جہلم بہہ رہا تھا اوراپنے ساتھ نہ جانے کہاںکہاں سے قسم قسم کی چیزیں اٹھاکر بہاکے لئے جا رہا تھا ۔ میں اس کے کنارے بیٹھ کر اس کے پانیوں میں سنگ ریزے پھینک کر اپنی اداسی کو مسرت میںبدلنا چاہتاتھا ،کیونکہ دنیا کی چکا چوند، لوگوں کے اس جنگل میں ہر کسی کی ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی جلدی، گاڑیوں کی آوا جاہی کے شور،اونچے اونچے مکانات اور ان کی رنگین چھتوں کے طمطراق کے خیال نے مجھے پریشان کر رہاتھا۔میں سوچ رہا تھا کہ اس حسین دنیا میں لوگوں کو کتنے عیش اور مزے حاصل ہیں۔وہ زندگی کاہر لطف اٹھارہے ہیں۔ ان کے پاس زندگی کا ہر سکھ ا ورہر سہولت میسّرہیںاور میرے پاس اپنے آپ کو راحت پہنچانے کاتھوڑا سا سامان بھی میسّر نہیں ۔میں ہر جائز اور ناجائز طریقے پر غور کر رہا تھا کہ کس طرح میں زیادہ سے زیادہ روپے پیسہ حاصل کر سکو ں اور دنیا کا ہر لطف پا سکوں ۔میںسوچ رہا تھا کہ اس دنیا کی رفتار کو کیسے پکڑ سکوں اور اگر لوگوں کو پچھاڑ نہ سکوں تو کم سے کم وہ بھی مجھے پیچھے دھکیل نہ سکیں ۔
میرے اندر سے عجیب آوازیں آہی تھیں۔
ــ’’تم نکمّے ہو‘‘
’’مشین کا ایک بیکارپرزہ ہو‘‘
’’اس دھرتی پر بوجھ ہو‘‘
’’کچھ کرنا تو آتا نہیں‘‘
’’تمہیں اس دریا میں ڈوب کے مرجا نا چاہئے‘‘
میں اپنے آپ میں گم دریا میں سنگ ریزے پھینکتا جا رہا تھاکہ میری نظر ایک تنکے پر پڑی جو دریا کے بہاو کے ساتھ خراماں خراماں آگے بڑھتاجا رہا تھا۔میں اس تنکے کو غور سے دیکھتا رہا ۔یہ نادان تنکا بغیر مزاحمت
کئے دریا کی رو کے ساتھ بہے جا رہا تھااور شایداس کی منزل کو اپنی منزل سمجھ رہا تھا یا دنیا کو یہ جتاناچاہتا تھاکہ میںبھی کسی سے کم نہیں ۔یہ منظر دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیاکہ دریا اپنی منزل کو پانے کی فکر میں ہر شے کو اپنے ساتھ بہا لئے جا رہا ہے اور یہ تنکا اپنی منزل اور اپنے وجود کو بھول کر دریا کی رفتار اور اس کی حشمت سے مرعوب ہوکر اس کا ساتھ دئے جا رہا ہے ۔
میں دیکھ رہا تھا کہ سامنے ایک چٹان بھی تھی جسے دریا کی موجیں تھپیڑیں مار رہی تھیں ،آنکھیں دکھا رہی تھیںاور اپنے ساتھ بہا کر لے جا نے کی دھمکیاں دے رہی تھیں ۔یہ چٹان صبر واستقلال سے ان موجوں کا مقابلہ کر رہی تھی ،ان کو جھکنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کر رہی تھی اور سر اونچا کر کے اطمینان سے ان کی پسپائی اور شکست کا تماشا دیکھ رہی تھی۔اس چٹان نے شائد اپنے مقصد وجود کو جان لیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ دریا کی منزل الگ ہے اور میری منزل جدا۔ شائد اسی لئے یہ چٹان کسی حال میں بھی دریا کے ساتھ سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہی تھی۔یہ وہ لمحہ تھا کہ میرا زنگ آلودہ ایمان چمک اٹھا،میرا غافل دل جاگ اٹھا،حُبِ خدا اور حُبِ رسولؐ کِھل اٹھی۔میں نے سنگ ریزے پھینک دیئے اور دریا کا شکریہ ادا کر دیاکہ تو نے مجھے ایک بڑی حقیقت سے آشنا کر دیاکہ یہ دنیا تیری مانند ہے ،عام لوگ تنکے اور مومن ایک چٹان، جو کسی بھی حال میں اپنی منزل کو بھول کر دنیا کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
جہلم بے سہارا ،مفلوک الحال اور بے گھر سیلاب زدگان کے لئے ایک ڈراونا خواب اور قہرمان تو ہو سکتا ہے، لیکن میرے لئے ایک محسن جس نے مجھے ایک بڑی حقیقت سے آگاہ کر دیا۔
���
بومئی زینہ گیرسوپور
موبائل نمبر؛9858493074