محمد علیم اسماعیل
دادا گھر میں اپنے زیادہ تر کام خود ہی کر لیا کرتے تھے لیکن وہ بازار جانے سے قاصر تھے۔ جب کبھی ان کی دوا ختم ہو جاتی تو وہ اپنے پوتوں کی خوشامد کرتے۔ سبھی اپنی اپنی مصروفیات کا بہانہ بنا کر، ایک دوسرے پر ٹال دیتے۔ کوئی ان کی سنتا ہی نہیں تھا۔
دادا جہاں دیدہ تھے اس لئے اپنے تجربات سے اپنے تینوں پوتوں کو صحیح راستہ دکھانا چاہتے تھے۔
”دادا جی! خدا کے واسطے اپنے تجربات اپنے پاس ہی رہنے دیجیے۔“
جب اس طرح کا جواب ان کی سماعتوں سے ٹکراتا تو وہ سہم جاتے۔ دھیرے دھیرے وہ سمجھ گئے کہ سبھی انہیں چپ کرانا چاہتے ہیں اور وہ خاموش ہوگئے۔ اتنے خاموش کہ جیتے جی ہی ان کے چہرے پر موت کا سا سکوت چھا گیا جبکہ وہ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ان کی دوا ختم ہو گئی تھی اور کوئی لانے کو تیار نہیں تھا۔ وہ دن رات یوں ہی چپ چاپ اپنے پلنگ پر پڑے رہتے…… اور ایک دن وہ چپکے سے مر گئے۔
ان کی روح کب پرواز کر گئی کسی کو بھی پتا نہیں تھا۔
اور پھر غم میں ڈوبے ہوئے سبھی پوتوں نے اپنے اپنے کام سے ایک ایک ہفتے کی چھٹی لے لی۔
���
ناندورہ، مہاراشٹر
موبائل نمبر ؛8275047415