ڈاکٹر جگ موہن سنگھ،جموں
ڈاکٹر درخشاں اندرابی جموں کشمیر کی ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہوں نے بہت کم مدت میں اپنی ایک پہچان قائم کر دی ہے۔ درخشاں اندرابی گزشتہ کئی دہائیوں سے شاعری کر رہی ہیں۔ اِن کی نظمیں اور غزلیں ادبی رسالوں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کئی کُل ہند مشاعروں اور ادبی تقاریب میں بحیثیت شاعرہ بھی حصہ لیا ہے اور اپنی شاعری کا اعتراف کروایا ہے۔ درخشاں اندرابی شاعری کی تمام صنفوں پر طبع ازمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں جدید دور کے انسان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ملتی ہے، چوں کہ درخشاں اندرابی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہے اور انہوں نے اُردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سندیں بھی حاصل کی ہیں۔ اس لیے وہ اُردو شعر و ادب کی روایات اور فنی و جمالیاتی تقاضوں سے گہری واقفیت بھی رکھتی ہیں۔ ان کا تازہ ترین شعری مجموعہ ’’ہتھیلی پہ سورج‘‘ کے عنوان سے 2014ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ان کی نظموں پر مشتمل ہے۔ اِن نظموں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ درخشاں اندرابی کے یہاں پروین شاکر، کشورناہید اور فہمیدہ ریاض سے لے کر شبنم عشائی تک کی نظموں کی توسیع کی کیفیت ملتی ہے۔ ان کی نظموں میں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ اکثر اپنی نظموں میں نئی علامتوں اور استعاروں کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کہنہ مشق شاعر کی طرح وہ نئی ترکیبات بھی واضح کرتی ہیں مثلاً: ’’صلواۃِذات‘‘، ’’آیاتِ مُتشبِہات‘‘، ’’سلسلہ زنبور الاسود‘‘، ’’کِرم پیلہ‘‘، ’’سیاہ رقص‘‘، ’’تماشائے اِطفال‘‘، ’’کلمہ ٔتمنا‘‘ وغیرہ۔ یہ ساری ترکیبات ان کی نظموں کے عنوانات بھی ہیں۔ ان نظموں میں اُنہوں نے عنوان کی مناسبت سے اپنی ذاتی اور اجتماعی تجربات کا اظہار کیا ہے
اُردو ادب کے مشہور محقق و نقاد اور صحافی مخمور سعیدی کتاب (ہتھیلی پہ سورج) کے فلیپ پر ڈاکٹر درخشاں اندرابی کی غزلوں اور نظموں سے متعلق کچھ یوں رقمطراز ہیں:
’’مشہور وہ ایک غزل ہی تھی جِس نے دُخترِکشمیر درخشاں کا رشتہ ہمارے ساتھ جوڑا تھا اور پہلی ہی ادبی ملاقات میں اس شاعرہ کی صلاحیتوں کا ہمیں احساس ہو گیا تھا۔ بعد ازاں ہم نے ان کی غزلوں کو کئی کُل ہند مشاعروں اور ادبی تقاریب میں سنا اور پڑھا بھی۔ اُن کی شستہ زبان، آسان لہجہ اور فکر انگیز انداز بیان انہیں اردو ادبی دنیا میں ایک درخشاں مقام عطا کرنے کے لئے کافی ہے۔ درخشاں کی نظمیں بھی اُن کی غزلوں کی طرح ہی اُردو شاعری میں نئے لہجے کی تخلیقات ہیں۔ درخشاں کا انسانی نفسیات کا مطالعہ کافی گہرا ہے۔ اُنکی نظموں میں کائینات کے اسرار و رموز عرفان و آگہی کی زبان بولتے ہیں۔ یہ شاعری جلال و جمال کی شاعری ہے۔ اُنکی نظمیہ شاعری بھی ان کی غزلوں کی ہی طرح انسانی احساس کو ایک نئی لذت اور فرحت عطا کرتی ہے۔‘‘
درخشاں اندرابی اپنی نظموں میں جس طرح نِت نئی ترکیبات کا استعمال کرتی ہیں اِس سے اِن کے مافی الضمیر کے اظہار و بیان کا معیار بہت بلند ہو جاتا ہے اور فارسی الفاظ و ترکیبات کے اِستعمال سے اِن کی اکثر نظموں میں غزل کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً: نظم ’’صلواۃِ ذات‘‘ کی یہ سطریں ملاحظہ ہوں:
کچھ کرنوں کی بارش ہوئی
اور دھول نے ڈھک لی رات
خدشتہ جسم و جاں فنافنا
ٹھہر ٹھہر! میری بات سن
میری بات مکتوبِ عروجِ وقت ہے
ایسی مہکتی ہوئی سیج
جس پر دو مضطرب روحیں
بے قرار ہیں اپنی برہنگی بانٹنے کیلئے
سطر سطر پڑھ
اِن کی بعض نظموں کے عنوانات بڑے حیرت انگیز ہوتے ہیں مثلاً: ’’نظم کی چھت پر‘‘، ’’آؤ کَس لیں کجاوَہ‘‘، ’’سِلسلہ ٔزنبور الاسود‘‘، ’’بہت سی روئی دُھنک چکی ہیں‘‘، وغیرہ۔
درخشاں اندرابی کی بعض نظمیں پڑھنے کے بعد ہی سمجھ میں آجاتی ہیں لیکن اکثر ایسی نظمیں بھی ہیں جو قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں اور قاری نظموں کے الفاظ اور استعاروں کی تہوں اور طرفوں کو کھولنے کے بعد ہی ان نظموں کے معنی اور مفہوم، کیفیت اور تاسب تک پہنچ پاتا ہے۔ مثلاً نظم ’’احساس‘‘ اِس کی عمدہ مثال ہے جِس میں اُنہوں نے اپنی ذات کے ہونے کے احساس کو زندہ اور متحرک کیا ہے۔ اسی طرح درخشاں اندرابی کی بعض نظموں میں ان کے ذاتی تجربات کا شاعرانہ اظہار ملتا ہے مثلاً: نظم جل رہی ہو اور نظم داد کے علاقے میں‘‘ میں اُنہوں نے زندگی اور زمانہ کے پیدا کیے ہوئے کنفیوژنز اور بے بسی کو بیان کیا ہے۔ اس دور کا ہر شخص کسی نہ کسی اعتبار سے بے ثبات ہو گیا ہے۔ وہ اپنی ذات کی تکمیل چاہتا ہے لیکن اُڑان بھرنے کے لیے کوشش کے باوجود اسے کسی سمت کا سراغ نہیں ملتا اور پھر وہ مجبوراً اپنی ذات کے علاقے میں ہی لوٹ آنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دراصل درخشاں اندرابی کی نظموں میں اِس طرح کا کرب اُن کی ذات سے شروع ہو کر کائنات میں پھیل جاتا ہے۔ آج کے جدید ترین دور میں ہر شخص ایسی ہی مجبوری اور پسپائی کا شکار ہے۔
درخشاں اندرابی نے آج کے دور میں بھی مرد احساس معاشرہ میں عورت کی تذلیل اور بے حرمتی کا نوحہ لکھا ہے، بے حرمتی کو بے نقاب کیا ہے۔ اِن کی نظم ’’اشتہاروں والی عورت‘‘ آج کے دور کی تکذلیل کا نوحہ ہے۔ درخشاں اندرابی عورت جب بھی اپنے حقوق کی آواز اُٹھاتی ہے۔ مرد احساس معاشرہ اس کی مخالفت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے لیکن یہ معاشرہ عورت کو ہی نے اپنی ترقی کے لیے اشتہار بناتا ہے اور عورت ہر اشتہار میں جینے کے لیے مرتی ہے۔ عورت کے حقوق کے لیے آئین میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ملک کے قائدین پارلیمنٹ میں اس کے لیے چینختے چلاتے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود عورت اپنے وجود کو زندہ رکھنے کے لیے اشتہار بننے پر مجبور ہے اور اسی لیے درخشاں اندرابی نے اپنی اس نظم میں ’’اشتہاروں والی عورت‘‘ میں کہا ہے:
اشتہاروں والی عورت
مُدراؤں اور مکالموں سے طلاق لیکر مرتی ہے تو جنم لیتی ہے
اشتہاروں والی عورت
درخشاں اندرابی کے شعری مجموعہ ’’ہتھیلی پہ سورج‘‘ میں کشمیر کے عصری حالات کی بھی عکاسی ملتی ہے۔ ان کی نظموں میں ’’جلوس‘‘، ’’ہوشیارخبردار!‘‘، ’’دستک‘‘ وغیرہ میں کشمیر کے اُس دور کی ترجمانی ملتی ہے جب دُشمنوں کی سازشوں کے سبب حالات زہر الود ہو گئے تھے اور ہر طرف بے چینی اور بد امنی کا دور دورہ تھا، جلسہ جلوس، احتجاج اور مظاہروں کا بازار گرم کیا جاتا تھا، درخشاں اندرابی نے اُس کی تصویر کشی استعاراتی انداز میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ کی ہے۔ مثال کے طورپر نظم ’’جلوس‘‘ ملاحظہ ہو:
کرفیوز دہ سنسان سڑک پر
پابندیوں کے بیچ
کہیں کوئی حرکت نہیں تھی
ایک جلوس تھا
جو حاکم کی آنکھوں میں
روندھ رہا تھا
محل خانے کے محافظ نا کے
جہاں کوئی حرکت نہیں تھی
وہاں کا ہنگامہ
خبروں میں چھایا تھا
جہاں جلوس کی گرج تھی
وہاں کا میوٹ شارٹ
پورے دن کے حالات پر
کر رہا تھا تجزیاتی تبصرہ
تاثرات کا ایک جلوس
خبر بینوں کے ذہنوں کو
روندھ رہا تھا
’کشیدہ لیکن قابو‘ میں والے حالات کے بیچ
ڈاکٹر درخشاں اندرابی سیاسی جماعت سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس وقت وہ جموں کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن عہدے پر فائز ہیں۔ اِن کے اندر ایمان کی روشنی کی بھی کمی نہیں ہے۔ اِس کی عمدہ مثال اِن کی نظم ’’اِمام عالی مقامؑ کے لئے ایک نظم‘‘ ہے، جس میں اِنہوں نے اپنے مذہب کے تئیں عقیدت مندی کا اِظہار کیا ہے۔ اِس نظم کا آخری حصہ استعاراتی انداز میں اِس طرح سامنے آتا ہے مثلاً غرض یہ کہ درخشاں اندرابی آج کی اہم شاعرہ ہیں جنہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اور جدید دور کی باشعور عورت کی سوچ اور فکر کا فنکارانہ اظہار کیا ہے۔ چنانچہ مشہور شاعر اور اس وقت ساہتیہ اکیڈمی میں بحیثیت کنوینر اردو اپنی خدمات انجام دے رہے جناب چندر بھان خیال نے شعری مجومہ ’’ہتھیلی پہ سورج‘‘ کے فلیپ پر ڈاکٹر درخشاں اندرابی کی نظم نگاری کے بارے اپنی رائے کچھ اس طرح بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’درخشاں اندرابی کی نظموں کا ذائقہ بھی خوب اور انوکھا ہے۔ نیم کی کڑواہٹ اور آم کی مٹھاس کو یکجا کر کے ایک نئی عبارت سامنے رکھ دی گئی ہے۔ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے مجھے بار ہا محسوس ہوا کہ وادی کشمیر میں بکھرے ہوئے موجودہ نسوانی کرب و احتجاج کو ایسی زبان دے دی گئی ہے جس کی فعلگی قاری کو جھلساتی نہیں ہے بلکہ چنار کے درختوں کی آگ کا لطف عطا کرتی ہے۔
درخشاں کی یہ نظمیں اس کے روشن اور درخشاں مستقبل کا پتہ دے رہی ہیں۔ اس نے ہتھیلی پر سورج سجا لیا ہے۔ وہ اجالوں کے دیش میں کھڑی دکھائی دے رہی ہے جہاں اندھیرے خود خوف زدہ ہو کر اس کے تعاقب میں ہیں۔ شاید وہ بھی کرن کرن روشنی کے آرزومند ہیں۔
فکر کی وادی میں ہر نظم ہر نظم ایک ا الاؤ کی مانند سلگ رہی ہے۔ آگ چونکہ برفیلی ہے، لہٰذا شاعرہ کے انداز فکر اور طرز بیان میں ٹھنڈے ٹھنڈے سے ٹھہراؤ کا احساس ہوتا ہے۔ یہ شاعری دراصل ’’حالات کشیدہ مگر قابو میں‘‘ والی شاعری ہے۔ بلا شبہ ان نظموں کو پڑھنا مدتوں کے بعد غسل کے لطف کا مترادف ہے۔‘‘
چنانچہ ڈاکٹر درخشاں اندرابی کی نظم ’’ہتھیلی پہ سورج‘‘ ایک استعاراتی نظم ہے۔ جس میں انہوں نے بڑی ماہرانہ انداز میں یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اپنی محنت اور ذوق و شوق سے اپنے مقصد کے سورج کو حاصل کر تو لیتا ہے لیکن اس کے باوجود طرح طرح کے مسائل کی تار یکیاں اس کا تعاقب کرتی رہتی ہے اور اکثر کامیابی کے سورج کی کرنیں اس کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر درخشاں اندرابی کی نظموں کا مجموعہ ’’ہتھیلی پہ سورج‘‘ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بیدار مغز خاتون ہیں، جنہوں نے آج کے دور کے حالات کے سورج کو اپنی ہتھیلی پر سجانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
رابطہ۔7889762542