ریحانہ شجر
میرے پیش نظر مرحوم ڈاکٹر شادؔاب ذکی بدایونی کے تحریر کردہ تقدیسی شاعری کے دو مجموعے زیر عنوان ’’ثنائے ربّ کریم‘‘ (حمدیہ مجموعہ) اور ’’خوشبوئے مدینہ‘‘ ( نعتیہ مجموعہ )ہیں۔ میری الجھن یہ کہ بات کہاں سے شروع کروں، کیوں کہ حمدیہ اور نعتیہ کلام پر لب کشائی کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ میرے خیا ل میںیہ وہ سمندر ہے جس میں غوطہ لگانے سے پہلے سات پانیوں سےروح کو دھونا پڑتا ہے اوریہ وہ آگہی ہے جس کے آگےدانائی کی کل کتابیں بھی حرف اول کی مانندبے وزن ہے۔ تمام شعری اصناف میں تقدیسی شاعری وہ مقدس اور مہتمم بالشان موضوع ہے جس میں آفاقیت کے وسیع اور محیط مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ بات عیاں ہے کہ اس لطیف اور تقدس ماب موضوع سخن پر تحریکی ، تحقیقی علمی معیار پر جس سطح پر کام ہورہے ہیں وہ بلندی اور اعزاز کسی دوسری صنف سخن کو حاصل ہی نہیں۔تقدیسی شاعری کی شان، عظمت اور قدامت، بے شک اظہر من الشمس ہے۔
’’نعتیہ شاعری باقی ماندہ شعری اصناف میں سب سے حساس ہونے کے ساتھ دشوار گزار موضوع بھی ہے۔ جس میں بڑے بڑے شعرائے کرام کے قلم کانپتے ہیں اور کئی قادر الکلام شعرا بھی حد سے تجاوز کرکے شرک کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ کیوں کہ شاعری کے باقی اصناف، شرعی بندشوں سے مُبرہ ہیں اور شعراء حضرات بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے قیود اور حدود کے پابند نہیں ۔ تخیل کی سطح پر ان کی اڑان لامحدود ہے۔ غزل کے صنف سخن میں اس بات کی وسعت ہےکہ شاعر چاہے تو اپنے محبوب کے حسن و جمال، قد و قامت، ناک نقوش اور اعزاز و اکرام میں زمین و آسماں کی قلابیں ملائیں اور چاہے تو اسے اپنا مجازی خدا ہی بنادے۔تاہم تقدیسی شاعری میں اس بات کی کوئی گنجایٔش نہیں ۔ یہاں تخیل کے گھوڑے کو بے لگام نہیں چھوڑ سکتے کہ شرک کے دلدل میں پھنس جائے۔ لازمی ہے کہ سوچ کا دایرہ اسقدر محدود بھی نہ ہو کہ حضوراقدسؐ کی شان و عظمت میں خاکم بہ دہن تنقیص کا عنصر شامل ہو جائے۔ نعتیہ /تقدیسی شاعری میں فکر و خیال اور توازن و اعتدال کے درمیان یک آہنگی قایم کرنا شرط اول ہے۔ یہاں آئین عبودیت،حرمت کے دائرے، پردہ اخلاق اور زبانی ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ غیر معتدل حالات سے دامن بچا کر ثواب کا مستحق قرار پائے۔
زیر نظرحمدیہ کلام کی بات کریں تو’’ثنائے رب کریم‘‘ مرحوم شاؔداب ذکی بدایونی کی تقدیسی شاعری کا قابل داد و تحسین مجموعہ ہے۔ ان کو اللہ تعلی نے اسقدر قلم کی روانی سے نوازا ہے کہ گویا ، ہر شعر اپنے اندر ایک آواز سموئے ہوئے ہیں۔ ان کی حمد گوئی کے بارے میں ملک کے معروف اور ذی وقار ادبی شخصیات نے اپنے بہترین تاثرات بیان کیے ہیں اور انہیں اپنے عہد کا گراں قدر حمدیہ شاعر قرار دیا ہے۔ جن میں جناب سیفی سرونجی، ڈاکٹر تابش مہدی، ڈاکٹر معصوم شرقی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر تابش مہدی نے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا ہے۔’’ ڈاکٹر شادؔاب ذکی بدایونی ہمارے عہد کے خوش فکر، سنجیدہ اور قادر الکلام شعرا میں ہیں‘‘۔’’ثنائے رب کریم‘‘ حمدیہ مناجاتی شاعری کی ایک قابل قدر اور لائق تحسین کتاب ہے۔‘‘سیفؔی سرونجی صاحب نے اپنے تاثرات یوں بیان کئے ہیں، ’’ یہ سچ ہے کہ اکثر شعراء کچھ نہ کچھ حمد و نعت کہتے رہے ہیں۔ برائے نام اپنی نجات کا وسیلہ سمجھ کر، لیکن ڈاکٹر شاداب ذکی بنیادی طور پر حمد و نعت کے ہی شاعر ہیں۔ انہوں نے حمد و نعت کہنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔تعریف کی بات یہ ہے کہ نئی نسل میں کوئی ایسا شاعر نہیں ہے جس نے اتنی بڑی تعداد میں اتنا کچھ کہا ہو کہ تین مجموئے شائع ہوئے ہوں، یہ امتیاز صرف شادؔاب ذکی صاحب کو حاصل ہے۔‘‘
’’ثنائے رب کریم ‘‘اہمیت و موضوعات کے لحاظ سے حمدیہ شاعری کا عظیم شاہکار ہے۔اس کتاب میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، قدرت، رحمت اور وحدانیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تخلیقی انداز میں کائناتی نشانیوں (آسمان، ستارے، جگنو وغیرہ) کے ذریعے خالق حقیقی یعنی رب کی عظمت کچھ یوں بیان کی ہے۔
چاند سورج ہوں ستارے ہوں کہ ننھے جگنو
سب سے ظاہر ہوا کرتی ہیں ضیائیں تیری
حمد و ثناء کایہ مجموعہ موضوع اور مواد کے اعتبار سے منفرد قدر و قیمت کا حامل ہے۔ ان کے حمدیہ اشعار ایمان اور عقیدت کا بہترین نمونہ ہیں:
ہے لغت ناکافی تیری شان و عظمت کے لیے پورے نہیں پڑسکتے ہیں الفاظ مدحت کے لیے
شاداب ذکی صاحب اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتے ہیں، اسی کے سہارے اور اسی کے بھروسے پر چلتے ہیں۔ اُن کے افکار و خیالات میں خدائے وحدہ لاشریک کی عظمت و بزرگی جھلکتی ہے جو رحمان و رحیم ہے، غفور و رحیم ہے۔ اُس کی کبریایی اور صفات کریمی بے شمار ہیں، کوئی حد اُن کی توصیف تک نہیں پہنچ سکتی۔ اگر اپنے گردو پیش پر غور کیا جائے تو ہر چھوٹی بڑی چیز میں ربِ کریم کی شانِ رحمت نظر آتی ہے۔ شاداب ذکی صاحب نے پوری کوشش کی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں کوتاہی نہ ہو اور وہ قبولیت کی سعادت حاصل کر سکیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک ہی موضوع پر مسلسل سوچنا تخیل کو کتنا وسعت دے سکتا ہے، جبکہ ذاتِ الٰہی لامحدود ہے اور انسان کی عقل محدود۔ پھر بھی اُنہوں نے اپنے گہرے فکر اور وسیع تخیل سے کام لے کر یہ سعی کی ہے ۔2011 میں مرحوم شاداب ذکی ، بیماری میں مبتلا ہوکر صاحب فراش ہوگئے، تاہم ذہنی طور پر اللہ کے فضل و کرم سے وہ توانا تھے۔ اگر چہ جسمانی معذوری کا احساس ان پر غالب تھا لیکن وہ بارگاہ خداوندی سے کبھی ناامید تھے۔’’ثنائے رب کریم‘‘ جدید دور میں لکھی گئی مقدس ادب کا قیمتی سرمایہ ہے، جو شرعی حدود کا پاس رکھتے ہوئے فنی بلندیوں کو چھوتی ہے۔ یہ فن پارہ عبد و معبد کے درمیان رشتے کا اظہار ہے۔ ڈاکٹر شاداب ذکی نے کائنات کے مختار کل یعنی اللہ کی عظمت اور کبریائی کا بیان اپنے منفرد انداز میں کیا ہے۔
’’خوشبوئے مدینہ‘‘نعتیہ مجموعہ
’’خوشبوئے مدینہ‘‘ ڈاکٹر شادؔاب ذکی بدایونی کی نعت گوئی کا روحانی سفر ہےاہمیت و موضوعات کے اعتبار سے یہ کتاب سرور دو عالم نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس پر مشتمل نعتیہ کلام پر محیط ہے۔ ڈاکٹر شاداب ذکی کو سخن وری وراثت میں ملی ہے۔ وہ بدایوں کے ایک علمی، ادبی اور معزذ خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے والد جناب ذکی تال گانوی بدایوں کے گراں قدر اساتذہ میں گنے جاتے ہیں۔ حمدیہ کتابوں کی اشاعت کے بعد انہیں نعتیہ مجموعہ ترتیب دینے کا خیال آیا۔ والد محترم کے مشورے پر یہ خیال نعتیہ دیوان میں تبدیل ہوگیا ۔ اس بات کا استفسار انہوں نے ایک نعتیہ مجموعے کے ابتدایٔیہ میں کیا ہے۔زیر نظر نعوت کا مجموعہ ’’خوشبو ئے مدینہ‘‘ عقیدت و ایثار حیات افروز ہونے ساتھ پرکیف بھی ہے۔ڈاکٹر شادؔاب ذکی نہ صرف ایک تربیت یافتہ تقدیسی شاعر ہے بلکہ ایک پختہ کار فنکار بھی ہے۔ انہوں نے کثیر تعداد میں نعتیں اور مناجاتیں کہی ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان کے دل و دماغ کو عقیدے اور ایمان کی پختگی اور عشق الٰہی اور عشق رسولؐ کی آتش نے پاک و صاف کردیا ہے۔ اس میں شفاعت، رحمتِ عالمی اور اتباعِ سنت جیسے موضوعات کو منظوم کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی شاعری کے آہنگ و انداذ میں عقیدت، ایثار و محبت کے گلزار مہکتے ہیں ۔ شاداب ذکی نے نعت میں نورانی تصویر کشی کی ہے، جیسے:
جوڑے ہے رب سے تار مرے مصطفےٰ ؐ کادر ہے کتنا پر وقار مرے مصطفےٰ ؐ کادر
آتا رہے گا خواب میں تا عمر وہ نظر دیکھ آوٗ! ایک بار مرے مصطفےٰ ؐ کادر
ڈاکٹر شاداؔب زکی کی یہ روحانی تصانیف ’’ثنائے رب کریم‘‘ (حمدیہ کلام) اور ’’خوشبوئے مدینہ‘‘ (نعتیہ مجموعہ) محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ عشقِ حقیقی کی وہ سچی کرنیں ہیں ، جو دلوں کو منور کر دیتی ہیں۔ ان کے کلام میں جہاں فنی پختگی اور فکری گہرائی ہے، وہیں ایک بندۂ مومن کی عاجزی اور سوزِ دروں بھی شاملِ حال ہے۔یہ دونوں کتابیں ادب کے دامن میں ایسے گوہر نایاب ہیں جو صدیوں تک عَظمت روحانی کا پیغام سناتی رہیں گی۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو ان کی اس عظیم ادبی خدمت کے عوض جنت الفر دوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماۓ اور ہمارے دلوں کو بھی ان کی طرح خشوع و خضوع سے لبریز کر دے۔
[email protected]