سیدقطب اوردوسرے اسلام پسندرہنمائوںکے نزدیک مسلمانوںکوغیرمسلموںسے مسلسل برسرپیکاررہناچاہیے یہاںتک کہ وہ ایمان لے آئیںیااسلام کا سیاسی علبہ تسلیم کرلیں(ملاحظہ ہومعالم فی الطریق )اب سوال یہ ہے کہ لااکراہ فی الدین کے قرآنی اصول کی موجودگی میں ہمارے اس موقف کی توجیہ کیاہوگی ؟قرآن کہتاہے کہ لست علیہم بمصیطرتوپھرکس بنیادپر مسلمان دنیاکے داروغہ بنناچاہتے ہیں؟مزیدیہ کہ موجودہ دورمیں جبکہ دنیا multi cultural ہوچکی ہے اوردنیامیںعالمی اداروںاورعالمی معاہدات کی حکومت ہے تو اس رویہ کوکس معقول ثابت کیاجاسکے گا؟۔آج جدیدبین الاقوامی قانون تمام ریاستوںکی آزادی اورساورنٹی کوتسلیم کرتاہے ،ہرریاست کے حق بقاکوتسلیم کرتاہے ،اس کی آزادی وْخودمختاری کومانتاہے ،اسے اپنے معاملات میں بیرونی مداخلت سے محفوظ رہنے کا حق دیتاہے توایسے میں ہمارایہ جارحانہ اصول آج کیسے چلے گاتواس مخمصہ سے نجات دلانے کے لیے ڈاکٹرحمیداللہ کے خیالات وافکاراس ضمن میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ان کے مطابق اہل اسلام کے تعلقات کی نسبت اہل کفرسے محاربہ کی نہیں بلکہ مصالحت پر مبنی ہوگی اورجہاداسلام میں صرف دفاع کے لیے ہے ،قتال ہجوم یاجہادطلب کے لیے سیرت نبوی میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔جہادہی سے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامیہ اورجدیداسلامی لٹریچرمیں عام طورپریہ خیال ظاہرکیاگیاہے کہ اسلام میں غیرجانبداری کا تصورنہیں ہے ۔مختلف فقہاء کے حوالوںسے وہ کہتے ہیںکہ دنیادارالاسلام اوردارالحرب کے دومتحارب بلاکوںمیں تقسیم ہے،ان کے درمیان تیسرے بلاک کا وجودنہیں۔لیکن ڈاکٹرحمیداللہ نے اس مسئلہ کی تحقیق کی اورپوری ایک کتاب اس پر لکھی جس کا موضوع ہے : اسلامی قانون بین الممالک میں غیرجانبداری کاتصور۔یہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ جس کوانہوںنے جرمنی کی بون یونیورسٹی میں پیش کیاتھاجو 1933 لائپزگ سے کتابی شکل میںشائع ہوا۔یہ کتاب اس موقف کوثابت کرتی ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی حکومت غیرمسلم ریاستوںسے بہرصورت متصادم ہوبلکہ وہ ان سے مسالمانہ تعلقات رکھ سکتی ہے اوراسی طرح غیرمسلم ریاستوںکے بیچ میں جاری جنگ کے دوران بھی وہ کسی ایک فریق کا ساتھ نہ دے کرغیرجانبداررہ سکتی ہے۔وہ غیرمسلم ریاستوںکے حق بقاکی نفی نہیں کرتی ۔ڈاکٹرحمیداللہ نے مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ میں فرمایاہے کہ قرآن میں یہ بات بہت زوردیکرکہی گئی ہے کہ یہ زمین اللہ کی ہے وہ اس پر جس کوچاہتاہے اقتداربحشتاہے ‘‘وہ جس کوچاہے عزت و اقتداردے اورجس کوچاہے ذلت ومحکومی(آل عمران :26 )یہ گویاریاستوںکے اقتداراعلی کا اقرارواعتراف ہے۔ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے خیالات کواورمسلم مفکرین نے بھی آگے بڑھایاہے ،فقیہ ڈاکٹروہبہ زحیلی فرماتے ہیں:دارالاسلام اوردارالکفرکی کلاسیکل تقسیم سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ اسلام مختلف قانونی نظام اوراقتداراعلی رکھنے والے ممالک کے وجودکوتسلیم نہیں کرتا……لیکن اسلام کا ان کوتسلیم نہ کرنانظری ہے ۔امرواقع کے طورپر اسلام مخالف نظریات والی ریاستوںکے وجودکا منکرنہیں ۔اپنے عقیدہ وفکرکے حوالہ سے مسلمانوںکی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ اسلام کے پیغام کو دوسروں تک پہنچادیں۔
عہدجدیدکے بعض مسلم علما ودانشوروںکی رائے میں اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہریوںکی حیثیت دوسرے درجہ کے شہریوںکی ہوگی مگرڈاکٹرمحمدحمیداللہ کی تحقیق یہ ہے کہ اسلامی ریاست ان کوجزیہ اوربعض دوسرے پابندیوںکے ساتھ پوری مساوات دے گی ۔’’امام سرخسی کے حوالہ سے کہتے ہیںکہ جزیہ کوبھی چاہے توحکومت معاف کرسکتی ہے ( ۵)عہدنبوی میں نظام حکمرانی میں میثاق مدینہ کے ضمن میں لکھتے ہیں:اس دستاویز کے دونمایاںاورممتاز حصے ہیںایک اسلامی و عربی قبائل سے متعلق ہے دوسرایہودیوںسے ،دستورکے پہلے حصہ میں یہودیوںکوان دین ومذہب پرعمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔یہ ضمانت دی گئی ہے ان کے سماجی وتہذیبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی ۔ (۶)اہل کتاب کے مقدموںمیں آنحضرت ان کے شخصی قانون کے مطابق فیصلے فرماتے تھے ۔چنانچہ یہودیوںکے تین مقدموںکا اکثرمؤرخوںنے ذکرکیاہے جن میںتوریت پرعمل کیاگیا(۷) سی طرح ڈاکٹرصاحب اس کے بھی قائل تھے کہ اسلامی قانون کے مستندمآخذمیں سابقہ پیغمبروںکی شریعتیںبھی داخل کرنے کی ضرورت ہے ۔’’پرانے انبیاء کی شریعت مسلمانوںکے لیے بھی واجب التعمیل ہے دوشرطوںکے ساتھ ایک توان میں ترمیم یاتبدیلی قرآن نے نہ کی ہواوردوسرے یہ ان کا ہم تک پہنچناقابل اطمینان وسائل سے ہواہو۔
اجماع : اجماع کوشریعت کے چارمصادرمیں سے ایک سمجھاجاتاہے ۔لیکن ہمارے عمومااجماع کا استعمال منفی ہوتاہے یعنی کسی نئی تحقیق کا راستہ روکنے کے لیے کسی نئے اجتہادپر نکیرکے لیے لوگ کہ دیتے ہیںکہ یہ اجماع کے خلاف ہے ۔اسی طرح اظہاررائے کی آزادی کوگویااجماع کا حوالہ دیکرختم کردیاجاتاہے ۔ اس قسم کے جس اجماع پر بہت زیادہ شورمچایاجاتاہے اس کوڈاکٹرحمیداللہ محض افسانہ کہتے ہیں، ان کے الفاظ میں :
’’اس سلسلہ میں اتفاق رائے یاکثرت رائے سے فیصلہ کرنے کے لیے اجماع کی اصطلاح کا بہت ذکرکیاجاتاہے لیکن علماء کرام مجھے معاف فرمائیں،تومیں عرض کرناچاہتاہوںکہ اجماع فقط ایک مفروضہ اورافسانہ ہے ‘اس کا کوئی وجودنہیںاورچودہ سوبرس سے اجماع کے ذریعہ فیصلہ کا کوئی طریقہ مقررنہیں کیاگیا۔‘‘
تاہم اصولی طورپر وہ اجماع کومانتے ہیںبلکہ انہوںنے اجماع کوصحیح طورپر برتنے اوربطورادارہ اس کوڈیولپ کرنے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔وہ کہتے ہیںکہ کسی مسئلہ میں غوروفکرکے لیے منعقدہ مجلس میں ہرفقیہ یاماہرقانون کواپنی رائے دینے کا حق ہوگابلکہ وہ تواس سے بھی آگے بڑھ کریہ بھی کہتے ہیںکہ عام لوگوںسے بھی مشورہ کرناچاہیے جیساکہ خلافت راشدہ کا معمول رہاہے ۔ہاںیہ کوئی ضروری نہیںکہ ایک شخص کی رائے سے سبھی اتفاق کریں۔رائے کی قبولیت کے لیے اجتماعی عقل ( Collective Wisdom)پر منحصرہے کہ کس کی رائے کوقبولیت ملے خاص طورپر یہ دیکھناضرورہوگاکہ امت کے اجتماعی مفادمیں کون سی رائے زیادہ مناسب ہے اورکس میں قبولیت ملنے کی صلاحیت ہے ۔ایک عہدکا اجماع دوسرے عہدکے اجماع سے بدلاجاسکتاہے چنانچہ ڈاکٹرصاحب نے لکھا:اجماع کوہم ایک خاص اہمیت ضروردیتے ہیںلیکن کم ازکم حنفی فقہاء کے نزدیک اجماع اٹل اورناقابل تبدیل احکام میں سے نہیںہے بلکہ جدیدتراجماع کے ذریعہ ایک قدیم تراجماع کومنسوخ کیاجاسکتاہے ‘‘۔جس طرح ایک نبی کے احکام کودوسرانبی منسوخ کرسکتاہے اس طرح ایک فقیہ کی رائے کودوسرافقیہ ردکرکے اپنی علیحدہ رائے قائم کرسکتاہے‘‘ڈاکٹرحمیداللہ نے اپنی اس رائے کے لیے ممتاز حنفی فقیہ ابوالیسرالبزدوی کا اورامام رازی کا حوالہ دیاہے .جمہوریت کوبحیثیت ایک نظام حکومت قبول کرنے نہ کرنے کے سلسلہ میں بھی جدیداسلامی لٹریچرابہام کا اورکنفیوژن کا شکارہے اوردین پسندمسلمان اس بارے میں ابھی تک کوئی رویہ طے نہیں کرسکے ۔ڈاکٹرحمیداللہ اس بارے میںکہتے ہیں:
اسلام میں کوئی معین طرزحکومت نہیں پایاجاتا،میری دانست میںرسول اکرم نے عملاًاس بارے میںکوئی صراحت نہیں کی کہ میرے بعدکوئی جانشین ہوگا،آپ کا منشاء یہ نظرآتاہے کہ ہراسلامی مملکت اپنے زمانے کی ضرورتوںکے لحاظ سے کوئی حکم دے اس طرح جب تک وہ طریق حکومت رائج رہے گاہم اسے قبول کریںگے اورجب ہم اسے مضرسمجھیںگے تواس کوتبدیل کرسکیںگے ۔‘‘(۱۲)
ڈاکٹرحمیداللہ ایک عالمی اسلامی نظام خلافت کی تمناکرتے ہیںاوراس کی عملی صورتیںبھی انہوںنے تجویز فرمائی مگرساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں ایک ساتھ ایک سے زائداسلامی حکومتوںکا قیام جائز ہے ان کے لفظوںمیں :’’دوشاہاںدراقلیمے کا نہ اسلام نے لزوم کیاہے اورنہ اس کورواج دیاہے لیکن حسب ضرورت اس کی ا جازت دی گئی ہے۔(۱۳)اسی طرح وہ ملوکیت وجمہوریت دونوںکوحالات کے لحاظ سے یکساںاہمیت دیتے اورصحیح سمجھتے ہیں۔اسلام میںخواتین کی اہمیت کے سلسلہ میں ڈاکٹرصاحب کا رجحان یہ ہے کہ ان کومعاشرہ کی تمام ضروری سرگرمیوںمیں شریک کرناچاہیے جس کے لیے انہوںنے شفابنت عبداللہ کی مثال دی ہے جن کورسول اللہﷺ نے اورپھرحضرت عمرؓ نے مدینہ مارکیٹ کا نگراںمقررکیاتھا(۱۴)رسول اللہ خواتین کے لیے الگ مجلس کا اہتما م کرتے تھے اورانہیںشفاکوحضرت حفصہ کولکھناپڑھناسکھانے پر مامورکیاتھا۔ اس سے آگے بڑھ کر مخلوط تعلیم کی اجازت بھی ڈاکٹرصاحب دیتے ہیں:انہوںنے لکھا:اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسجدنبوی میں مردبھی ہوتے تھے اورعورتیںبھی ، ممکن ہے کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ الگ ہو،لیکن اس مقام پر جہاںآپ تقریرفرماتے دونوںکے لیے بیک وقت استفادہ کا امکا ن تھا۔اس سے استنباط کیاجاسکتاہے کہ اسکول اورکالج میں اس طرح کا انتظام کیاجاسکے کہ لڑکوںاورلڑکیوںکی نششتیںجداجداہوںتومیرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہوگاخاص طورپر اگرفن کا ماہرصرف ایک عورت ہو یاصرف ایک مردہوتواس سے دونوںکواستفادہ کرناچاہیے…
بیمہ سسٹم کے سلسلہ میں ڈاکٹرحمیداللہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ عہدنبویؐ میں بھی متعارف تھاوہ کہتے ہیںکہ :عہدنبوی میں جوبیمہ کا نظام تھاوہ mutualist انشورینس سے مشابہت رکھتاہے ۔یہ نظام درحقیقت ایک دوسرے سے تعاون اورامدادباہمی کے اصول پر مبنی تھایعنی ایک قبیلہ کے جملہ افراداپنے قبیلہ کی انجمن کے خزانہ کوسالانہ تھوڑی تھوڑی سے رقم دیتے ہیںمثلاہرشخص ایک درہم یادودرہم دیتاہے اور اگرکبھی کوئی حادثہ پیش آتاتوقبیلہ کا یہ سرمایہ ایک شخص کی ضرورت کے کام آتاہے جسے ہرجانہ اداکرناہے۔پھراس mutualist نظام کوتوسیع دے کریہ نظام قائم کیاگیاکہ اگرکسی قبیلہ کے خزانہ میں رقم کافی نہ ہوتواس کے ہم سایہ قبیلے کے خزانہ سے اس شخص کی مددکی جائے اوربالآخرحکومت اپنادست تعاون بڑھائے ۔ (۱۶)ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کا موقف ہے کہ نئے سوالات ، ایشوزو مسائل کوحل کرنے کیے ہمیںاجتہادکرناچاہیے مثال کے طورپر ان سے سوال کیاگیاکہ کیاانسانی اعضاکی پیوندکاری کی جاسکتی ہے یانہیں ؟ اس باے میں انہوںنے جواب دیتے ہوئے فرمایا:اس بارے میں آپ کونہ قرآن میں ذکرملے گانہ حدیث میں اورنہ فقہاء کی کتابوںمیں۔یہ چیز علم طب کی جدیدترین ترقی ہے جوہماری آنکھوںکے سامنے ہوئی ہے۔اس بارے میں ابھی تک اجماع نہیں ہوسکا ہے۔ہمیںنہیں معلوم کہ اورفقہاء کی کیارائے ہے میں اپنی ذاتی رائے عرض کرسکتاہوں،ممکن ہے کہ اس سے اوروںکواتفاق ہو، ممکن ہے کہ وہ اسے ردکردیں۔ایک زندہ شخص کی جان بچانے ایک مردہ کی ذات سے استفادہ کیاجائے تواس میںکوئی امرمانع نہی ‘‘۔( ۱۷)
ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے نظام فکرمیں اجتہادکوبڑی اہمیت حاصل ہے وہ مختلف حوالوںسے نہ صرف اجتہادکے قائل ہیںاوراس عمل کے کیے جانے کے داعی ہیںبلکہ خودبھی کئی مسائل میں انہوںنے اجتہادکیاہے جیساکہ اوپرکی مثالوںسے ظاہرہوا۔موجودہ دورکے کئی پیچیدہ مسائل میں موصوف کے اجتہادی خیالات وتحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے فکراسلامی کوتازگی بخشنے اورفقہ کوایک غیرجامداورزندگی سے بھرپورprocessکے طورپر برتاجاناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کی تحقیقی نگارشات ،ان کا تفقہ اوردقیقہ رسی ائمہ سلف اورعلماء کرام کے احترام کے ساتھ ان سے اختلاف کرنااورماضی کی قدرکرتے ہوئے حال کوبہتربنانے اورمستقبل کی تعمیرنوکا درس دیتی ہیں۔