جاوید اقبال
مینڈھر //مینڈھر سب ڈویژن کے چھترال علاقہ میں قائم چھترال پل ایک بار پھر شدید بارشوں کے باعث سیلاب کی زد میں آ گیا، جس کے نتیجے میں نصف درجن سے زائد دیہات کے سینکڑوں افراد ضلعی و تحصیل ہیڈکوارٹر سے کٹ جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔متاثرہ علاقوں میں بنیادی سہولیات، علاج معالجہ اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، جبکہ مقامی لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے پہلے سے ظاہر کردہ خدشات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔مقامی لوگوںنے کہا کہ جب پل کی تعمیر ہو رہی تھی تو کئی بار اس کے ڈیزائن، اونچائی اور نکاسی آب کے نظام پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ علاقے کے شہریوں اور پنچایت نمائندوں نے تحریری طور پر اور زبانی طور پر بھی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ اگر مناسب اقدامات نہ لئے گئے تو یہ پل سیلاب کا سامنا نہیں کر پائے گا لیکن ان کی آواز کو وقت پر سننے والا کوئی نہ تھا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دریا کی سطح میں معمولی اضافہ بھی چھترال پل کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ مقامی رہنمائوں اور سماجی کارکنان نے سوال اٹھایا ہے کہ ’اس سنگین صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا محکمہ آر اینڈ بی (سڑکیں و عمارات) اپنی کوتاہی قبول کرے گا؟ کیا متعلقہ ٹھیکیداروں اور انجینئرز سے جواب طلبی کی جائے گی؟ یا پھر حسبِ معمول خاموشی اختیار کر لی جائے گی؟متاثرہ عوام کا کہنا ہے کہ پل کی دوبارہ مرمت یا نئی تعمیر میں مقامی جغرافیہ، سیلابی پانی کے بہاؤ اور طویل مدتی پائیداری کو مدنظر رکھا جائے، تاکہ آئندہ ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ انہوں نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے فوری ایکشن لینے، متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن شروع کرنے اور پائیدار انفراسٹرکچر کی تعمیر کی اپیل کی ہے۔