ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی قادری کا پہلا افسانوں کا مجموعہ ’ چنار کے برفیلے سائے ‘ ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا تھا اور اس کے دو سال بعد ہی ۲۰۱۵ء میں ایک اور مجموعہ بہ عنوان ’ خاموش آسمان‘ منظر عام پر آگیا ۔ڈاکٹر نیلوفر ناز کو بچپن ہی سے صنف افسانہ کے ساتھ رغبت رہی ، میٹرک کا امتحان دینے کے بعد ہی انھوں نے ایک افسانہ ’جوان بوڑھا ‘ رقم کیا جس میں ایک عمر رسیدہ مرکزی کردار سماجی جونک بن کر سامنے آتا ہے۔ افسانہ نگار چونکہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے اپنی دھرتی کی خوشبوئیں اور زہرآلود ہوائیں ہر دو اپنے افسانوں میں سمیٹ لیتی ہیں ۔ کشمیر کئی دہائیوں سے تاریکیوں سے جوجھ رہا ہے اور اس تاریک سرنگ میں کہیں کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی ۔ یہاں کے لوگ خاموشی سے ان طوفانی ہواؤں کا مقابلہ کر تے ہیں اور رات دن یہی دعا کرتے ہیں کہ کوئی تو ایسی صبح آئے کہ زندگی پھر سے مسکرا اٹھے ۔ ڈاکٹر نیلوفر ناز پیشے سے ایک معلم ہیںاور کالج میںفارسی پڑھاتی ہیں ۔ انھوں نے فارسی میںایم اے کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی ہے اور اپنی تعلیم کا بھر پور فائدہ اٹھا کر فارسی میں کئی کتابیں تخلیق کی ہیںمثلاً ’غنی کشمیری -حیات اور شاعری‘(۲۰۰۲ء/۲۰۱۱ء) ، ’فارسی کی طرف پہلا قدم‘ ( ۲۰۰۶ء /۲۰۰۸ء )، ’فارسی کی طرف دوسرا قدم‘ ( ۲۰۱۲ء) اور’ شہر ہای نور‘ (۲۰۱۰ء) ۔ موصوفہ نے کئی اردو اورکشمیری افسانوں کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔
’چنار کے برفیلے سائے‘ میں ۲۶؍افسانے شامل ہیں۔مصنفہ کے پیش لفظ سے پہلے پروفیسر حامدی کاشمیری اور نور شاہ کے تاثرات شامل ہیں ۔ حامدی کاشمیری مصنفہ کے فن کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ نیلوفر ناز مابعد جدیدیت کے عہد کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ وہ مقامی اور غیر مقامی سطحوں پر سیاسیات کی چنگیزیت ، معاشرتی گھٹن اور اقتصادی درہمی کا قریب سے مطالعہ کرتی ہیں ۔‘‘
نیلوفر ناز اپنی کہانیوں کے موضوعات اور کردار آس پاس کے ماحول سے ڈھونڈ لیتی ہیں اور انھیں بڑی ہنرمندی سے اپنے افسانوں میں پیش کرتی ہیں ۔ موضوعات زیادہ تر سماجی و معاشی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا محور اکثر و بیشتر طبقۂ نسواں ہوتا ہے اور انھیں اس بات کا احساس ہے کہ عورت سماج کا زائدہ بن کر رہ گئی ہے ۔خواتین کے مسائل پر روشنی ڈالنے کے باوجود وہ اپنی ثقافتی جڑوں سے جڑ ی رہتی ہیں اور موڈرن تانیثی رجحان سے پرہیز کرتی ہیں۔چنانچہ وہ معلم ہیں اس لیے ان کے کئی افسانے تعلیمی نظام اور طلبہ و اساتذہ کی زندگی سے وابستہ ہیں۔ ان کے افسانوں میں بشری خاص کر بچوں کی نفسیات کا تجزیہ بھی ملتاہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کشمیر کے سماوی و ارضی ہردو آفات پر قلم اٹھایاہے ۔
’چنار کے برفیلے سائے ‘میں تین افسانے عشقیہ موضوع پر رقم کیے گئے ہیں :’تم نہیں اور سہی ‘ (انتخاب کی تبدیلی)، ’شکست ‘(عشق کی ناکامی) اور ’ تلاش ‘ ( والدین کی من مانی ) ۔غربت کے حوالے سے دو افسانے ملتے ہیں: ’بدلتی نظریں‘ ( غریب گھرانے کی غیر محفوظیت) اور ’بھیک ‘(کینسر سے متاثرہ کنبے کی کہانی) ۔ شادی میں جہیز اور فضول خرچی پر کچھ کہانیاں ملتی ہیںجیسے ’ایک دن کی حکومت ‘( شادی کے لیے ملازمت کی شرط) اور ’آگ ‘(جہیز کی خاطر بہو کو جلانے کی بدعت)۔ ’نازلی ‘ عورت کے اپمان کی کہانی ہے اور ’نربھیاکانڈ‘ کی یاد دلاتی ہے مگر اس کا اختتام انہونا ہے کہ لڑکے کی دُر دشا کو دیکھ کر لڑکی کا دل پسیج جاتا ہے ۔افسانہ ’پرموشن ‘میں مرکزی کردار عمر بھر سکول سے چھٹکارا پانے کا متمنی ہوتا ہے مگر جب اس کا پرموشن بحیثیت کالج لیکچرار ہوجاتا ہے تو سبکدوشی دو مہینے پہلے ہی ہوئی ہوتی ہے۔اسی طرح’ڈھائی سو ‘ میں میڈیکل پیشے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ ’ مہمان‘ بہت ہی ہلکا پھلکا افسانہ ہے جس میںمہمان کی ناقدری اور فراموشی دکھائی گئی ہے۔بڑھاپے کی غیر محفوظیت کو بھی کئی افسانوں میں برتا گیا ہے مثلاً’وارث ‘( والدین کے تئیں غفلت کرنا) ، ’آشیانہ ‘( والد سے بدتمیزی سے پیش آنا)اور’ہزار کا نوٹ‘ (والدین کی ضرورتوں کو پورا نہ کرنا)۔ افسانہ’نامحرم ‘ میں اسی موضوع کا ایک اور روپ سامنے آتا ہے کہ دیکھ بھال کے وقت ایک غیر لڑکی بٹیا بن کر سارا بوجھ اٹھاتی ہے مگر مرتے وقت اس کو نامحرم کا لیبل لگاکر مردے کا منہ دیکھنے سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ افسانہ ’لاڈلا‘ میں بچوں کی غلط پرورش اور ’خوف‘ میں اساتذہ کاطالبات کو گھر پر بلانے کے سبب خوفزدہ کرنا درشایا گیا ہے۔ بچوں ہی سے متعلق چند اور افسانے ملتے ہیں جیسے ’بی اماں‘ (کمسن گھریلو ملازم کی بدحالی) اور ’ جگر ‘ ( بچہ مزدور کی کسمپرسی )۔کشمیر کے حالات سے وابستہ کہانیاں یوں ہیں :’ کالے سائے ‘( فوجی کی دست درازی ) ، ’گن مین‘ ( شہوت کی زد میں آکر بھکارن کا استحصال ) ،برتھ ڈے ‘( کراس فائرنگ میں اکلوتے بیٹے کا ہلاک ہو جانا) ،’قہر ‘ (پولیس کی زیادتیاں) اور ’سزا ۔۔۔بن جرم ‘ (بے کتبہ لاشوں کو دفنانا)۔آخر میں مزید پانچ افسانچے بہ عنوان ’ساتھی ‘،’حرف حرف‘،’خریدار ‘،’جہیز ‘اور ’تھیلا‘شامل کیے گئے ہیں۔ افسانہ نگار نے اپنے افسانوں میں نہ صرف مرض کی نشاندہی کی ہے بلکہ کہیں کہیں مسائل کے تدارک پر بھی روشنی ڈالی ہے جو مقصدی ادب کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ اس حوالے سے نور شاہ فرماتے ہیں :
’’ڈاکٹر نیلوفر ناز کے اکثر افسانوں میں جہاں سماجی ناہمواریوں کا ذکر ملتا ہے وہیں سماج اور معاشرے کو اخلاقی گراوٹ سے بچانے کی تدابیر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔‘‘
افسانوں کے دوسرے مجموعے’ خاموش آسمان ‘ میں نہ صرف تکنیک کی پختگی نظر آتی ہے بلکہ موضوعات اور کرداروں کا تنوع بھی دکھائی دیتا ہے ۔ نیلوفر ناز کہانی شروع کرتے وقت لمبی چوڑی تمہید باندھتی ہے نہ واقعات کو غیر ضروری طول دیتی ہے ۔وہ کہانی سادہ و شگفتہ زبان میں بغیر کسی حشو و زائد کے بیان کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے قارئین کو بھول بھلیوں میں لے جاکر نہیں چھوڑتی ، انجام کار قاری محظوظ ہوتا ہے اور اس کا تجسس اخیر تک برقرار رہتا ہے ۔ مجموعے میں ۲۳ ؍ افسانے ہیں اور نور شاہ کے پیش لفظ کے علاوہ ڈاکٹراشرف آثاری کے مختصر تاثرات بھی شامل ہیں ۔مشمول افسانوںکے بارے میں نور شاہ فرماتے ہیں :
’’ ڈاکٹر نحوی کی یہ کہانیاں آج کے انسان کی کہانیاں ہیں ، آج کے دور کی کہانیاں ہیں ۔ یہ بدلتی ہوئی قدروں کی کہانیاں
ہیں ۔ ان میں احتجاج ہے اور محبت کی چاشنی بھی۔یہ کہانیاں پڑھ کر آپ کو ایک عجیب سی کیفیت سے گزرنا پڑے گا۔ کئی جانی انجانی تصویریں نگاہوں کے سامنے جاگ اٹھیں گی۔ کئی انسانی خد و خال ابھریں گے اور ڈاکٹر نحوی کی تحریروں میں پوشیدہ ہوجائیں گے لیکن انھیں فراموش کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے ۔‘‘
مجموعے کا پہلا افسانہ ’مِش ٹیک‘ ہے جس کی تحریک غالباً منٹو کے افسانے سے ملی ہے ۔ افسانے میں ایذارساں دادا سے تنگ آکر مرکزی کردارغلطی سے اپنے باپ کو ابدی نیند سلانے کا ٹیکہ لگا دیتا ہے۔ ’کھوٹا آدمی ‘ ایک عیاش اور شہوت پرست شخص کی کہانی ہے جو آخرش اپنی ہی بیٹی کو روبرو پاتا ہے ۔’سازش ‘ میں بیوی کی زلفوں کا اسیر ہوکر ارشد اپنی بہن کو، جو شادی کرانے میں اس کی مدد کرتی ہے ، ازدواجی تلخیوں کا ذمہ وار ٹھہراتا ہے۔ افسانہ ’بے رخی ‘ایسی عشقیہ کہانی ہے جس میں مسلسل فراموشی کی تاب نہ لا کر لڑکی اپنے استاد و محبوب سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہوتی ہے ۔’ میرا نیارا وطن‘ حب الوطنی پر لکھا ہوا افسانہ ہے جس میں اقدار کے تنزل کا نوحہ رقم کیا گیا ہے ۔ کہانی کو پڑھ کر مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب میں پہلی بار لکھنٔو شہر میں وارد ہوا تھا اور لکھنٔوی تہذیب ڈھونڈنے لگا ۔ اس کے بارے میں میں نے اردو اور تاریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ مذکورہ افسانے میں دہلی کی عظمتِ رفتہ کا بیان بہت ہی خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے :
’’ دِلّی، ایک ایسا شہر جس کی تعریفیں میں بچپن سے سنتی آرہی ہوں ۔ دِلّی جو دل ہے ہندستان کا ۔ دِلّی ہے دل والوں کی ، ہمارے ملک کا دل ۔ ہمارے سے زیادہ میرے ملک کا دل۔کیونکہ میں تو پوری کی پوری ہندستانی ہوں ۔ مجھے ہندستان سے زبر دست لگاؤ ہے ۔ ہندستانی کرکٹ ، ہندستانی کپڑے ، ہندستانی ساڑھی، ہندستانی گہنے، ہندستانی ہونے کا احساس ، میرا روم روم جھوم رہا تھا۔ میں نے ہندُستانی ساڑھی صرف فلموں میں دیکھی تھی ۔ اور میرے دل ہی دل میں بہت شوق تھا کہ اس شہر کو دیکھوں ، اس شہر میں جاکر رہوں جس کو میں نے بارہا خوابوں میں مشاہدہ کیا تھا۔
افسانہ’ تیسری بیٹی ‘ میں کسی اورلاولد جوڑے کی حالت زار دیکھ کر ماں باپ تیسری لڑکی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ’اولاد ‘ کہانی ہے بانجھ پن اور سوتاپے کی جس کے سبب پہلی بیوی ہزیمت تو اٹھاتی ہے مگر کنبہ قدرتی انصاف سے بچ نہیں پاتا۔لفظ ’عذل ‘ کا معنی سمجھ نہیں آیا، تاہم اس افسانے میں بھی فطری انصاف کے زیر اثر ساس اور سسر کو اپنی بہو سے معافی مانگنی پڑتی ہے اور اسے دوبارہ اپنی بہو ماننا پڑتا ہے۔ افسانے میں سے ایک اقتباس یہاں نقل کرتا ہوں :
’’ عورت چاہے کتنی بھی کماؤ ہو ، کتنی بھی بڑی افسر ہو ، اس کے شوہر کی اہمیت اس کی زندگی میں بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
جس طرح عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری ہے اسی طرح عورت کی زندگی بھی مرد کے بغیر خالی ہے ۔ ان دونوں کی زندگی ایک دوسرے پر منحصر ہے ۔‘‘
موجودہ تکنیکی دور میں انسان اتنا مجبور اور خود غرض ہو چکا ہے کہ خون کے رشتوں کو بھول کر صرف اپنے مفاد کی سوچتا ہے ۔ دوسری جانب والدین عصری ریس کے سبب اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے اور مغربی ممالک میں ملازمت کے لیے بھیجنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جس کا خمیازہ آخر کار انھیں بھگتنا پڑتاہے۔ اس موضوع کو افسانہ نگار نے بڑے ہی جذباتی انداز میں ’ سفید خون ‘ میں پیش کیاہے۔ افسانہ ’گمشدہ لمحے ‘ ایک نفسیاتی کہانی ہے جس میں ایک پروفیسر اپنے فوری ماضی کو بھول جاتا ہے لیکن ماضی بعید کو یاد کرکے اس میں تسکین ڈھونڈتا ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک اور کہانی ’پالکی ‘ ہے جس میں یادداشت کھویا ہوا مریض آخر ش موت سے ہم کنار ہوتا ہے ۔افسانہ ’معافی ‘ میں ایک ماںبڑھاپے میں ذلت اور بے قدری سے ہمکنار ہوکر اپنے بیٹے کے تئیں مرتے دم تک خاموشی اختیار کرتی ہے۔ نفسیات سے متعلق ایک اور کہانی ’غصہ ‘ ہے جس میں دو بھائیوں کے الگ الگ رویوں اور آپسی رنجشوں کو بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح ’نڈر آنکھیں ‘ میں بے باک اور نڈر طالب علم سے آنکھیں ملانے میں استاد کو سنکوچ ہوتا ہے۔ اُدھر’پرچھائیاں ‘ بڑی مدّت بعد دو سہیلیوں کے ملن کی خوشیوں کا اظہاریہ بن کر سامنے آتا ہے ۔ ملک کی بھوک مری کا حال اور بھیک پانے کے لیے بھیک منگوں کا مزاروں کے باہر قطاردر قطار جمع ہونا ’روٹی ‘ میں منعکس کیا گیا ہے ۔ اس افسانے میں پیربابا کی درگاہ کا منظر بہت ہی عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ ’سیمنار ‘ ماحولیاتی سرگرمیوں اور افسر شاہی کی بے ضابطگیوں پر بڑا گہرا طنز ہے کیونکہ یہ کارروائیاں محض کاغذتک محدود رہتی ہیں اورشرکا صفائی پر دھیان دینے کے بجائے ماحول کو مزید کثیف بناتے ہیں۔ایک اور افسانہ جو آفات سماوی کاکریہہ منظر پیش کرتا ہے وہ ہے’ چھت‘ جس میں کشمیر میں حال ہی میں آئے سیلاب کی دلگداز عکاسی کی گئی ہے۔
افسانہ’بکریاں ‘ میں آتنکی سازش کے تحت لاشوں کا کاروبار ہوتا ہے ۔’ سکوت ‘ کہانی ہے فوجی ظلم و جبرکی کہ ایک محبت کررہے جوڑے کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ’پرورش ‘میں ظاہری طور پرجانوروں سے محبت کرنے کا درس دیا گیا ہے مگر باطن میںیہ کہانی علامتی ہے جو ان ماؤں کے کرب کو پیش کرتی ہے جن کے بیٹے آئے دن یا تو گولیوں کا شکار ہوتے ہیں یا پھر غائب ہوجاتے ہیں۔’لخت جگر ‘ بھی ’سزا، بن جرم ‘کی مانند کشمیر میں گم ہو رہے نو جوانوں اور ان کی بے نام قبروں کی داستاں بیان کرتا ہے یہاں تک کہ ایک ماں بہت ساری قبروں پر پھول چڑھانے کے لیے مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کالاڈلا کس قبر میں ابدی نیندسورہا ہے۔
ڈاکٹر نیلوفر ناز کی مذکورہ کہانیاں بظاہر سیدھی سادی اور عام فہم ہیں جن میں پلاٹ کی پیچیدگی نظر آتی ہے نہ کردار کی، تاہم یہی صفت کچھ کہانیوں کوسبک اور ہلکا بنا دیتی ہے ۔دراصل اس میں افسانہ نگار کی عجلت بیانی کا دخل ہے ، وہ کہانی کوبڑے تزک و اہتمام سے شروع توکرتی ہیں لیکن اس کو جلد ی سے ختم کرنے کی طاق میں رہتی ہیں۔ ایسی کہانیوں میں تفصیل کی عدم موجودگی اور تکنیک کی عدم پختگی کا احساس ہوتا ہے ۔کہانی ’مش ٹیک‘ میں یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی کو انجکشن لگایا جائے اور اس کی صورت نظر نہ آئے۔ اسی طرح ملکی ہوائی سفر کے دوران الیکٹرانکس کا استعمال ممنوع ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے افسانہ نگار کی کہانیاں سلیس اور شگفتہ ہیں ۔ کہیںکہیں طنز کا استعمال بھی ہوا ہے ۔ البتہ متن میں کچھ غلطیاں در آئی ہیں۔ یا تو کمپوزنگ پر دھیان نہیں دیا گیا ہے یا پھر سنجیدگی سے پروف ریڈنگ نہیں ہوئی ہے۔ یہاں پرچند اغلاط کی نشاندہی کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں : ڈراور(دراز ،ص ۴۷)؛ ڈھیرہ ( ڈیرا ،ص ۱۰۲ ) ؛کُندہ ( بٹھا،ص۱۱۲)، دھنگل مچانا(دنگل /پیٹ میںچوہے دوڑنا، ص ۱۲۱)اور داشت آید بکار (داشتہ آید بکار، ص ۱۳۵)وغیرہ۔دوسرے افسانوی مجموعے میں بھی چند غلطیاں در آئی ہیں جیسے کڑتے ( کڑھتے، ص۲۰)، دایئں (دائیں، ص ۳۷)،لامبے( لانبے، ص۳۷) ، کچھا کچھ( کھچا کھچ، ص ۹۰) ، ظعیف (ضعیف، ص ۱۰۷) ، بہترا ( بہتیرا ،ص ۱۰۸)اور لیب ٹاپ (لیپ ٹاپ، ص۱۲۰ (Laptop ۔ کچھ انگریزی الفاظ کا املا بھی غلط لکھا گیا ہے ۔(stitches,p82)sitiches ؛intelegent (intelligent,p86) علاوہ ازیں اگر’نڈر آنکھیں‘ میں فارسی شعر کو اردو میں ترجمہ کیا گیا ہوتا تو فارسی سے نابلد قارئین کے لیے بہتر رہتا۔
مجموعی طور پر مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ وادیٔ کشمیر کی خواتین افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض کے بعد ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کا یوگدان کافی اہم ہے ۔وہ نڈر بھی ہیں اور بے باک بھی ۔ان کے یہاں درد مند دل بھی ہے اور تجزیاتی دماغ بھی ۔وہ معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر کڑی نظر رکھتی ہیں اور انسانی کرب و بلا کی تصویر یںبڑی ہنر مندی سے پیش کرتی ہیں۔ کشمیر کے نامساعد حالات پر انھوں نے کئی دلگداز کہانیاں قلم بند کی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آگے بھی وہ اپنی نگارشات سے اردو ادب کی آبیاری کرتی رہیں گی۔
Mobile: 09868271199,
email: [email protected]
������