اقوام متحدہ// اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ملک کی فوج کی جانب سے مبینہ طور پر کیے جانے والے مظالم کی تفتیش کرے گی۔یورپی یونین کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد کو اقوام متحدہ میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تھا جس کے مطابق ’حقائق تلاش کرنے کے لیے ایک آزاد مشن بھیجا جائے جس کے تحت ظلم ڈھانے والوں کا بھرپور احتساب ہوگا اور ان مظالم کا شکار بننے والوں کے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے گا۔‘میانمار حکومت کے ایک اہلکار کے مطابق انھیں یہ فیصلہ قطعی ’نامنظور‘ ہے کیونکہ میانمار کی حکومت خود اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ہندستان اور چین نے اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی حمایت نہیں کی ہے۔ دونوں ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اس تفتیش سے خود کو الگ کر لیں گے۔گذشتہ چھ ماہ میں 70000 روہنگیا مسلمان اب تک ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش بھاگ چکے ہیں اور اقوام متحدہ نے ان افراد سے جنسی استحصال اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے واقعات سنے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کے مطابق میانمار کی سرکاری فوج باغیوں کے خلاف کاروائی کرنے کے بہانے ملک کی رکھائن ریاست میں ان کو نشانہ بنا رہی ہے۔ فوجی کاروائی پچھلے سال اکتوبر میں شروع ہوئی تھی جب بارڈر پولیس کے نو اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔پچھلے مہینے اقوام متحدہ نے ایک سخت رپورٹ شائع کی تھی جس میں حکومتی مظالم سے بھاگ کر بنگلہ دیش جانے والے 200 روہنگیا مسلمانوں کے انٹرویو کی مدد سے شواہد جمع کیے گئے تھے۔اقوام متحدہ کے مطابق انٹرویو دینے والے تقریباً 50 فیصد افراد نے کہا کہ ان کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد قتل کیا جا چکا ہے۔ انٹرویو دینے والی 101 خواتین میں سے 52 نے کہا کہ فوجیوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
رپورٹ کے اختتام میں ایک واقع کا ذکر ہے جس کے مطابق ایک آٹھ ماہ کے بچے اور ایک پانچ سالہ بچے کو چھریوں سے ذبح کیا گیا اور اس کے دوران ان کی ماؤں کے ساتھ زیادتی کی جاتی رہی۔روہنگیا مسلمانوں کے مطابق وہ عرب تاجروں کی اولاد میں سے ہیں جو صدیوں سے میانمار میں موجود ہیں لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سب بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔یاد رہے کہ ملک کے مغرب میں واقع ریاست رکھائن میں تقریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمان رہائش پزیر ہیں جہاں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں 2012 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد گھر بدر ہو چکے ہیں۔