’’مجھے دیکھ کر رُک کیوں گئے ؟۔۔۔کھلائو کھلائو۔۔۔تم جیسے ناکارہ اور نکمے نوجوانوں کی زندگیاں اِسی طرح نکل جاتی ہیں۔۔۔چیونٹیوں کو چینی کھلاتے کھلاتے ۔۔۔۔‘‘ ابا کی تندمزاجی اور بے عنوان طعنوں کا قہر یوں تو ہر دن مجھ پرپرستاتھا لیکن اس دن میں ان کے بہترین موڑ کا انتظار کرتے کرتے چیونٹیوں کو چینی کھلانے بیٹھ گیا ۔دراصل کالج کے امتحانات سر پر تھے اور اس میں شرکت کےلئے فیس جمع کرنا ضروری تھا۔لہٰذا ارادہ کر لیا تھا کہ صبح سویرے ابا کے دربار میں با ادب حاضر ہو کر اُن سے درخواست کروں گا۔شاید عرضی پر دستخط کر دے لیکن اب توابتدا ء ہی بد مز گی سے ہوچکی تھی۔اب اُن سے بات کرنا محض اپنے ہی پیروں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ویسے تو میں اُن کے کڑوے کسیلے طعنوں سے ذلیل و خوار ہونے کا عادی تھا لیکن اب افسوس صرف اِس بات کا تھا کہ بے چاری چیونٹیوں کو بھی میری وجہ سے صبح صبح گا لیاں کھانی پڑیں۔
ابا جرابیں پہننے لگ گئے اور میں پلٹ کرچیونٹیوںکو دیکھنے لگا ۔سوچنے لگا کہ شاید اللہ میاں بھی اِسی طرح ہم اِنسانوں کا رزق تقسیم کرتے ہونگے اور پھر ہم میں سے ہر ایک شخص اپنے اپنے حصے کا مالک بن جاتا ہے۔ہر مالک اپنے علاوہ ا پنے اہل وعیال کو اپنے حصے کے حساب سے کھلاتا پلاتا ہے لیکن صرف کھلانا پلانا کافی نہیں۔کھلانا پلانا ایسا ہو نا چاہیے کہ گھر کے مالک کے لئے گھر والوں کے دلوں میں محبت و شفقت بھی پیدا ہو جائے۔ میرے ابا کی طرح اگر دس دس روپے پہ ذلیل کرنے والا گھر کا مالک ہو تو کہاں کی محبت اور کہاں کی شفقت؟
’’ آخری بار کہہ رہا ہوں تم سے۔۔۔اس رضیہ کی بچی سے شام تک سوٹ واپس لے آنا ورنہ کل سے تم سڑک پر نظر آئو گے۔‘‘ابا بھائی جان سے مخاطب ہو کر انہیں تنبیہ کرنے لگے تو میں اپنی سوچوں کی قید سے آزاد ہوا ۔ ابا سے بغاوت کرنا ان کے لئے یقینا سڑک پر آنے کا ذریعہ بن سکتا تھا مگر دل کے ہاتھوں مجبور میرے لاچار بھائی ،باپ کو بے وجہ غصہ دلانے کی عادت سے بھی باز نہ آئے اور جیسے تیسے کر کے یہ الفاظ اپنے منھ سے نکالنے کی ہمت آخرجٹا ہی لی۔’’ابا میں ۔۔۔میںاس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہے۔۔۔شادی کرنا چاہتے ہو۔۔۔گھر میں پڑی کھوٹنے سے بندھی بھینس تو سنبھالی نہیں جاتی تم سے ۔۔۔تو شادی کیاخاک کریگا منحوس !۔‘‘جانتا تھا کہ ابا کے اِس جملے سے بھائی جان کے دلپر چوٹ لگی لیکن اِس بات سے میںپہلے ہی انہیں آگاہ کر چکا تھا کہ بھلے ہی وہ کتنے ہی اعلی نصب اور شریف لوگ کیوں نہ ہو لیکن ابا کسی صورت بھی غریب گھر کی لڑکی کو اپنی بہو تسلیم نہ کریں گے ۔میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ بھلا میرے بھائی بندہ نواز کو اس بے روز گاری کے عالم میں عاشقی کیسے سوجھی ؟ شاید یہ انسان کی فطرت ہے کہ گھر میں محبت نہ ملنے پر باہر اُس کی تلاش کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے ۔رضیہ ساتھ والے محلے میں رہنے والی ایک غریب مزدورکی بیٹی تھی، جو میرے بھائی سے دل لگا بیٹی تھی اورکئی برسوں سے اِس محبت کے انجام کے انتظار میںبیٹھی تھی۔
’’واہ رے خدا! کیسی اولاد عطا کی ہے۔۔۔ایک بیٹا میری دوکان پہ بیٹھ کر اپنی معشوقہ کو چیزیںمفت میں دے رہا ہے اور دوسرا سہمی ہوئی لڑکی کی طرح اس اُمید میں بیٹھا ہے کہ کل کو پڑھ لکھ کر کلیکٹر بنے گا۔۔۔درمیاں میں پس رہا ہوں میں۔۔۔ایک تو اِن کا پیٹ پالو اور دوسرا اِن کے خرچے بھی اُٹھائو۔۔۔‘‘ گلہ پھاڑ پھاڑ کر ابا یہ چبھتی باتیں ہمیں سنا گئے اور اِس کے بعد کر دوکان کی جانب چل دئے۔اُن کی باتیں ہم دونوں کے دل کو چیر رہی تھیں مگر اُن کو اونچی آواز میںجواب دینے کی ہمت ہم دونوں میں نہ تھی۔
اباکے لالچ ،بد مزاجی اور کنجوسی کے قصے پورے محلے میں زبان زد عام ہیں۔اماں تو میری آنکھیں کھلنے کے بعد ہی ربِ حقیقی سے جاملیں اور ابا نے دوسری شادی بھی نہیں کی۔ شاید اِس لئے کہ گھر کا خرچہ مزید بڑھ جائے گا۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ کس دل سے بچپن سے ہمارا پیٹ پالتے آرہے تھے۔کیا اللہ میاں اپنے بندوں کو صرف اِ س لئے روزی روٹی عطا کرتا ہے کہ وہ اکیلے سارا چٹ کر جانے کی خواہش رکھے اور اپنے اہل و عیال کوبے شمار طعنوں کے ساتھ کھلائے پلائے۔کبھی کبھی سوچتاتھاکہ اللہ میاں ایسے لوگوں کو رزق عطا کرتا ہی کیوں ہے۔ایسے بندوں کا بھوکامرنا ہی ٹھیک تھااور ان کے اہل و عیال کے لئے تویہی بہتر تھا کہ ذلت کی روٹی کھانے کے بجائے مر ہی جائیں مگرپھر یہ سوالات، میرا ذہن میرے دل سے پوچھتا کہ میں اب تک مرا کیوں نہیں تھا؟ کیا مجھے بھوکا مرنا منظور تھا؟ نہیں ، بالکل نہیں کیوں کہ مجھے اپنی عزت ِ نفس سے زیادہ اپنی زندگی عزیز تھی۔ بہر حال اُن کی عمر کو مدِ نظر رکھ کر یہ اُمید کی ہی نہیں جا سکتی تھی کہ اب ان کا سدھرنا ممکن ہے ۔
فارم جمع کرانے کے لئے رقم کا انتظام کرنےکی خاطر اپنے شوق سے خریدی ہوئی گھڑی فروخت کرنی پڑی۔ایسا نہیں تھا کہ ابا کے پاس مجھے دینے کے لئے پیسے نہ تھے مگر ان سے پیسے مانگنے کے بجائے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا گلہ گھونٹ دینا ہی مجھے بھلا لگتا تھا کیوں کہ ان پیسوں کے معاوضے میں طعنوں کی بوچھار کا سامنا کرنے کی طاقت مجھ میں نہ تھی۔بھائی تو خود پیسوں کے لئے اباکے محتاج تھے اور پھر اُن کی اپنی بھی ضروریات تھیں۔اس لئے ان سے پیسے مانگنا صحیح نہیں لگا۔بار بار یہی خیال ذہن کو کریدتا کہ آخر زندگی کیسے کٹے گی؟میرے قریبی دوست زاہد نے مجھ سے ذکر کیاتھا کہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد دونوں ایک ساتھ سعودی چلے جائے گے لیکن میں بار بار کہتا کہ ابا کبھی بھی راضی نہ ہونگے جس پر وہ ایسی تجویز دیتا جو مجھے گوارہ نہ تھی۔اس کا کہنا تھا کہ ابتدا میں رفوچکر ہوجائو اور بعد میںابا بھی مان جائینگے۔
’’ویسے اب آپ نے کیا سوچا؟۔۔۔میرا مطلب ہے رضیہ کے متعلق؟‘‘امتحان سے فارغ ہو کر ایک شام چائے کی چسکی لیتے ہوئے میں نے بھائی جان سے اس مسئلے کے تعلق سے دریافت کرنے کی کوشش کی تو مسلسل بات کو ٹالنے کے بعد اُنہوںنے ایسا جواب دیا کہ سُن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔’’میں نکاح کر چکا ہوں ۔‘‘
’’کک ک کیا؟۔۔۔آپ مذاق کر رہے ہے نا؟‘‘
’’نہیںنعمان! ۔۔۔بالکل بھی نہیں ۔۔۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔ابا کو پتا چلے گا توقیامت آجائے گی۔‘‘
’’ہاں !۔۔۔ اس قیامت کے لئے تو تیار رہنا پڑے گا۔۔۔‘‘
’’اس کا انجام ؟۔۔۔جانتے ہیںنا آپ؟ ابا آپ کو گھر سے نکال باہر کرینگے۔‘‘
’’کرتے ہیں تو کریں۔۔۔ان کے اس بنائے ہوئے مکان میں رہنا بھی کون چاہتا ہے۔۔۔گھر سے نکال دیا تو میں اپنے حصے کی رقم لے کر نئی زندگی شروع کروں گا۔ ۔۔ کم کھائونگااور اپنے اہل و عیال کی خوشی میں خوش رہو ںگا ۔‘‘ بھائی کی باتیںسُن کر میرا دل افسردگی کے دریا میں غوطہ زن ہو گیااور اس نکتے پر غو رکرنے لگا کہ ان کے اِس منصوبے میں میرا نام تو کہیں تھا ہی نہیں۔ان کی وجہ سے ہی توابا کی کڑوی باتوں کا زہر مجھ پر اثر پذیرنہیں ہوتا تھا۔اب اگر وہ ہی نہیں رہیںگے تو میں کیسے سب کچھ برداشت کروں گا۔بہر حال ایک بات تو میں نے سمجھ لی تھی کہ اس دنیا میں جینے کا پہلا اصول خود غرضی ہے اور اب مجھے بھی اِسی اصول کے تحت فیصلہ لینا تھا۔بھائی نے تو اپنا بندوبست کر لیا تھااورابا ذمہ داریوں سے آزاد ہونا چاہتے تھے ۔ لہذا میں نے بھی زاہد کی تجویز کو ہی حالات کے زیرِ اثر قبول کر لیا کیوں کہ یہاں رہ کر مجھے کون سی سرکاری نوکری ملنے والی تھی اورفرض کرو کہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری مل بھی جاتی تو کیاابا مجھے ایسی نوکری کے ساتھ سکون کی سانس لینے دیتے؟ نہیں ۔بالکل بھی نہیں۔
تقریباََ دو دن رہ گئے تھے میرے رفوچکرہونے میں اور میں آخری بار صحن میں چیونٹیوںکو چینی کھلانے کے بعد اطمینان سے کافی دیر تک انہیں دیکھتارہا ۔وہ اپنے اپنے حصے کا نوالہ اُٹھا کر اپنے بلوں میں لے جا رہی تھیں۔ان کی محنت مزدوری اور ایک ساتھ مل بانٹ کر کام کرنے کے طریقے سے متاثر ہو کر میں بے ساختہ بول پڑا’’اے کاش! میں ایک چیونٹی ہی ہوتا۔۔۔اپنے کنبے کے ساتھ مل بانٹ کر محنت مزدوری کرتا اور محبت سے رہتا۔‘‘ایک سیکنڈ بعد ہی سیڑھی سے برتنوں کے گرنے کی آواز آئی اور میں دوڑکر گھر کے اندر چلا گیا تو دیکھا کہ ابا سیڑھیوں سے نیچے گر گئے تھے۔وہ شدید زخمی تھے اور میں اُٹھا کر اُنہیں اسپتال لے گیا۔ڈاکٹروں نے کہا کہ انکے کئی جوڑ ٹوٹ گئے ہیں۔
اس حادثے نے ابا کو ہمیشہ کے لئے اپاہج بنا دیا اور اب تو وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بھی نہ رہے تھے۔ دوکان کو بیچ کر ابا کا علاج ہم دونوں بھائی بالکل اُسی طرح کرتے رہے جس طرح اپنی خواہشات کو طاق پر رکھ کر ہم اپنی ضرورتیں پوری کیا کرتے تھے۔اب ابا کو اِس حال میں چھوڑ کرچلے جانےکا سوال ہی میرے لئے پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔بھائی نے بھابھی کو گھر لا کر گھر کی ذمہ داریاں اُس کے سپرد کر دیں ۔ہم دونوں بھایئوں نے طے کر لیا کہ جیسی تیسی نوکری کر کے گھر کے اخراجات کا بندوبست کریں گے۔ہم دونوں بھائی کبھی بھی اعلیٰ مراتب کے بھوکے نہ تھے ،ہم بھوکے تھے تو صرف محبت اور سکون کے ۔کم کھا ئینگے گے لیکن خوش رئینگے ۔چناچہ میری چیونٹی بن کر محنت مزدوری کرنے اور محبت سے بھرے گھر کی خواہش بھی اِسی دوران پوری ہو گئی۔
دوکان کے فروخت ہونے کے بعد زندگی بد سے بد تر ہو چکی تھی۔ابا کی اہمیت کو ہم دونوں بھائی جان گئے تھے ۔پہلے ذلت کے ساتھ روٹی کھانے کو مل جاتی تھی تو پیٹ بھرا رہنے کی وجہ سے اس ذلالت کو فراموش کرنے کی سکت بھی آہی جاتی تھی ۔شاید اس حادثے کے ذریعے اللہ میاںمیری اس بات کا جواب دینا چاہتے تھے کہ کیوں وہ میرے ابا جیسے لوگوں کے حصے میں بھی رزق لکھ دیتے ہے۔
چند سالوںمیں ہی گھر کے حالات درست ہو گئے۔اب ابابھی کہیں نہ کہیں اپنے عادت و اطوار کو لے کر شرمندہ ہے اور آخر آج دل کی بات ہم دو بھائیوں کے سامنے زباں پرلاکر ہی رکھی اور ہم دونوں بھی بالکل خاموش ہو کر ان کی باتوں کو سنتے گئے۔’’جانتا ہوں کہ میں نے تم نےلوگوں کو ذہنی طور پر بہت اذیتیں دی ہیں۔۔۔میری ہمیشہ سے خواہش رہی کہ تم دونوں جلد از جلد کمائی شروع کر دوکیوں کہ میں اپنی زندگی کی درد ناک حقیقتوں کو دیکھ چکا تھا اورسہہ چکا تھا لہٰذا مجھے اب یہ قبول نہ تھا کہ تم لوگوں کو بھی اس طرحکے تجربے سے گزرنا پڑے۔‘‘آج ان کے لب و لہجے میں کسی بھی قسم کا رعب نہ تھا ۔اُن کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ میں اگر کچھ تھا تو فقط جذبات کا سیلاب اور گذرے المیوںکا غم۔
چند ثانیئےچپ رہنے کے بعد اُنہو ں نے گہری سانس لی اور مجھ سے مخاطب ہو کر بول پڑے ’’نعمان بیٹا !تمہاری ماں مجھے بہت عزیز تھی اور اسی لئے میں نے دوسری شادی کا کبھی نہ سوچا ۔میری کم کمائی سے اسے کبھی کوئی شکایت نہ تھی بلکہ وہ سلائی وغیرہ کر کے ہمیشہ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ میرے ساتھ بانٹتی رہی لیکن جب وہ تمہیں جنم دینے کے دوران بیمارپڑگئی تو میرے پاس اُس کا علاج کروانے کےلئے پیسے بھی نہ تھے اور کسمپرسی میں وہ اس دنیا سے چلی گئی۔شاید اُس کے بعد میں نے زندگی کے ہر رشتے اور ہرجذبے سے زیادہ اہمیت پیسوں کو ہی دی۔اب سوچتا ہوں کہ وہ تو جا چکی تھی ۔۔۔پھرپتا نہیں میں کس لئے زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنا چاہتا تھا۔۔۔‘‘اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔ان کی باتیں سن کر بڑا تعجب ہوا۔کھل کر بات کرنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ تمام معاملے آئینے کی طرح صاف ہو جاتے ہے ورنہ دلوں میں چھپی کدورتیں رفتہ رفتہ جمع ہو کر نفرتوں کا پہاڑ بن جاتی ہیں۔ابا کی زندگی کا یہ حصہ ہم سے پوشیدہ تھا اور اسے جاننے کے بعد اب ہم بھی ابا کے ہم درد بن گئے۔میں جان گیاکہ ابا بھی ایک چیونٹی ہی تھے لیکن زندگی کی تلخیوں نے انہیں اپنے اندر کی چیونٹی کو دفنانے پر مجبور کر دیاتھا۔
رابطہ :طالبہ شعبہ اُردو، کشمیر یونیورسٹی سرینگر