سرینگر// صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گورنر شری این این ووہرا سے اپیل کی کہ وہ مرکزی سرکار کو علیحدگی پسندوں اور دیگر فریقین کیساتھ مذاکرات کے دروازے کھولنے کیلئے قائل کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کیلئے راہیں ہموار ہوسکے اور لوگوں کو چین و سکون کی زندگی میسر ہوسکے۔ راج بھون میں ایک گھنٹے طویل ملاقات کے دوران ڈاکٹر فاروق کی سربراہی والے 5رکنی وفد نے گورنر کے ساتھ ریاست کی مجموعی سیاسی ، انتظامی اور سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیالات کیا۔ڈاکٹر فاروق نے گورنر سے کہا کہ وہ نئی دلی کو علیحدگی پسندوں سمیت مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کیلئے قائل کریں کیونکہ اس سیاسی مسئلے کے لٹکے رہنے سے لوگوں کو بار بار مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ وادی میں جاری اندھا دھند گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے گورنر سے اپیل کی کہ آبادیوں میں گھس کر توڑ پھوڑ، مارپیٹ اور گرفتاریوں کا سلسلہ فوری طور پر بند ہونا چاہئے اور تمام قیدیوں کی بلا مشروط رہائی ممکن بنائی جانی چاہئے۔ وادی میں زبردستی امتحانات کا انعقاد کرانے کے حکومتی فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ اس دہشت زدہ اور پُرتنائو ماحول میں امتحان لینا ٹھیک نہیں ہے۔ 4ماہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور حکومت امتحان لینے چلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت طلاب کو گریس مارکس دینے اور کم سیلبس سے امتحان لینے کی باتیں کررہی ہے ۔ اگر یہ طلباء گریس مارکس اور آدھے سیلبس سے یہاں کامیاب بھی ہوئے تو آگے چل کر انٹرنس اور دیگر ملکی سطحی کے امتحانات میں کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں؟ڈاکٹر فاروق نے این این ووہرا کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا، جس میں یہ تمام معاملات درج ہیں۔ جموں میں مخصوص طبقہ کو جنگلاتی اراضی کے نام پر بے گھر کرنے کی حکومتی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ریاستی گورنر سے کہا کہ 100سال زائد عرصہ سے گجر بکروال جنگلاتی اراضی پر قیام پذیر ہیں اور اپنا اوزکا کمانے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ جنگلوں اور جنگلی جانوروں کی حفاظت بھی کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کی ایماء پر مسلمان ہونے کی وجہ سے اس پسماندہ اور غریب طبقہ کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت بے گھر کیا جارہا ہے۔ اگر حکومت واقعی جنگلاتی اراضی خالی کرانے میں مخلص ہے تو پھر کارروائی مخصوص طبقے کیخلاف ہی کیوں ہورہی ہے؟ اثر و رسوخ رکھنے والی اُن شخصیات کیخلاف کارروائی نہیں کی جارہی ہے، جنہوں نے سینکڑوں کنال اراضی ہڑپ کر لی ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے گورنر سے اپیل کی کہ وہ یا تو متاثرین کو اپنی جگہوں پر واپس رہنے کی اجازت دی جائے یا پھر ان کی بازآبادکاری کیلئے کسی متبادل جگہ پر زمینیں فراہم کیں جائیں۔وفد نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ آر ایس ایس ماتا ویشنو بورڈ میں بھی مداخلت کررہا ہے، جس سے ریاست کے ہندو طبقہ کے لوگوں بھی نالاں ہیں۔ جموں خصوصاً خطہ پیرپنچال اور چناب میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے این این ووہرا سے کہا کہ اس علاقہ کے مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہتھیار بند ریلیوں کے انعقاد سے خوف زدہ ہوگئے ہیں اور وہ عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ انہوں نے گورنر سے کہاکہ حکومت کی طرف سے آر ایس ایس کو ہتھیار بند ریلیاں نکالنے کی اجازت کیسے دی جارہی ہے اور ان ہتھیار بند ریلیوں کو نکالنے کا کیا مقصد ہے؟ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود بھی یہاں کے مسلمانوں کی حالت ابدتر ہورہی ہے ، جس کی شروعات پی ڈی پی بھاجپا اتحاد کے ساتھ ہی ہوئی۔وفد میں پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، سینئر لیڈران میاں الطاف احمد، صوبائی صدر جموں دیوندر سنگھ رانا اور پارٹی کے ترجمان جنید عظیم متو بھی تھے۔