چینی نقوش پا بر صغیر ہند و پاک میں اور ان دو حریف ممالک کے مابین حل طلب مسلٔہ کشمیر کے ضمن میں دن بہ دن ٹھوس سیاسی اور سفارتی صورت میں منظر عام پہ نظر آ رہے ہیں۔چین کی سرحدیں جہاں بھارت سے ملتی ہیں، وہیںپاکستان سے بھی ملتی ہیںاور دونوں ممالک سے مشترکہ سرحدوں کا ریاست جموں و کشمیر سے گذرہوتا ہے ۔یہ اس ریاست کا محل وقوع ہے جو 1947ء سے پہلے غیر منقسم تھی۔1947ء کے بعد جنگ بندی لائن اور 1972ء کے بعد خط متارکہ کے آر پار ریاست جموں و کشمیر کا دو تہائی حصہ بھارتی انتظامیہ کشمیر اور ایک تہائی حصہ پاکستانی انتظامیہ کشمیر کہلاتا ہے۔چین اور پاکستان کے مابین ایک سمجھوتے کے تحت ریاست جموں و کشمیرکی اراضی کا کچھ حصہ چین کو منتقل کیا گیا ہے بشرطیکہ جب بھی ریاست جموں و کشمیرکا حتمی تصفیہ ہو جائے تو اِس تصفیہ میں یہ اراضی بھی شامل رہے گی ثانیاََ وہ علاقہ جو اکسائی چن کہلاتا ہے کے کچھ حصے پہ 1962ء کی ہند چین جنگ کے بعد چین قابض ہے۔ حالیہ ایام میں گر چہ چینی سفارتی نقش پا مسلہ کشمیر پہ حاوی ہو رہے ہیں البتہ چین کا آج تک ایسا کوئی رسمی دعوہ نہیں کہ مسلے کا کسی بھی مقام پہ فریق رہا ہے یا فریق ہے۔ جہاں یہ صیح ہے وہاں یہ بھی صیح ہے کہ حالیہ ایام میں چین نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اُس کے مفادات مسلے کشمیر کے حل سے بندھے ہوئے ہیں۔چین کا ایسا ماننا کب سے عیاں ہوا یا اُس کے محرکات کیا ہیں اُسے جانچنے کیلئے ہمیں علاقائی و عالمی سطح پہ ماضی قریب و حال کے واقعات کو جانچنا ہو گا۔
چین کے بڑھتے ہوئے قدم اور دنیا کے کثیر ترین آبادی والے ملک کے پھیلتے ہوئے سائے برصغیر ہند و پاک یا ایشائی جنوبی تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے عالم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ چین کی سیاسی و سفارتی سوچ میں واضح تبدیلی اُس اقتصادی ترقی کا نتیجہ ہے جو پچھلی کچھ دہائیوں سے ساری دنیا کو حیرت زدہ کئے ہوئے ہے ۔اِس اقتصادی پھیلاؤ کے پیش منظر میں چین کو نئے تجارتی راستوں کی تلاش ہے جو اُسکی صنعتی تولید کو جلد سے جلد ،نزدیک ترین راستوں سے عالمی اقتصادی منڈی میںلے سکیں ۔ بڑھتی ہوئی صنعت کی بر قراری اور مزید پھیلاؤ کیلئے چین کو زیادہ سے زیادہ توانائی کی اشد ضرورت ہے۔صنعتی تولید کے ایکسپورٹ اور توانائی کے امپورٹ کیلئے چین کا انحصار دوسرے ترقی پذیر ملکوں کی مانند سمندری راستوں پہ ہے لیکن چین کی مشکل یہ ہے کہ اِس عظیم و قدیم ملک کا ساحل محدود ہے۔یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے کہ چین کے ساحل کی محدودیت اِس ملک کی ایک واضح کمزوری ہے گرچہ زمینی رقبے کے لحاظ سے چین ایک وسیع ملک ہے۔جنوبی چینی سمندر کی ساحل چین کو آگے کے بحری راستوں سے بحر منجمند کی وسعتوں میں لے جاتی ہے اور اِسی ساحل پہ چینی ایکسپورٹ اور امپورٹ کا دارمدار رہا ہے ۔
جنوبی چینی سمندر جسے لغت فرہنگی میں ساوتھ چینا سی(South China Sea) کہا جاتا ہے کو چین بدون شرکت غیرے اپنا سمندر مانتا ہے لیکن چین کا یہ دعوہ بحر منجمند کے ساحل پر کئی دوسرے ممالک جیسے کہ آسٹریلیا،فلپائن وغیرہ کیلئے قابل قبول نہیں ثانیاََ بحر منجمند میں امریکہ کے بحری بیڑے کی موجودگی چین کیلئے پریشانی کا سبب ہے اور اِس بحری بیڑے کی موجودگی چین اپنے تجارتی مفادات کیلئے خطرہ مانتا ہے ثانیاََ عالمی تجارتی منڈیوں میں اپنا صنعتی ایکسپورٹ پہنچانے اور توانائی کے امپورٹ کیلئے جنوبی چینی سمندر کا راستہ کافی طویل ہے۔اِس طویل راستے کی مسافت کم سے کم کرنے کیلئے چین کو کوہ ہمالیائی سلسلہ قراقرم سے ایک متبادل راستہ تلاش کرنے کی سوجھی ۔ قراقرم کی بلندیوں سے راستہ کھوجنے کا آغاز پاک چین دوستی کی جڑیں گہری ہونے کے بعد ہوا ۔پاکستان اور چین کی دوستی میں 1962ء میں بھارت چین فوجی تصادم کے بعد دونوں ملکوں کے مابین سرحدوں کے تعین پہ ایک معاہدے پہ دستخط ہونے کے بعد گرمجوشی کا مظاہرہ ہونے لگا۔قراقرم کی بلندیوں کے نشیب میں جموں و ریاست سے منسلک گلگت بلتستان کی لہلاتی ہوئی وادیاں ہیں جو آگے پاکستان کے میدانی علاقوں سے ہوتی ہوئی ساحل سمندر تک پہنچتی ہیں ۔ چینی نقش پا کوہ قراقرم کی بلندیوں سے بلوچستان میں بندر گاہ گوادر کے سمندری ساحل تک دیکھے جا سکتے ہیں اور اِسی نے ایک متبادل راستے کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔
چین کیلئے یہ متبادل راستہ حیاتی بنتا جا رہا ہے۔ جہاں جنوبی چینی سمندرسے چین کے اُن سفینوں کو جو امپورٹ و ایکسپورٹ کی اجناس لئے آتے جاتے تھے کم و بیش 16,000میل کا طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے وہی متبادل راستے کی مسافت کم و بیش 5,000میل کی ہو گی۔قراقرم سے گوادر تک کا راستہ چین کے شمال مغرب میں کاشغر سے ملتا ہے جو چینی ترکستان کا مرکزی شہر ہے۔گوادر کی بندرگاہ بحیرہ عرب کے ساحل پہ واقع ہوئی ہے اور اِس بندرگاہ کو چین نے بنایا ہے۔یہ بندرگاہ 1958ء میں پاکستان نے خلیجی ملک عمان سے خریدی ہے البتہ یہ ایک جدید بندرگاہ کے بجائے ساحل سمندر پہ مچھیروں کی ایک معمولی سی بستی تھی جسے چین نے اپنے تجارتی اغراض و مقاصد کیلئے ایک نیا رنگ و روپ دیا۔گوادر کی یہ بندرگاہ اُن خلیجی ساحلوں سے قریب ہے جہاں سے چین اپنی توانائی کو امپورٹ کرتا ہے۔ اپنی تجارتی ایکسپورٹ اور توانائی کے امپورٹ کیلئے جہاں راستے کی کوتاہی چین کیلئے منافع بخش رہے گی وہی یہ راستہ چین کیلئے محفوظ رہے گا۔چین کے بحری بیڑے پاکستان کے بحری بیڑے کے ساتھ اِس سمندری راستے کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے کی سعی میں مشغول ہیں اور بحر ہند کے اِس قدر نزدیک چینی بحری بیڑے کی موجودگی بھارت کیلئے تشویش کا سبب بن رہی ہے۔ قراقرم کی بلندیوں سے پاکستان کے میدانی علاقوں تک کی حفاظت کیلئے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی افواج مامور کی گئی ہیں۔اِن حفاظتی اقدامات کے باوجود چین کے خدشات باقی ہیں اور اِن خدشات کی وجہ بھارتی تحفظات ہیں۔
بھارت کے تحفظات بھارتی سیاسی و سفارتی حلقوں کے اِس دعوے سے بندھے ہیں کہ گلگت بلتستان اُس کے وہ علاقے ہیں جن پہ پاکستان نے غیر قانونی قبضہ جمایا ہوا ہے۔ بھارت کا یہ دعوہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط شدہ الحاق سے وابستہ ہے۔بھارت کے اِس دعوے کی تائید یا اُس کی تردید سے چین اپنا دامن بچاتے ہوئے بھارت کو اپنے اقتصادی منصوبوں میں شمولیت کی دعوت دے رہا ہے۔یہ صیح ہے پاک چین اقتصادی راہداری جسے سی پیک کا عنواں دیا گیا ہے چین کے عالمی منصوبوں کی ایک شاخ ہے گر چہ کہا جا سکتا ہے کہ سی پیک متذکرہ منصوبوں کی اہم ترین شاخ ہے البتہ یہ یہی تک محدود نہیں بلکہ منجملہ عالمی منصوبوں کو اوبار (OBOR) کا عنواں دیا گیا ہے ۔ اوبار کا مطلب ہے ون بیلٹ ون روڑ (واحد بیلٹ،واحد راستہ) اور اُس کا مدعا کم و بیش 65ملکوں کو ایک ہی بیلٹ یعنی کمر بند میں باندھناہے۔ون بیلٹ ون روڈکا معنی و مفہوم اِن ممالک کو روڑ اور ریل سے ملانا ہے ثانیاََ اِن ممالک کے مابین توانائی کے حمل و نقل کو پائپ لائن کے ذریعے آساں بنانا ہے ثالثاََ مواصلات کو آساں سے آساں تر بنانے کیلئے ایک عریض فائبر آپٹک لائن کا بچھانا چینی منصوبوں میں شامل ہے چناچہ ریل،روڑ ،انرجی پائپ لائن و فائبر آپٹک لائن منصوبے کے مختلف جز ہیں ۔اِن کم و بیش 65ممالک میں رفت و آمد ،انرجی سپلائی اور مواصلات کو آساں بنانا وسیع سرمایہ کاری کا طالب ہے اور اِس کو ممکن بنانے کیلئے چین کے پاس 4 ٹریلین ڈالر کا زر مبادلہ موجود ہے ( قارئین خیال رکھیں کہ ٹریلین 1000بلین کا بلین 1000ملین کا اور ملین دس لاکھ کا بنتا ہے) ۔یہ قارونی سرمایہ چین کی وسیع تولیدی صلاحیتوں کا صلحہ ہے ۔ کم و بیش 65ممالک میں جو اوبار کے احاطے میں آتے ہیںسنٹرل ایشائی ممالک اور روس شامل ہیں جسے جغرافیائی اعتبار سے یورشین بیلٹ کہا جاتا ہے چونکہ جہاں روس ایک یورپی ملک ہے وہی سنٹرل ایشائی ممالک بر اعظم ایشیا کا حصہ ہیں ۔یورپ اور ایشیا مل کے لغت فرہنگی میں یورشین( Eurasian ) کی اصلاح بن جاتی ہے۔آج گئے دو دَہائیوں پہلے سنٹرل ایشیائی ممالک روس میں شامل تھے اور تب یہ مشترکہ خطہ سوؤیت یونین کہلاتا تھا۔یورشین بیلٹ کے علاوہ بیلٹ اور روڑ منصوبے میں ایران، افغانستان، پاکستان اور کئی افریقائی و یورپین ملک شامل ہے ۔ اِس عالمی سرمایہ کاری کا مقصد چین کی تولید کیلئے نئے بازاروں کی تلاش ہے ۔اوبار کے احاطے میں تقریباََ وہ سب ہی ممالک آتے ہیں جو زمانہ قدیم کی شاہراہ ابریشم (سلک روٹ۔۔ Silk Route )پہ آپسی تجارت میں مصروف رہتے تھے چناچہ اوبار کو سلک روٹ کی جدید شکل بھی مانا جاتا ہے۔
چین کی خواہش ہے کہ بھارت بھی اِس منصوبے میں شامل ہو جائے صرف نظر از اینکہ چین اور بھارت میں سرحدی تنازعات کافی عرصے سے چلے آرئے ہیں لیکن بھارت ایک وسیع تجارتی منڈی ہے جسے چین کھونا نہیں چاہتا بلکہ چین کیادنیا کا کوئی بھی بڑا صنعتی ملک اپنی تولیدکی فروخت کیلئے بھارت جیسا بازار کھونا نہیں چاہے گا۔ بھارت البتہ چینی منصوبوں کے نرغے میں نہیں آنا چاہتا چونکہ بھارت کا ماننا ہے کہ قراقرم کی شاہراہ اُسکی سالمیت کیلئے ایک چلینج ہے بہ سبب اینکہ بھارت گلگت بلتستان کو جہاں سے یہ شاہراہ گذرتی ہے الحاق کشمیر کے توصل سے اپنا حصہ مانتا ہے ۔چین نے حالیہ مہینوں میں بھارت کو یہ اعتبار دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ سالمیت کے پیچیدہ سوالات سے صرفنظر ایک اقتصادی ناطے کے در پے ہے لیکن بھارت اپنے دعوے پہ قائم ہے ۔چین اِسی مہینے مئی کے وسط میں سلک روٹ کے ضمن میں ایک چوٹی کی کانفرنس کا اہتمام بیجنگ میں کرنا چاہتا ہے جہاں بھارت سمیت متعدد ممالک کے سربراہاں کو مدعو کیا گیاہے ۔بھارتی سر براہاں مملکت اِس کانفرنس میں شامل نہیں ہونا چاہتے اور بھارتی شمولیت اگر رہے بھی تو یہ کس سطح کی ہو گی اِس کا تعین ابھی نہیں ہوا ہے۔
بھارت حالیہ برسوں میںچین و پاکستان کے بڑھتے ہوئے اشتراک کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔بھارتی خدشات میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ صرف و صرف ایک اقتصادی گٹھ جوڑ نہیں بلکہ یہ بھارت کیلئے ایک دفاعی چلینج بن سکتا ہے۔اروناچل پردیش پہ چین کا دعوہ بدستور قائم ہے اور وہ اِس پردیش کو چین تبت کا حصہ مانتا ہے ۔اِس ضمن میں مہینہ بھر پہلے دلائی لامہ کے دورہ اروناچل پردیش کے دوران چینی اعتراضات سخت لہجہ لئے سامنے آئے۔اِس کا علاوہ لداخ میں گاہ بگاہ در اندازی بھی خبروں کی سرخی بنتی ہے ۔چین کے اقدامات کے بارے میںبھارتی جنرل اور مشرقی کمان کے سابقہ فوجی سربراہ جنرل پرنائیک نے کچھ سال پہلے کہا تھا کہ نکلس (حلقہ بند زیور) میں جیسے موتی پروئے ہوتے ہیں چینی فوج وہی انداز اپنائے ہوئے ہے۔جنرل موصوف کے بیاں کا مدعا و مفہوم یہی تھا کہ بالائی علاقوں میں چینی افواج حلقہ بندی میں مشغول ہیں۔ جنرل پر نائیک کے کہنے کے مطابق بھارت کے فوجی تجزیے میں یہ سوچ شامل ہے کہ چین وپاکستان کا مشترکہ فوجی تہاجم ممکنات میں سے ہے جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چینی میڈیا میں حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ چین پاکستان میں اپنے سرمایے کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔یہ سرمایہ اب ابتدائی 46بلین ڈالر سے بڑھ کے قریب قریب 60بلین ڈالر پہ محیط ہوتا جا رہا ہے ۔اس سرمایے کو تحفظ بخشنے کیلئے چین یہ چاہتا ہے کہ ہند و پاک مسلہ کشمیر کے تصفیے کیلئے ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں ۔چینی سیاسی و سفارتی اقدامات کامدعا و مقصد بھارت پہ دباؤ بڑھانا ہے۔بھارت کے خدشات کو دور کرنے کیلئے دہلی میں تعینات چینی سفیر نے حالیہ دنوں میں ایک بھارتی تھنک ٹینک سے کانفرنس کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری کا عنواں بدلنے کی پیشکش بھی کی تاکہ بھارت اِس عنواں میں شامل رہے لیکن بھارتی سفارتی حلقوں سے کوئی مناسب جواب نہ ملنے کے سبب بعد میں یہ پیشکش بھارت میں چینی سفارت خانے کی وئب سائٹ سے ہٹا لی گئی۔
چین کے مسلہ کشمیر کے تصفیے کے ضمن میں بڑھتے ہوئے اقدامات بھارتی خدشات کو مستقبل قریب یا دراز مدت میں پگھلانے میں کامیاب ہونگے یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا اور یہ اِس بات پہ منحصر رہے گا کہ اوبار اور سی پیک کی اقتصادی وسعت کیا رنگ و روپ اختیار کرتی ہے ؟ بھارت اِس خطے میں رہتے ہوئے کب تک اِس اقتصادی دھوڑ سے دور رہ سکتا ہے جبکہ اِس دھوڑ میں نہ صرف دور دیشوں کے لوگ شامل ہو رہے ہیں بلکہ بھارت کی ہمسائیگی میں سارک ممالک بھی اِس میں شامل ہونے جا رہے ہیں جس سے اوبار و سی پیک بھارت کے لئے ایک ایسا سوالیہ بنتا جارہا ہے جس کا جواب بھارت کو مسلہ کشمیر کے دائمی حل کے سمیت دیر یا سویر ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔
Feedback on:[email protected]