نیلوفرتھکن اور انتشار کے بعد نیندکی وادی میں چلی گئی تھی ۔نصف شب کے وقت ’’ ہُول ہُول‘‘ کی خوفناک ا ٓواز سن کر نیند سے بیدار ہوگئی۔ گاوں کی ساری عورتیںایک ساتھ’’ ہُول ہُول ‘ ‘ چلا رہی تھیں ۔ شاید چنار سے چیل پھر اُتر آئی تھی اور آنگن میں ننھے ننھے مرغی کے چوزوں پر جھپٹ پڑی تھی ۔۔۔ نیلوفر کی روح کانپ اٹھی ۔ ۔
’’ ہُول ہُول‘‘ کی آوازیں تیز ہوتی ہوئیں نیلوفرکی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔وہ خوف زدہ ہوکر ایک دم بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ ۔ پڑوس میں عورتوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں، ساتھ میںمردوں کی دبی دبی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا ۔ وہ عامر اور اسلم کے لئے پریشان ہورہی تھی۔ اس نے ماچس کی تیلی جلائی۔ غور سے اپنے دونوں بیٹوں کو دیکھنے لگی جو گہری نیند میں سوئے تھے ۔ اُس کی جان میں جان آگئی ۔۔۔
اس نے ا ٓہستہ سے کھڑکی کا آدھا پٹ کھول کر باہر جھانکا ۔۔۔ باہر سڑک پر کافی لوگ جمع تھے اور شورغل میں کسی کی کان پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی تھی ۔ وہ جب تک دوڑے دوڑتے شور والی جگہ پر پہنچ گئی تب تک چیل چوزے کو لیکر اُڑ چکی تھی اور عورتیں چیختی چلاتی اور شور مچاتی ادھر اُدھر دوڑ رہی تھیں۔ بوڑھی عورتیں ایک طرف بین کررہی تھیں۔ جبکہ مرد غصے میں ہونٹ کاٹ رہے تھے یا عورتوں کو ڈانٹ رہے تھے۔عبدالرحمن کا جسم جیسے شل ہوچکا تھا۔ اس کی بیوی سینہ کوبی کررہی تھی۔ نیلوفر اور دوسری عورتیں آنسو بہاتے بہاتے اس کو دلاسہ دے رہی تھیں۔وہ غمگین ہوکرواپس صحن میں آگئی اور چنارکی طرف دیکھنے لگی۔ ہر سُو صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور اگر سنائی دے رہی تھیںتو صرف چوزے کی دلخراش چیخیں ۔
تب وہ بہت چھوٹی تھی جب ماں نے اس کو چوزوں کی رکھوالی کا کام دیا تھا ۔ ساتھ ہی چاک و چوبند رہنے کے لئے اکثر اُسے جھڑکتی بھی رہتی تھی ۔لیکن پھر بھی چنار سے دو چیلیں اُتر آتیں اور اس کی آنکھوں کے سامنے دوچوزے اٹھا کر لے جاتیں ۔ایک دن ماں نے اسے بہت مارا ۔ دو چوزوں کے بدلے شاید اس کی جان ہی لے لیتی ، وہ تو بابا بیچ میں آگئے اور اس کی جان چھُوٹی ۔۔۔ لیکن تب سے نیلوفر کو چوزوں کی زیادہ فکر رہنے لگی اور ساتھ ساتھ وہ چیلوں کی حرکات و سکنات پر بھی آنکھیں جمائے رکھتی تھی ۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں ہمیشہ گردش میں رہنے لگی تھیں۔ چنار کی اوپری ٹہنی سے لیکر چیل اور چوزوں تک اس کی نظریں اوپر نیچے ہوتی رہتی تھیں۔ وہ دن بھر آنگن میں مرغیوں اور ان کے چوزوں کے پیچھے دوڑتی رہتی تھی۔ کبھی چوزوں کو پکڑ کر ہاتھ میں اٹھاتی ، تو کبھی انکو سر پر رکھ کر ناچتی رہتی۔ مرغیاں شور مچاتی اس پر حملہ کرتیں۔ ایک بار مرغی نے چونچ ماردی۔ آنکھ مشکل سے بچی لیکن چہرہ لہولہان ہوگیاتھا ۔۔۔
’’ہُول ہُول‘‘ کی آوازیں نیلوفر کو اور چاک و چوبند بنا دیتی تھیں ۔ اس کی آنکھ کی پتلیاں اور تیزی سے گردش کرنے لگتی تھیں ۔چیل چنار سے اُترنے کی سوچ ہی رہی ہوتی کہ نیلوفر چوزوں کے اوپر سایہ بن کر کھڑی ہوجاتی ۔ لیکن پھر بھی تھوڑی سی بھول چوک کا فائدہ چیل کو مل ہی جاتا تھا۔ وہ اتر آتی تھی اور جھپٹا مار کر ایک چوزا اُٹھا کر لے جاتی۔ تب وہ ڈنڈالے کر چیل کے پیچھے دوڑتی ۔ ایک دو بار وہ چیل کے پیچھے دوڑتی دوڑتی چنار تک بھی پہنچ گئی ۔ چیل چنار کی موٹی شاخ کے اوپر بیٹھی مزے سے چوزے کو نوچ رہی تھی اور نیلوفر غصے میں چنار پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگتی ۔ لیکن چنار کا تنا اتنا موٹا تھاکہ وہ اس کے بازئوں کے حلقے میںبھی نہیںآپاتا تھا۔ ۔
۔اس نے کئی بار اپنے بابا سے بھی کہہ دیا تھا۔
’’ بابا اس چنار کوجڑ سے ہی کاٹ ڈالو ۔ یہ چیل یہاں سے دفع ہوجائے ۔ یہ ہمارے چوزوں کی دشمن ہے ۔‘‘
بابا حسرت بھری آنکھوں سے چنار کی طرف دیکھتا تھا اور چپ ہوجاتا تھا ۔ نیلو فر حیران و پریشان اس کا منہ تکتی رہتی تھی۔ وہ اکثرسوچتی تھی ـ بابا تو روز کاندھے پر کلہاڑا لے کر پیڑ کاٹنے جاتا ہے وہ یہ چنار کیوں نہیں کاٹتا ۔ شاید بابا اتنے موٹے چنار کو کاٹ نہیں پائے گا بس میں بڑی ہوجائوں تو اسے خود کاٹ دوں گی
ایک عرصہ سے سارا شہر چیلوں کا اسیر تھا۔یہ چیل اب عام چیلوں جیسی نہیں لگ رہی تھیں۔ پتا نہیں کس نے اور کن سازشوں کے تحت ان کو آدم خور بنا دیا گیا تھا۔ شہر کے مکین ان کے سامنے خود کو بے بس اور لاچار سمجھ رہے تھے۔ پورے شہر پر خوف اور مایوسی کاسایہ چھایا ہواتھا۔ چیلیں چنار سے اُترآتی تھیں اور چوزوں پر جھپٹا مار کرچنار کی گھنی شاخوں میںچھپ جاتی تھیں اور نوکیلے پنجوں سے چیر پھاڑ شروع کردیتی تھیں۔ شہرمیں بڑے پیمانے پرہنگامے ہورہے تھے ۔ ۔ چیلوںکی تعداد میں اضافہ ہورہا تھااور ان کی من مانیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں ۔ پھر اچانک کہیں سے گدھ بھی نمودار ہوگئے ۔ وہ آنکھوں سے اندھے لگ رہے تھے ، جیسے آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ ان کے سامنے جو بھی آتا تھا اسے نوچ ڈالتے تھے۔ ۔۔ ان گدھوں کے ا ٓتے ہی چیلوں کا حوصلہ اور بڑھ گیا ۔ یہ گدھ چیلوں سے بھی زیادہ آدم خور تھے، جب کبھی جھپٹا مار لیتے تو دو چار چوزوں پر ہاتھ صاف کر لیتے تھے ۔
یہ دسمبر کی دھند میں لپٹی ایک اُداس صبح تھی ۔ باہرکچھ بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ کئی دنوں سے سورج بھی کہیں منہ چھپائے بیٹھا تھا۔ سردی اتنی شدید تھی کہ دانت پر دانت نہیں جمتا تھا ۔ ۔۔ ماحول پر خوفناک سناٹا طاری تھا ۔ کہیں سے ہلکی سی آواز بھی آجاتی توبہت ڈر لگتا تھا ۔۔۔ اچانک ہوا میں کچھ عجیب سا شور برپا ہوا جو آہستہ آہستہ نزدیک آکر زور دار کائیں کائیں میں تبدیل ہو رہاتھا ۔ نیلوفر کا شک یقین میں بدل گیا۔ کہیں سے چیلوں اور گِدھوں کی پوری پلٹن آگئی تھی جو اس کے آنگن میں منڈلا رہی تھی۔
عامر اور اسلم چند منٹ پہلے ہی گھر سے باہر نکلے تھے۔ نیلوفر نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ تواسے باہر کا منظر بڑاڈرائونا اور خوفناک لگا ۔ وہ دیوانوں کی طرح آنگن کی طرف دوڑ پڑی اور دونوں بیٹوں کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔آس پاس میں لاتعداد چیل اور گدھ منڈلاتے نظر آرہے تھے ۔ وہ اب اکھٹے ایک ساتھ بستی کے چوزوں کا شکار کھیلنے نکلتے تھے۔ ان کی ہیبتناک آوازوںسے پوراماحول خوفناک لگ رہا تھا ۔۔۔ چیل اور گدھ تیزی کے ساتھ چنار سے زمین پر اُتر رہے تھے۔ ایک گدھ ان کی طرف بڑھنے لگا۔ نیلوفر نے دونوں بیٹوں کو اپنے بازئوں میں جکڑکررکھا۔ گدھ جب نزدیک پہنچ گیا تو اس نے ایک ہاتھ سے سامنے پڑا ڈنڈا اٹھایا۔ گدھ چھلانگ مار کر نیلوفر کے سامنے پہنچا۔ اس نے ڈنڈاگھمایا گِدھ کرکے دور بھاگا۔ غصے میں بپھرے گدھوں اور چیلوں کا پورا جھنڈنیلوفر کی طرف جھپٹ پڑا۔ اس کی پتلیاں حرکت میں آگئیں ۔ نگاہیں چیلوں کی جھنڈ پر گاڑ دیں اور آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف کھسکتی رہی۔ اچانک ایک کراہت آمیز گدھ نے اس کے سینے پر جھپٹا مارا۔ جہاں اس کے کلیجے کے ساتھ عامر اور اسلم چمٹے تھے۔ دوسری طرف سے ساری چیلیں ٹوٹ پڑیں اور اس کے چوزوں پر پنجہ مارا ۔ دونوں بھاری بھرکم گدھوں کے پنجوں میں تڑپنے لگے ۔نیلوفر اپنے بچوں کو تڑپتا دیکھ کربدحواس سی ہوگئی اوران کوچھڑانے کے لئے دوڑپڑی۔ ایک چیل نے پنجہ مار کر اسے نیچے گرادیا۔پھر گدھوں اور چیلوں نے اسے نوچ کر رکھ دیا ۔وہ زخموں سے چور چور ہوکربے ہوش ہوگئی۔۔۔
دور سے کہیں’’ ہُول ہُول‘‘ کی آواز نیلوفر کی سماعت سے ٹکرائی ، وہ دوڑتے ہوئے آنگن میں آئی اور تناور چنار کی طرف دیکھنے لگی۔ اوپر کی شاخ پر چیل چوزے کی تکا بوٹی کرنے میں مست تھی۔ اسے لگا جیسے چیل چوزے کو پنجے میں رکھ کرسامنے ہی بیٹھی کہہ رہی ہے۔ دیکھ تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔ ۔ وہ دوڑ کے اندر گئی ۔ بابا کی کلہاڑی اٹھا کر لائی اور غصے میں چنار کے تنے پر مارنے لگی ۔ اس کے ننھے ننھے ہاتھوں میں بہت درد ہورہا تھا ۔ اس کا سارا جسم پسینے سے تر ہورہاتھا۔
وہ چنار کو کاٹ تو نہیں سکی البتہ اسے اس بات پر مسرت ہورہی تھی کہ وہ چنار کے تنے پر اپنے حصے کی چند خراشیں لگا نے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ ٭٭
رابطہ: اسلام آباد (کشمیر)؛موبائل نمبر:-9419734234