شہر کے گنجان آباد علاقے ہوں ، قصبے ہوں یا دور دراز علاقہ جات ،وہاں پر قائم سرکاری صحت مراکز کا اصل مقصدہی یہی ہےکہ لوگوں کو بروقت ابتدائی طبی سہولت فراہم ہوں۔اس لئے جب بھی ان علاقہ جات میں کوئی فرد بیمار پڑتا ہے یا کسی چھوٹے حادثے کا شکار ہوجاتا ہے تو وہ انہی طبی مراکز کا رُخ اختیار کرلیتا ہے تاکہ اُسے فوری طور پر طبی سہولت مل سکے۔لیکن ان طبی مراکز کے متعلق عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جس مقصد کے تحت ان طبی مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ،وہ فوت ہوچکا ہے۔پچھلے چار پانچ عشروں کے دوران جموں و کشمیرمیں ان طبی مراکز کے قیام میں کافی توسیع ہوتی رہی ،اور کئی لوگوں کو فوری طور پر طبی سہولیات بھی فراہم ہوتیں رہیںلیکن مجموعی طور پر عام لوگوں کے لئےئی مراکز کار آمد ثابت نہیں ہوسکے۔ان طبی مراکز ،جن میں بعض بڑی بڑی ڈسپنسریاں بھی شامل ہیں،میںعموماً تجربہ کاراور ذمہ دار عملے کی عدم موجودگی سے جہاں ادویات و دوسرے طبی اوزار کی کمی کا شکار رہےوہیںبدعنوان عملے کے لئےیہ لوٹ کھسوٹ کے اڈے بن گئے۔ان طبی مراکز کے قیام سے جہاں بیشتر لوگوں کے لئے سرکاری ملازمتیں فراہم ہوئیں وہیں ان لوگوں کے لئے یہ طبی ادارےمنافع بخش کارخانے ثابت ہوتے رہے۔ عوام الناس خصوصاً غریب،لاچار اور مستحق مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے نام پر یہ لوگ لکھ پتی اور کروڑ پتی بن گئے ہیں۔بیشترسرکاری ڈسپنسریوں اور چھوٹے طبی مراکز پر تعینات سرکاری طبی عملہ جہاں زبردست بد دیانتی میں مبتلا ہوچکا ہے وہیں بعض نیم طبی عملے نے چوروں کا روپ اختیار کرکے ان اداروں کی اصل حقیقت مسخ کرکے رکھ دی ہے۔دیہی علاقوں کے چھوٹے چھوٹے صحت مراکز سے لے کر سرینگر شہر کی بعض اہم ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں تک کے بارے میں یہ شکایت عام ہوچکی ہے کہ غریب اور مستحق مریضوں کے لئے انتہائی اہم اور لازمی طبی سہولت کی فراہمی کے نام پر ان اداروں کو کاروباری اڈوں اور عیش کوشی کےٹھکانوں میں تبدیل کرکے رکھدیا گیا ہے۔ مریضوں کو ان اداروں سے دوائی کی عدم دستیابی تو معمول بن چکی ہے ،حالانکہ یہ بات بالکل طے ہے کہ ان سرکاری ڈسپنسریوں اور چھوٹے طبی مراکز میں عام طور پر ایسے ہی لوگ علاج و معالجہ کے لئے جاتے ہیں جو مالی استطاعت نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج نہیں کراسکتے ہیں۔ لیکن ان سرکاری طبی اداروں سے مستحق اور غریب مریضوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا، البتہ جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ جونیئر اور ناتجربہ کار طبی عملے کے ناقص مشورے ، بازار سے ادویات لانے اور ٹیسٹ کروانے کی لسٹ ۔اگرچہ اس ساری صورت حال سے سرکاری طبی اداروں کے اعلیٰ عہدیدار ،بڑے بڑے ڈاکٹر اور میڈیکل آفیسر بھی واقف ہیں لیکن وہ بھی مصلحتوں اور مفادات کے تحت خاموش تماشائی بن بیٹھے ہیں۔جس کے نتیجے میں جہاں سرکاری طبی اداروں خصوصاً بڑی ڈسپنسریوں اور چھوٹے چھوٹے صحت مراکز سے وابستہ طبی اور نیم طبی عملہ زبردست بد نظمی اور غیر ذمہ داری کا شکار ہوچکا ہے وہیں ان طبی مراکز میں مریضوں کے لئے مخصوص ادویات اور دوسرا طبی سامان بھی لوٹ لیا جاتا ہے۔حکومت اور محکمہ صحت کی طرف سے ان اداروں کو ماہانہ جو لاکھوں کروڑوں مالیت کے ادویات اور دوسرا طبی سامان فراہم ہورہا ہے ،اس کا اَسی فیصد حصہ ان مراکز میں کام کرنے والے سرکاری عملے کی نذر ہورہا ہےاور غریب و لاچار مریض بَس دیکھتا رہ جاتا ہے۔یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ان طبی مراکزکو جہاں محکمہ صحت کی طرف سے وسیع پیمانے پر ادویات اور دوسرا سازو سامان فراہم ہورہا ہے وہیںان طبی اداروں کی کارکردگی میں کوئی سدھار نہیں آرہا ہے۔جوکہ یقیناً ایک قابل تشویش امر ہےاور جو رپورٹیں ان صحت مراکز کے بارے میں شائع ہوتی رہتی ہیں ،وہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں سدھار لانے اور عوام الناس کے لئے فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔عوام کو علاج و معالجہ کے لئے بہتر سہولتیں فراہم کرنا ہر اچھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ،اس لئے ان ڈسپنسریوں اور چھوٹے چھوٹے طبی مراکز کے حالات بہتر بنانے اور ان میں دَر آچکی بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔