تبصرہ
سہیل بشیر کار
’’دعوت بالقرآن‘‘ڈاکٹر اختر حسین عزمی کی تصنیف ہے۔عزمی صاحب ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں۔تاریخی واقعات ہوں یا شخصیت نگاری ،موصوف حقائق کو افسانوی انداز میں ایسے پیش کرتے ہیں کہ قاری بوریت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ تحریر میں یوں مگن ہوجاتا ہے کہ وقت کا احساس بھی نہیں رہتا،علاوہ ازیں موصوف علمی موضوعات پر بھی دسترس رکھتے ہیں، آپ کی تحریر دل پر اثر کرتی ہے۔گیارہ ابواب پر مشتمل’’دعوت القرآن‘‘ 216 صفحات کی کتاب ہے جس میں مصنف نے قرآن کریم کے حوالے سے خوبصورت گفتگو کی ہے۔ مقدمہ کتاب یا ابتدائیہ میں مصنف نے رجوع الی القرآن کی طرف خوبصورتی سے دعوت دی ہے،اس سلسلے میں ہونے والی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی ہے، لکھتے ہیں: ’’آج قرآن کا ابلاغ کتنا ضروری ہے، قرآن کے درس و ابلاغ کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں کیا کیا اشکالات ہیں ، رسول اللہ ؐاور اصحاب رسول کی دعوتی و عملی زندگی میں قرآن کس قدر رچا بسا ہوا تھا ، دعوت دین کے کارکن اور ایک مبتدی مدرس قرآن کو جس علمی سرمائے کی ضرورت ہے، اس سے متعلقہ مواد پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اُمید ہے کہ یہ کتاب اس کے لیے مفید ثابت ہوگی ۔‘‘ (صفحہ 15)
کتاب کے پہلے باب’’ دعوت بالقرآن اور اسوہ رسول ؐ ‘‘ میں مصنف نے دکھایا ہے کہ رسول رحمتؐ نے غیر مسلموں کو قرآن کے ذریعے ہی دعوت دی تھی ۔آپؐ چاہے کسی فرد کو دعوت دیتےیا مجموعی طور پر سردارانِ قریش کو دعوت دیتے،بادشاہوں کو دعوت دی یا وفود کو دعوت دی، ذریعہ صرف قرآن کریم کی آیات تھیں۔مصنف نے اس کی کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ رات کو نماز میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرتے، اس عمل سے بہت سے اصحاب نے دین اسلام قبول کیا۔ مصنف آج کے مبلغین کو سمجھاتے ہیں کہ آج بھی اگر دعوت دینی ہے تو قران کریم کی دعوت ہی پیش کرنی ہوگی ۔کتاب کے دوسرے باب ’’دعوت القرآن اور تربیت صحابہ‘‘ میں مصنف بتاتے ہیں کہ جس طرح رسول اکرمؐ نے دعوت و تبلیغ کے دوران قران کا التزام کیا، اسی طرح صحابہ بھی دعوت و تبلیغ میں تلاوت قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے تھے، اس باب میں مصنف نے نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر ؓ کے قرآن کریم کی دعوت پیش کرنے کا واقعہ بیان کیا ہے۔اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر کے دعوتی پہلو کو بیان کیا ہے، اسی طرح صحابہ کیسے قرآن کریم کی دعوت دیتے تھے، اس پر خوبصورتی سے مصنف نے کئی واقعات بیان کئے ہیں۔تیسرے باب ’’صحابہ کا تعلق بالقران‘‘ میں 9 ذیلی عنوانات کے تحت دکھایا ہے کہ صحابہ نے کس طرح خود کو قرآن کے حوالے کیا تھا، چونکہ صحابہ قرآن کریم کے اولین مخاطب تھے، لہٰذا اس کا جاننا قاری کے لیے اہم ہے ،مصنف نے اس باب میں دل کو چھونے والے واقعات درج کیے ہیں۔کتاب کے چوتھے باب ’’درس قرآن کا قرآنی اسلوب ‘‘میں مصنف نے قرآن کریم سمجھنے کے لیے چند اہم نکات بیان کیے ہیں، اس باب کے مطالعہ سے قرآن کریم کا اسلوب معلوم ہوتا ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ قرآن دل و دماغ دونوں کو اپیل کرتا ہے، قرآن بار بار سوال اٹھاتا ہے، لہٰذا ہمیں سوال اٹھانے چاہیے، اس باب میں صفات الہٰی، امثال قرآنی پر خوبصورت گفتگو کی گئی ہے، مصنف قرآن کے اسلوب کے تحت لکھتے ہیں کہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کو ثانوی بحث میں نہیں اُلجھاتا ہے۔قرآن کریم کے اسلوب سے ناواقفیت کی وجہ سے ہم قرآن کریم کو نہیں سمجھتے، مصنف لکھتے ہیں: ’’قرآن کے ایک طالب علم ، مدرس ، مقرر اور واعظ کے لیے لازم ہے کہ وہ بار بار تلاوت کر کے قرآن کے اسلوب کو اپنے اندر جذب کرے اور قر آنی اسلوب میں ہی قرآن کا درس دے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے ہاں درس قرآن تو بہت ہوتے ہیں لیکن ان دروس میں قرآن سے اخذ شدہ قرآنی اسلوب کم ہی نظر آتا ہے۔ واعظ کی نصیحت ،روایات کی بھر مار سے بوجھل ہو جائے، قرآن کے محقق کی تفسیر محض عقل پرستانہ دلائل یا فقهی نکتہ آفرینیوں کا مجموعہ بن جائے، ایک آیت پڑھ کر محض حالات حاضرہ کے بیان کو درس قرآن کا نام دے دیا جائے تو ان دروس کے ذریعے عوام الناس کو قرآن سے نہیں جوڑا جاسکتا۔‘‘ (صفحہ 58) ۔ کتاب کے پانچویں باب ’’قرآنی قصص و حقائق کا عملی اطلاق ‘‘میں مصنف نے قرآنی قصوں کے حوالے سے بحث کی ہے۔ مصنف قرآن کے مدرس کے لیے یہ ضروری صلاحیت سمجھتے ہیں کہ وہ قرآن میں بیان شدہ واقعات و حقائق کا اپنے زمانے کے واقعات و حقائق پر اطلاق کر سکے۔مصنف کے بقول یہ کام جس طرح چودہ سو سال پہلے کے حالات و واقعات پر منطبق ہوتا ہے، اسی طرح آج کے حالات پر بھی منطبق ہونا چاہیے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ شاہ ولی اللہ کے مطابق تفسیر کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ قرآن کے بنیادی اصول و مقاصد بیان کئے جائیں، محض کہانیاں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی قرآنی واقعات وقصص کا معاشرے پر اطلاق کرکے سمجھایا جائے ۔ اصول تفسیر پر لکھی گئی اپنی مشہور کتاب ’’الفوزالکبیر‘‘ میںاعتقادی اور عملی منافقین کے تعارف کے بعد لکھتے ہیں: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی شخص کے (اعتقادی ) نفاق کو جاننا ممکن نہیں کیونکہ۔۔۔ ‘‘(صفحہ 80)۔کتاب کے چھٹے باب’’ تیسیرالقران مفہوم اور مغالطے‘‘ میں مصنف نے ‘ولقد یسرنا القرآن للذکر ،کے تحت مفسرین کی آراء بیان کی ہے۔مصنف کا ماننا ہے کہ قرآن نصیحت، ہدایت، تحفظ و تذکیر کے لیے آسان ہے البتہ تفسیر لکھنے کے لیے گہرے علمی رسوخ کی ضرورت ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ ’’حضور ؐ اور صحابہ کرامؓ سے جب بھی کوئی اسلام کا تعارف چاہتا تو وہ جواب میں اکثر قرآن کا کچھ حصہ سناتے۔ شاہ حبشہ کے دربار میں نبی کریمؐ کی دعوت پوچھی گئی تو قرآن سنایا گیا۔ مکہ میں ابوذرغفاری، طفیل دوسی اور دیگر کو رسول اللہؐ نے قرآن سنایا۔ مدینہ میں مصعب بن عمیر نے اُسید بن حضیر ، سعد بن معاذ اور دیگر کو قر آن سنا کر ہی قبول اسلام پر آمادہ کیا۔ یہ سب لوگ کسی مدرسے کے سند یافتہ نہ تھے۔ یہ کیسا عجوبہ روزگار ہے کہ آج کے داعی اور مبلغین و مصلحین کی پوری پوری دعوتی گفتگو میں کسی ایک آیت سے استدلال نظر نہیں آتا بلکہ بعض تو درس قرآن دینے اور سننے سے یہ کہہ کر روکتے ہیں کہ اس کے لیے پہلے اٹھارہ بیس علوم کی تحصیل ضروری ہے۔ ‘‘(صفحہ 95)۔کتاب کے ساتویں باب ’’قران کا طرز استدلال ‘‘میں مصنف نے علم کلام اور قرآنی استدلال کا فرق بتایا ہے، قرآنی دلائل کے حوالے سے مصنف کا ماننا ہے کہ ان میں عمومیت اور سادگی ہوتی ہے۔امام رازی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’قرآن کا دلیل دینے کا انداز عوام الناس کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقلوں میں بات بٹھانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو انسانی ذہنوں کے قریب تر ہی ہونا چاہیے تا کہ خواص وعوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ پھر یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد بحث و مناظرہ نہیں بلکہ صحیح عقائد کو دل نشین کرانا ہے اور اس مقصد کے لیے اس قسم کے دلائل دوسری قسم کے دلائل سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوتے ہیں ۔‘‘(صفحہ 100)۔مصنف اس باب میں سمجھاتے ہیں کہ قرآن کس طرح عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتا ہے۔کتاب کے آٹھویں باب’’ قرآن کے حقوق ‘‘میں مصنف نے بتایا ہے کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مندرجہ ذیل حقوق ہیں :پہلا حق ایمان، دوسرا حق تلاوت، تیسرا حق تدبر، چوتھا حق عمل بالقران، پانچواں حق اقامت قرآن، چھٹا حق ابلاغ قرآن ۔مصنف نے ان سبھی حقوق کو قرآن و سنت سے ثابت کیا ہے۔کتاب کے نویں باب’’ درس و تفسیر‘‘ کے ماخذ میں مصنف لکھتے ہیں کہ ایک مدرس اور داعی ماخذ تفسیر کا جتنا لحاظ رکھتے ہوئے قرآن کا درس یا دعوت دے گا اتنا ہی موثر ہوگا، مصنف نے دیگر اہل علم کی مانند قرآن کی تفسیر کے چھ ماخذ بیان کئے ہیں : 1 قرآن، 2 حد یث، 3آثار صحابہ، 4 آثار تابعین، 5 لغت، 6 عقل سلیم۔ مصنف نے قرآن و حدیث سے یہ ماخذ ثابت کئے ہیں۔اس باب کے آخر میں مصنف نے تفسیر کے ناقابل اعتماد بھی ماخذ بیان کیے ہیں۔کتاب کے دسویں باب ’’تفہیم القرآن کے مطالعہ کی افادیت‘‘ میں مصنف نے پہلے برصغیر کے تفسیری پس منظر کو بیان کیا ہے۔اس سلسلے میں وہ تجدد پسند تفسیری رجحان، ردنیچریت اور مسلکی تفاسیر کا تعارف کروایا ہے،اس کے بعد مصنف احیاء و انقلابی رجحان کے تحت تفہیم القرآن کا ذکر کرتے ہوئے تفہیم القرآن کا تعارف یوں پیش کرتے ہیں: ’’مولانا مودودی نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جدید تعلیم یافتہ اور متوسط درجے کے اہل علم کی ضرورت کے پیش نظر قرآن کے حقیقی مدعا سے روشناس کرانے اور روح قرآن تک ان کی رسائی کے لیے چھ جلدوں پر مشتمل تفہیم القرآن لکھی ،جو نئے اذہان کی الجھنیں صاف کرنے اور اشکالات کا جواب دینے کی بہترین کوشش ہے۔ تاریخی فقہی ، کلامی، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور تہذیبی مسائل پر گہرے علمی مباحث اور خشک موضوعات بھی رواں اور دلکش انداز تحریر کی وجہ سے سہل معلوم ہوتے ہیں۔ فقہی مسائل میں توسع ، اعتدال اور اجتہادی رنگ نمایاں ہے۔ احادیث و آثار سے استدلال کے ساتھ ساتھ حقائق قرآنی سے متعارض روایات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا ہے یہ تفسیر اسلام کے حرکی تصور کی ایک زندہ جاوید تعبیر ہے جس میں اسلام کو ہمہ گیر، ہمہ جہت ، جامع اور مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کیا گیا۔‘‘ (صفحہ 157) اس باب میں مصنف نے تفہیم القرآن کی 9 نمایاں خصوصیات کو مختصر مگر جامع طور بیان کیا ہے۔کتاب کے گیارہویں باب’’ فہم قرآن کلاس ‘‘میں مصنف نے پہلے امت مسلمہ کی دعوت الی القرآن کی کچھ اہم کوششوں کو بیان کیا ہے۔اس کے بعد فہم قرآن کلاسز کا بہترین طریقہ سے تعارف کرایا ہے۔کتاب کے بارہویں باب ’’نظم قرآن کا تصور و ارتقاء‘‘میں مصنف نے پہلے مستشرقین کے ان اعتراضات کو بیان کیا ہے جو کہ انہوں نے اس وجہ سے کیا کیونکہ ان کو قرآن پاک میں نظم نہیں ملا، اس کے بعد وہ ان مسلمان مفکرین پر اعتراض کرتے ہیں جن کو قرآن کریم میں نظم نہیں ملا، مصنف صحابی رسول حضرت مسلم بن یسار کے اس قول کو بیان کرتے ہیں کہ ’’جب اللہ کے کلام کے بارے میں کوئی بات کرو تو ٹھہر کر دیکھو جو اس سے پہلے ہے اور جو اسکے بعد بیان ہوا ہے۔‘‘ علامہ سیوطی کے مطابق سب سے پہلے شیخ ابو بکر نیشاپوری نے علم مناسبت ظاہر کیا۔ مصنف نے دکھایا ہے کہ کس طرح قدیم مفسرین کے ہاں بھی نظم قرآن کا تصور ملتا ہے، جوں جوں آگے بڑھتے گئےاس علم کا ارتقاء ہوا، اس سلسلے میں دور جدید میں علامہ حمید الدین فراہی کا اہم رول رہا ہے۔کتاب میں مولانا امین احسن اصلاحی کا تصور نظم قرآن پر بھی مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔کتاب کے آخری باب ’’نظم قرآن کے قائلین و ناقدین ‘‘میں مصنف لکھتے ہیں کہ سلف می کچھ نظم کے قائل تھے کچھ نہیں تھے، اس باب میں آگے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’جن علما نے نظم کا انکار کیا انہوں نے بھی اس کی ضرورت اور کلام میں اس کی اہمیت محسوس کی ہے۔‘‘ (صفحہ 215)۔یہ کتاب ہر داعی اور قرآن کے طالب علم کی ضرورت ہے۔کتاب کو ملت پبلشرز اور دسٹریبووٹرس نے عمدہ طباعت سے شائع کیا ہے،کتاب کی قیمت 380 روپے بھی مناسب ہے۔ کتاب واٹس اَپ نمبر 9419561922 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
(رابطہ۔ 9906653927)