ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری
‘Man does not perform great feats in normal situation.Great are performed in abnormal situation.
)انسان عام حالات میں بڑے کارنامے انجام نہیں دیتاہے۔بڑے کام غیرمعمولی حالات میں انجام پزیر ہوتے ہیں۔)
کسی مفکر کا مذکورہ قول بڑا معنی خیز ہے۔میں جب بھی اس پر غور کرتا ہوں تو کئی قسم کی مثالیں ذہن میں آتی ہیں۔فی الحال اگر تخلیقی کام پر ہی ارتکاز کریں تو میں نے کئی لوگوں کے افسانے/افسانچے ایسے دیکھے ہیں جن کے تخلیق کار غیرمعمولی صورتحال سے متاثر ہوچکے تھے اور پھر ان افسانوں یا افسانچوں میں اس قسم کی صورتحال کی فنی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نوعیت کی تخلیقات عام موضوعات سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کے کئی افسانچے غیرمعمولی صورتحال کی متاثرکن فنی عکاسی کرتے ہیں۔اگر انہیں ایسی صورتحال کا مشاہدہ یا تجربہ نہ ہوتا تو غالباََاس قسم کے افسانچے وجود میں نہیں آتے۔ افسانچہ صرف خیالات کی سطحی پیش کش کا نام نہیں ہے بلکہ ایک بڑے کینوس کے افسانے کی طرح اس کی تخلیق میں بھی کم ازکم فنی ہنرمندی کا جوہر تو نظر آنا ہی چاہے۔فیض قاضی آبادی کے کئی طویل افسانے بھی نظرسے گزرے ہیں اور ان کی شاعری بھی پڑھ چکا ہوں۔اس لئے ان کے بیشتر افسانچے تخلیقی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان میں فنی صنعت گری کا اچھا اہتمام نظر آتا ہے۔جیسے افسانچہ”اغوا“ میں پیش ہوئے دوواقعات کا دردانگیز اظہار۔افسانچہ کی کردار فضلی کے معاشی اور نفسیاتی پہلو کو دو تخلیقی شیڈز میں بڑی عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ کشمیر کے مفلس گھرانوں کا ایک معاشی ذریعہ مرغے مرغیاں پالنا بھی ہوتا ہے۔ فضلی کی مرغی کے پیچھے پیچھے جب خوبصورت گیارہ چوزے پیں پیں کرتے دوڑتے رہتے ہیں تو وہ اتنی خوش ہوتی ہے کہ جیسے اسے کوئی خزانہ ملا ہو۔لیکن یہ خوشی اس وقت دم توڑتی ہے جب ایک چیل جھپٹا مار کر ایک چوزے کو پنجوں میں اٹھاکر لے جاتی ہے۔مرغی کے ساتھ ساتھ فضلی بھی اس چوزے کو بچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن فضلی ناکام ہوکر بے ہوش ہوجاتی ہے۔بے ہوشی کی اصلی وجہ اس کا وہ نفسیاتی صدمہ ہوتاہے جو اس کے دماغ میں داغ مفارقت بناہوا ہوتاہے۔کیونکہ مرغی کے بچے کاچیل کے ذریعے اغوا ہونا اسے اپنے لاپتہ بچے ثاقب کی یاد دلاتا ہے جو ایک سال پہلے اسی صحن میں ظالموں کے ہاتھوں اغوا ہوا تھا اور پھر اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔اسی صدمے کی وجہ سے فضلی چوزے کے بجائے ثاقب ثاقب کہتے ہوئے بے ہوش ہوجاتی ہے۔
کشمیری لوگ پچھلی تین دہائیوں سے جن کھٹن حالات میں زندگی گزارتے آئے ہیں‘ ان کھٹن حالات کی فنی عکاسی یہاں کے کئی افسانہ نگار اپنے افسانوں میں کرتے رہتے ہیں۔ڈاکٹر فیض کے کئی افسانچے یہاں کے کرب انگیزحالات پرتخلیق ہوئے ہیں۔افسانچہ ”امید کا خون“ بھی ایک ایسی کرب ریز کہانی سنا رہا ہے جس کا کردار رمضان چچاایک ایسے کردار کی صورت میں سامنے آتا ہے جو امید بھرآنے کے باوجود دم بخود ہوجاتا ہے۔کیونکہ جو دعا اس نے مانگی تھی وہ قبول ہونے کے باوجود روحانی کرب بن گئی تھی۔مسلسل ہڑتال اور کرفیو کی وجہ سے سارا کام کاج ٹھپ پڑا تھا۔اس کا بیٹا مصدق گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتا تھا۔جب گھر میں فاقہ کشی کی وجہ سے رمضان چچا سے چھوٹے بچوں کا رونا برداشت نہیں ہوا تو وہ وضوبناکر مصلیٰ پہ قبلہ رو ہوکر اللہ سے دعا مانگنے لگتاہے کہ”یا اللہ کوئی ایسی تدبیر کر کہ میرے افراد خانہ کی بھوک دورہوسکے۔“اس کے بعداچانک کرفیو میں ڈھیل کا اعلان ہوجاتا ہے اور اس کا بیٹا منڈی جاکر ریڑھی میں سبزیاں بھرکر بازار کی طرف بیچنے کے لئے چلا جاتا ہے۔وہاں پر ایک دھماکے میں وہ مرجاتا ہے۔ محلہ کمیٹی کی جانب سے تین دن کے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا ہے۔رمضان چچا کے سامنے جب کھانا لایا جاتا ہے تو وہ دم بخود ہوکر اپنی دعا کی قبولیت پر سوچ میں پڑجاتا ہے۔
اس طرح کئی اور افسانچے بھی کشمیر کی دردناک صورتحال یا ایسے تناؤ شدہ حالات کی فکرانگیز عکاسی کرتے ہیں جن سے کشمیر پچھلے کئی برسوں سے جوجھ رہا ہے۔
تخلیق کار کی سوچ وفکر کا اثر اس کی تخلیقات میں بھی کہیں کہیں شامل ہوتا ہے۔فیض قاضی آبادی کی پہلی تصنیف ”صحبت صالحین“ ہے اور وہ خود بھی اصلاحی کام سے وابستہ ہیں۔ان کے کئی افسانچوں میں یہ اصلاحی فکر نظر آتی ہے۔اس طرح ان کے بیشتر افسانچے اصلاحی ادب کے زمرے میں آتے ہیں۔جیسے افسانچہ”وقت نہیں ملتا“۔اس میں ایک کردار ہفتہ بھر کی مصروفیات کا ذکر دوسرے کردار سے کرتا ہے کہ کبھی تعزیت پرسی‘کبھی اسپتال میں مریض کی عیادت‘کبھی دعوت پرجانا‘کبھی پکنک اور کبھی گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ۔یہ سب سن کر دوسرا کردار پوچھتا ہے کہ کیا کبھی مغرب کے بعد مسجد میں درس قرآن کے لئے بیٹھتے بھی ہو تو وہ جواب دیتا ہے کہ ”ارے کہاں بیٹھتا ہوں۔میرے پاس وقت ہی کہاں ہے۔“
اسی طرح افسانچہ ”خلافت“ میں ایسے لوگوں کی سوچ اور اعمال پر گہرا طنز کیاگیاہے جو جذباتی انداز سے دنیا کی بدلتی صورتحال یا تاریخی سیریلز دیکھنے پر خلافت کا دور آنے پر بحث ومباحثہ کرتے رہتے ہیں لیکن ایسی باتیں وہ جوا کھیلتے اور شراب پیتے وقت کرتے ہیں۔بے روزگاری کاسانپ کئی تعلیم یافتہ نوجوانوں کوڈستا رہتا ہے۔ والدین اپنا خون پسینہ بہاکر بچوں کو اس امید پر پڑھاتے ہیں کہ وہ لکھ پڑھ کر باعزت روزگار کماسکیں۔لیکن جس سرکار سے یہ امیدیں لگائے بیٹھتے ہیں وہ بے روزگاری پر قابوں پانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔افسانچہ ”امید“ سیلاب کی تشویش ناک صورتحال کے دوران ایک ایسے بے روزگار اپاہج تعلیم یافتہ کردار کے درد کو سامنے لایا گیا ہے جو چند ہی مہینوں کے اندر اورایج ہونے جارہا تھا۔سیلاب کی تباہی سے بچنے کے لئے بستی کے لوگ اپنے اپنے قیمتی اثاثے ساتھ اٹھاکر محفوظ مقامات کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں سوٹ کیس ہوتا ہے تو کوئی مویشیوں کو ہانکتا رہتا ہے لیکن ایک لنگڑے پوسٹ گریجویٹ کو اپنے والدین سہارا دے کر محفوظ جگہ کی طرف لئے جارہے ہوتے ہیں اور وہ نوجوان اورایج کی سرحد کو چھونے کے باوجود امید کی آس میں اپنی تعلیمی اسناد کوسینے سے چمٹائے ہوئے ہوتا ہے۔یہ جاننے کے باوجود کہ اب یہ کسی کام کی نہیں ہیں۔
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی کسی افسانے یا افسانچے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔افسانچہ ”راشن ڈپو“میں خضر چچا کی کردار نگاری میں ایک دلچسپ لیکن فکرانگیز واقعہ پیش ہوا ہے۔گاؤں میں سرکاری راشن ڈپو کھولنے پر اگرچہ بیشتر گاؤں والے خوش نظرآتے ہیں لیکن بزرگ خضر چچا اس کے خلاف احتجاجی رویہ اپناتا ہے۔سبھی لوگ ان کی عزت کیا کرتے تھے لیکن ان کے اس رویئے سے پریشان تھے۔آخر کار پوچھنے پر خضر چچا نے وہ اہم بات بتائی کہ لوگ
حیران ہوکر رہ جاتے ہیں:
”میں راشن ڈپو اپنے گاؤں میں ہرگزکھولنے نہیں دوں گا۔ ہمارے زمانے میں تو راشن ڈپو نہیں ہوا کرتے تھے۔وہ اپنی زمینوں پر محنت کرتے تھے اور فصلیں اگاکر خود بھی کھاتے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے۔اس طرح وہ صحت مند رہتے تھے۔اگر یہاں راشن ڈپو کھولا گیا تو ہمارے لوگ محنت کرکے فصلیں اُگانا چھوڑدیں گے۔اس طرح ہمارے کھیت بنجر ہوجائیں گے اور ہمارے نوجوان محنت و مشقت کرنا چھوڑ دیں گے۔اس طرح ان کی صحت بھی خراب ہوجائے گی۔“
اس طرح افسانچہ کئی پیغام سنا رہا ہے۔ واقعی اب لوگوں نے خصوصاََ دیہات میں راشن ڈپو کی وجہ سے اپنے کھیت کھلیان کی طرف دھیان دینا چھوڑ دیا ہے اور اب لوگوں کو تندرست رہنے کے لئے ورزش کرنے کا سہارا لینا پڑتا ہے نہیں تو دن بھر کھیتوں میں کام کرنے سے زراعت کی فراہمی بھی ہوتی تھی اور صحت بھی ٹھیک رہتی تھی۔
کووڈ کے دوران ہر جگہ کی صورتحال گھمبیر تھی۔ کئی لوگوں کو سرکاری کووڈ سنٹروں میں منتقل کیا گیا تاکہ ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بیماری سے بچ سکیں۔لیکن کئی لوگوں کے گھروں میں جب کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا تو ان کے سامنے بس ایک ہی راستہ رہا کہ وہ خود کو کووڈ سنٹروں میں منتقل کرواسکیں تاکہ کم از کم انہیں کھانا مل سکے۔ افسانچہ ”تدبیر“اسی قسم کی تشویش ناک صورتحال کی اچھی عکاسی کرتا ہے۔ اشرف کے گھر والے جب بھوک سے بے حال ہوجاتے ہیں تو کوئی بھی راستہ نظر نہ آنے کے بعد وہ کوارنٹین سینٹر کو کال کرتا ہے اور تھوڑے وقفے کے بعد ان سب کو گاڑی میں اٹھا کر لیا جاتا ہے
لیکن اشرف کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
اس طرح مجموعی طور پر دیکھیں تو ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کے بیشتر افسانچے کسی نہ کسی سماجی موضوع کے مثبت پہلو کو اجاگر کرتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر آمادہ بھی کرتے ہیں۔یہ ان افسانچوں کی ایک اہم خوبی قراردی جاسکتی ہے۔
���
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر،موبائل نمبر؛9906834877