معراج وانی
زندگی کی تعمیر میں کچھ عناصر ظاہری ہوتے ہیں، جو نگاہوں کو بھاتے اور دل کو لبھاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنی موجودگی کا اثبات دیتے ہیں، جن کی اہمیت کا اندازہ صرف انہی کو ہوتا ہے جو اندر کی پرتوں کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چھت انہی میں سے ایک ہے — ایک خاموش خادم، ایک بے صدا محافظ، جو سب کچھ سہہ کر بھی کچھ نہیں کہتا۔چھت کسی بھی عمارت کا آخری مگر سب سے اہم حصہ ہوتی ہے۔ وہ سردی کی یخ بستہ ہواؤں، گرمی کی جھلسا دینے والی دھوپ، بارش کے موسلا دھار قطروں اور طوفانوں کے تھپیڑوں کو اپنی پشت پر جھیلتی ہے مگر نیچے کی دیواروں، فرنیچر، کمروں اور سب سے بڑھ کر ان میں بسنے والے انسانوں کو ان اثرات سے بچا کر رکھتی ہے۔ وہ خود شکست کھا سکتی ہے، مگر گھر کو گرنے نہیں دیتی۔
یہی حیثیت ایک گھر میں سربراہ کی ہوتی ہے اور خاص طور پر والد کی۔ وہ بھی تو زندگی کے تھپیڑوں کو، زمانے کی کڑی دھوپ کو، مہنگائی کی بارش کو اور فکروں کے طوفان کو اپنے دل پر سہتا ہے — مگر اپنے عیال، اپنے بچوں اور گھر والوں پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ وہ کسی چھت کی طرح بے آواز، مگر ہمہ وقت مستعد رہتا ہے، نہ کبھی شکوہ کرتا ہے، نہ کبھی صلہ مانگتا ہے۔چھت کے بغیر کوئی گھر مکمل نہیں ہوتا۔ چاہے دیواریں کتنی ہی مضبوط ہوں، بنیادیں کتنی ہی گہری، اگر چھت نہ ہو تو وہ عمارت غیر محفوظ، ناپائیدار اور غیر معتبر بن جاتی ہے۔ وہاں بارشوں کا خوف، دھوپ کی بے رحمی اور سردیوں کی سفاکی ہر وقت چھائی رہتی ہے۔ اسی طرح اگر گھر میں کوئی سربراہ نہ ہو، کوئی والد جیسا سایہ دار وجود نہ ہو، تو گھر صرف دیواروں کا ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے، جہاں جسم تو رہتے ہیں مگر دل بے چین، نگاہیں بے سمت اور خواب بے آسرا ہوتے ہیں۔
والد — جو بظاہر سخت، خاموش اور مصروف دکھائی دیتا ہے — دراصل ایک سایہ دار درخت، ایک ڈھال، ایک چھت کی مانند ہوتا ہے۔ وہ جب صبح دم رزق کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے کاندھوں پر صرف اپنے بیگ کا بوجھ نہیں ہوتا، بلکہ پورے گھر کی ذمہ داریاں، امیدیں، پریشانیاں اور خواب ہوتے ہیں۔ وہ خود تھک کر بھی دوسروں کو سکون دیتا ہے، خود فاقے سہہ کر بھی بچوں کو بھوکا سونے نہیں دیتا۔ وہ چھت کی مانند خود کو کھپا دیتا ہے تاکہ اس کے نیچے بسنے والے محفوظ رہیں۔ایسی چھت جو برسوں اپنی خدمات دیتی رہی ہو، جب بوسیدہ ہو جائے تو لوگ اس کی مرمت تو کرا لیتے ہیں، مگر اس کی قربانیوں کو یاد نہیں کرتے۔ والد کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جب تک وہ موجود ہو، اس کی قدر کم ہی ہوتی ہے۔ مگر جب وہ چلا جائے، تب احساس ہوتا ہے کہ جس سائبان تلے ہم جیتے رہے، وہ کتنا قیمتی تھا۔
اس لیے لازم ہے کہ ہم نہ صرف چھتوں کی حفاظت کریں، بلکہ ان انسانی چھتوں کا بھی احترام کریں جو ہمارے سروں پر زندگی بھر سایہ کئےرکھتے ہیں۔ جو ہر موسم کو خود پر جھیل کر ہمارے لئےسکون کا سامان کرتے ہیں۔ والد صرف ایک رشتہ نہیں، ایک ادارہ ہے، جو ہر گھر کی بنیاد اور چھت دونوں ہوتا ہے۔ ’’چھت فقط اینٹ، پتھر یا لوہے کا نام نہیں — چھت ایک احساس ہے، ایک قربانی ہے، ایک سائے کی وہ تفسیر ہے جو سورج کے نیچے بھی ٹھنڈک دیتی ہے۔‘‘
[email protected]>