ ہوجائے۔پیشہ کے اعتبار سے وہ دایا تھی۔اس لیے اکثر رات میں زچگی کے لیے بُلاوا رہتا ہے۔ہندو ،مسلمان ،سکھ اور عیسائی کو ایک ساتھ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی ۔اسے محسوس ہوتا کہ یہ مشترکہ نسل اسی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔۔سچ تو یہ ہے کہ یہ مشترکہ نسل اس کے ہاتھوں سے شکم مادر سے اس جہان رنگ وبُو میں تولد ہوئی ہے۔اس طرح وہ مشترکہ تہذیب کی علامت بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔بقول مصنف:
’’وہ اپنے قصبے میں مشترکہ تہذیب کا استعارہ بن کے رہ گئی تھی‘‘ (افسانہ ’’سب کی ماں‘‘)
آخر میں اس کی موت کے وقت قصبہ کے تمام مذاہب کے لوگ اس کی تہجیز وتکفین میں ا س طرح شامل ہوتے ہیں جیسے قوم کا کوئی لیڈر مرگیا ہو۔کہانی کا اختتامیہ یوں ہوا ہے:
’’انھوں نے میت کو پہلے کندھا دیا ۔لالہ نندلال نے ایک سفید شال تابوت کے اوپر ڈال دیا۔
دھنو دھوبی دھاڑیں مارمار کر رورہا تھا۔سکھ رشپال سنگھ نے روتے ہوئے ایک آدمی سے کہا’’بہاراں مائی کی موت ہم سب کی موت ہے۔کیونکہ اب ہمارے قصبے کی کو ئی بھی حاملہ عورت بغیر آپریشن کے بچّہ نہیں جنے گی!‘‘
مشتاق احمد وانی بنیادی طور پر ایک نقاد ہیں ۔تانیثیت کے حوالے سے ان کا اہم کارنامہ ’’اردو ادب میں تانیثیت‘‘ایک قابل قدر تصنیف ہے۔جس نے ادبی دنیا کو چونکا دیا ہے۔افسانوی اور غیر افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔شعریات سے وہ اچھی طرح واقف ہیں ۔ان کے تنقیدی مضامین سے ان کی صلاحیتوں کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔بڑی بات یہ ہے کہ وہ تنقید سے افسانے کی طرف آئے ۔حیرت کا مقام تب ہوتا کہ افسانوی دنیا کو چھوڑکر وہ تنقید کی دنیا میں آتے۔ان کی مسرت آمیز آمد کا دلی استقبال ہونا چاہیے کیونکہ پیش نظر تصنیف ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے۔
رابطہ :گلی رہٹ والاکنواں،سرائے رحمان علی گڑھ202001
موبائل نمبر989741153