وہ اِسے چِٹھی بابو کے نام سے پکارتی تھی ، جو اسے بڑا اچھا لگتا تھا ، ورنہ عرف عام میں اسے کوئی ڈاک بابو تو کوئی ڈاکیہ بابو کے نام سے پکارتا تھا ، حالانکہ وہ اسی کِشن گڑھ گاوں کا ایک ساکِن جگن ناتھ مشرا تھا جو اس حوالے سے اب اپنا نام اور اپنی شناخت کھو چکا تھا ، یعنی اب لوگ اسے ڈاک بابو اور ڈاکیہ بابو کے نام سے ہی پکارتے تھے، طُرہ یہ کہ کچھ لوگ اسے تار بابو بھی کہتے تھے جو اسے بہت بُرا لگتا تھا مگر کِشن گڑھ میں اسے تعظیم و تکریم کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا جو اس کےلئے باعث افتخار تھا اور باعثِ اطمینان بھی ۔ اکثر وہ گائوں کی ایک کم سِن ننھی سی ، پیاری سی ، معصوم بچی دشا کے بارے میں سوچتا تھا ، جو گھر میں دشابی کے نام سے پُکاری جاتی تھی ۔ جسے وہ روز دیکھتا تھا اور پہروں اس کے بارے میں سوچتا رہتا تھا ۔ دشابی پیہم اپنے چھوٹے گھر کی ایک چھوٹی سی کھڑکی پر اپنے ننھے سے خوبصورت رخسار کو اپنی نرم و نازک ہتھیلیوں پر ٹکائے اس کی منتظر رہتی تھی ، تبھی جب وہ اپنی کھٹ کھٹ کرتی ہوئی انگریز زمانے کی " ہرکیولس " برانڈ کی سائیکل پر سوار اُس کے گھر کی بغل کے راستے سے ٹرن ۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ کرتا ہوا گزُر جاتا تھا تو دشا یا دشابی جیسے کھِل اُٹھتی تھی اور بھاگم بھاگ کرتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی تھی ۔
"رام رام چِھٹی بابو ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" ننھی دشا سلام کرتی ۔
" رام رام مُنیا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" جگن ناتھ سلام کا جواب دیتا۔
" باپو کی چِٹھی آئی ہے کیا۔۔۔۔۔۔ ۔؟" وہ اونچی آواز میں ہانک لگاتی اور اُمید بھری نظروں سے جگن ناتھ کی طرف دیکھتی رہتی تھی۔
" نہیں مُنیا۔۔۔۔۔۔کوئی چِٹھی نہیں آئی ہے ۔" چِٹھی بابو یعنی جگن ناتھ جوابی ہانک لگاتا ہوا اور اپنی کھٹ کھٹ سائیکل کی زنگ آلود گھنٹی کی ٹرن۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ بجاتا ہوا آگے نِکل کر جاتا تھا ۔
جبھی ننھی سی پیاری دشابی مایوس ہوکر اپنا سر تھامتی ہوئی نیچے زمین پر بیٹھ جاتی تھی اور تب تک چِٹھی بابو اور اس کی کھٹ کھٹ سائیکل کو دیکھتی رہتی تھی جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتی ۔ کافی دیر وہ مایوسی کے عالم میں اپنی خالی خولی نظروں سے دُور خلا میں گھورتی رہتی ، جبھی اس کی ماتا رادھیکا اس کی ٹوہ لیتی ہوئی آجاتی اور اسے اپنی گود میں اُٹھا کر گھر کے اندر لے جاتی۔
دشابی اسی طرح مہینوں اپنے پِتا شری دھنپت لال کے خط کا انتظار کرتی رہی ، جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزی فوج زبردستی اٹھا کر بیگار کےلئے لے کر گئی تھی اور سات سمندر پار محاذ جنگ پر بھیج چکی تھی ۔ وہ مہینوں پیہم اپنے باپو کی چِٹھی کا انتظار کرتی رہی ۔ ایک لمبا انتظار، مگر چِٹھی ندارد ۔ چِٹھی آئی نہیں اور وہ انتظار کرتی رہی ۔ روز وہ اپنے گھاس پھوس والی چھت کے چھوٹے سے گھر کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ جاتی تھی اور اپنے نازک و ملائم ہاتھوں پر اپنے مغموم رخسار ٹکائے چِٹھی بابو کی کھٹ کھٹ سائیکل کی زکام زدہ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ ٹررن ۔۔۔ کی آواز پر کان دھرے بیٹھی رہتی تھی . مگر چِٹھی آتی تو چِٹھی بابو اسے باپو کی چٹھی تھما دیتا ۔ ڈاک بابو جگن ناتھ مشرا یہ سب سوچتا ، تو اس کا کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔
لمبا انتظار۔۔۔۔۔۔۔ ، پر چِٹھی کبھی آئی نہیں ، ہاں ایک روز ایک تار ضرور آیا ۔۔۔ ڈاکیہ بابو جگن ناتھ اپنی کھٹ کھٹ سائیکل پر سوار ٹرن ۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔ٹرررن ۔۔۔۔۔۔ کرتا ہوا رادھیکا اور دشا کے گھر پہنچا تو دشا حسب معمول چشم براہ نظر آئی ۔ وہ دوڑتی بھاگتی ہوئی چِٹھی بابو کے پاس چلی آئی ۔
" باپو کی چٹھی آئی ہے کیا۔۔۔۔۔ ۔؟" اس بار وہ خوش نظر آئی کیونکہ چِٹھی بابو اپنے ہاتھ میں تھمے ہوئے بنڈل میں سے کچھ کھوج رہا تھا۔
" چِٹھی نہیں مُنیا ، تار آیا ہے ۔" وہ ہاتھ میں تھمے ہوئے بنڈل میں سے ایک تار نکالتا ہوا بولا ۔
" تاااااااار ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" دشا کچھ سمجھ نہیں پائی
" مُنیا ۔۔۔۔ تار مطلب ٹیلیگرام ۔" چٹھی بابو جوابی ہوا ۔ جبھی رادھیکا گھر کے آنگن میں نمودار ہوتی ہوئی اور ان کے قریب آگئی ۔ " رام رام کاکا۔" اس نے ڈاک بابو کو سلام کیا ۔ " رام رام رادھیکا بہن ۔" کاکا جواباًبولا ۔
" یہ تار آیا ہے ۔" وہ اسے تار تھمانے لگا ، رادھیکا تار لیتی ہوئی تھوڑی دیر اسےاُلٹتی پلٹتی دیکھتی رہی ، پھر وہ تار ڈاک بابو کو واپس تھماتی ہوئی گویا ہوئی۔ " پڑھ کر سناو کاکا ۔"
کاکا نے پھر تار تھاما ۔ تار کھولتے ہی کاکا کے اوسان خطا ہوگئے ، اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ۔ ہاتھ کانپنے لگے کیونکہ خبر اچھی نہیں تھی ۔ وہ کون خر کی طرح پاس بیٹھی ماں بیٹی کے چہرے تکنے لگا ۔ بڑی دِقت کے ساتھ اس نے اشاروں کنائیوں میں ماں بیٹی کو یہ برُی خبر سنائی ، کہ دھنپت لال نہیں رہے ۔ جبھی وہاں کُہرام مچ گیا ۔ رادھیکا اور دشابی کی چیخوں نے زمین ہلادی اور آسمان تھرا دیا ۔ طرفتُہ العین مانو کِشن گڑھ کی ساری بستی اُمڈ آئی اور پورا ماحول آبدیدہ ہوگیا ۔
" بااااااپووووو ۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہاں جائیں ، کدھر جائیں ۔۔ ۔؟" دشا کی دردناک چیخیں جیسے لوگوں کے جگر تک اُتر گیئں ۔
" ہم نے کونسا پاپ کیا تھا بھگوان ، جو ہمیں اس کی سزا ملی ۔" رادھیکا سینہ کوبی کرنے لگی ۔
پورا ماحول اشکبار ہوا ۔ غم و اندوہ کی کیفیات چار سُو طاری ہوگئیں اور تارِ باراں شروع ہوگیا ۔ خود چِٹھی بابو بھی اپنے اشک روک نہ سکا اور اپنی آبدیدہ آنکھوں سے اپنی کھٹ کھٹ سائیکل پر سوار وہاں سے روانہ ہوگیا ۔
اس کے بعد پھر کبھی چھوٹی مُنیا دشا نے چِٹھی کا تقاضا نہیں کیا ۔ وہ کبھی چِٹھی بابو کی کھٹ کھٹ سائیکل کے پیچھے نہیں بھاگی ۔ کبھی ، بابو جی کی چِٹھی آئی ہے کیا ۔۔۔۔۔ ؟ کی ہانک نہیں لگائی ۔ وہ بدستور اپنے گھر کی چھوٹی سی کھڑکی پر ضرور نظر آئی ۔ گُم صُم ، خاموش اور پریشان سی ۔ اپنی نرم و نازک ہتھیلیوں پر اپنے کمّلائے ہوئے رخسار ٹکائے ، پہروں خلا میں گھورتی ہوئی ، ساکت و جامد سی ، ایسے ، جیسے اسے لقوہ مار گیا ہو ۔ چِٹھی بابو کی کھٹ کھٹ سائیکل ۔۔۔ ٹرن ۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔ کی آواز کے ساتھ وہاں سے گزرتی رہی اور وقت گزرتا گیا ۔
دن کا دوسرا پہر تھا ۔ ہوائیں معتدل اور موسم خوشگوار تھا ۔حال کی بارشوں سے ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی ۔ اب یہ ہوائیں راحت افزا تھیں ، بڑی فرحت بخش رہی تھیں ۔ کِشن گڑھ کے ڈاک گھر کے پیش منظر میں ڈاکیہ بابو جگن ناتھ مشرا، آج کی ڈاک چھانٹ رہا تھا ۔ اسے گھر جانے کی جلدی تھی ۔گھر میں پوجا آرند کرانے کا ارادہ تھا۔ چند پُجاری بھی گھر آنے والے تھے ، سو جلدی سے ڈاک چھانٹ کر تقسیم کرنے کی سوچ رہا تھا ۔ فکر کی کوئی بات نہیں تھی ، کیونکہ اب اس کے پاس ایک اچھی سواری بھی آگئی تھی ۔ ایک مُدت کے بعد وہ اپنی پرانی کھٹ کھٹ سائیکل کو رخصت کرکے اسے ایک کباڈی کے سر تھوپ چکا تھا ۔ کچھ پرانی اور نئی رقم جوڑ کر اب اس کے پاس" ایٹلس "برانڈ کی ایک نئی تازہ دم سائیکل آگئی تھی جو بڑی مستحکم تھی اور سُبک رفتار بھی ۔
وہ بڑے انہماک سے ڈاک چھانٹ رہا تھا کہ معاً ایک بند لفافے پر نِگاہ ٹھہرتے ہی وہ چونک پڑا ۔ لفافے پر رادھیکا دیوی کا نام و پتہ درج تھا ۔ اس نے لفافے کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا جبھی اس کے پورے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔ بھیجنے والے کے نام و پتے کی جگہ جلی حروف میں دھنپت لال کا نام و پتہ مندرج تھا ۔ ولایتی لفافہ تھا اور اس پر دو ماہ قبل کی مہر معہ تاریخ مندرج تھی ۔ دفعتا" ڈاکیہ بابو جگن ناتھ کی حالت و کیفیت کچھ عجب سی ہوگئی ۔ وہ تھرّا سا گیا ۔ معاًخوف اور خوشی کے ملے جلے تاثرات اُس کے چہرے پر ترشح ہوگئے ۔
" مطلب دھنپت لال زندہ ہے۔"، وہ چونک پڑا۔ " مگر وہ تار۔۔۔ ۔" وہ بڑبڑایا اور کچھ سوچنے لگا ۔
" پتہ نہیں چِٹھی میں کیا لکھا ہوگا ۔؟"وہ بڑبڑاتے ہوئے سوچنے لگا اور ہاتھ لگے اس خط کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔
وہ من ہی من تڑپ اُٹھا اور مضطرب سا اپنے ہونٹ کُترنے لگا ۔ اچانک اُس کی آنکھوں کے سامنے سے دشا کا مغموم و مبہوت چہرہ گھوم گیا ۔ رادھیکا کے درد و کرب میں ڈھلی اس کی مبہوت زندہ مورت جیسے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ کانوں میں دونوں ماں بیٹی کے چیخنے چلانے کی آوازیں گونج اُٹھیں ۔ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھا ۔ ایک پر کٹے زخمی پرندے کی طرح اس نے ایک منٹ کےلئے سوچا کہ خط کھول کر پڑھا جائے ۔ مگر کیوں ۔؟
" نہیں نہیں ۔۔۔۔ یہ مناسب نہیں ہوگا ۔ کسی کی امانت ہے ۔ پھر یہ کہ خط میں کیا لکھا ہوگا ۔" وہ ہڑبڑاتے ہوئے اپنا سر نفی میں ہلانے لگا ۔ مجھے یہ خط فوراً سے پیشتر رادھیکا اور دشابی تک پہنچانا ہوگا ، یہی مناسب ہوگا ۔ اس نے من ہی من سوچا اور جلدی جلدی ڈاک سمیٹتے ہوئے ڈاک گھر سے باہر آگیا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد اب اس کی نئی" ایٹلس" سائیکل دھنپت لال کے گھر کی طرف بھاگ رہی تھی ۔
ٹرن۔۔۔۔۔ ٹرررن۔۔۔۔۔ ٹرررن۔۔۔۔۔ کی آواز کے ساتھ ہی ڈاک بابو جگن ناتھ کی نئی " ایٹلس " سائیکل ٹیڑھے میڑھے راستے عبور کرتی ہوئی رادھیکا دیوی کے آنگن میں داخل ہوگئی ۔ اس بار سائیکل کی گھنٹی چاق و چوبند تھی ، بڑی تیز چل رہی تھی اور اس کی ٹرن ۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔کی آواز دُور دُور تک سنائی دے رہی تھی ۔ دشا پھر اپنے گھر کی چھوٹی سی کھڑکی میں نظر آئی ۔ مایوس ، مغموم اور گم صم سی ۔۔۔۔ سائیکل کی گھنٹی بجتی رہی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ، اس نے جیسے گھنٹی کی آواز سُنی ہی نہیں ۔ وہ مبہوت سی بس دُور خلا میں گھور رہی تھی ۔ گھنٹی پھر بجی ، مگر دشابی بے حس و حرکت دُور خلا میں گھورتی رہی ۔ جبھی ڈاکیہ بابو نے ہانک لگائی ۔
" مُنیا۔۔۔۔۔۔ ، اے مُنیا ۔۔۔۔۔۔ ۔"
رادھیکا دیوی نے رسوئی گھر میں یہ آوازیں سُنیں تو دشابی کو پکارنے لگی ۔ " دشابی ۔۔۔۔ دشابی۔۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو ۔۔۔۔ کون ہے باہر ۔ ؟" وہ جلدی جلدی ہاتھ صاف کرتی ہوئی دشابی کو پیہم پکارتی ہوئی خود بھی گھر سے باہر آگئی ، جبھی دشابی بھی ماں کی آوازیں سُنتی ہوئی اور چونکتی ہوئی گھر سے باہر آگئی ۔ چِٹھی بابو پر نظر پڑتے ہی وہ اور زیادہ مغموم ہوگئی اور اس کے تیور اچانک تن گئے ۔ اسے جیسے چِٹھی بابو کی گھرآمد بڑی ناگوار گزُری ۔
" رام رام رادھیکا بہن ، رام رام مُنیا ۔" تبھی ڈاکیہ بابو جگن ناتھ مشرا نے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے سلام کیا۔ " رام رام کاکا ۔" رادھیکا جوابی ہوئی اور سلام دعا کرنے لگی ۔ اس دوران دشابی ڈاک بابو کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی ۔ اس کی آنکھیں جیسے ڈری ڈری ہوئی اور سہمی سی تھیں ۔ پھر وہ اچانک بولی ۔
" کوئی تار لائے ہو کیا چِٹھی بابو ۔؟" وہ ڈاکیہ بابو کو بدستور گُھورتی رہی ، جبھی ڈاک بابو سہم سا گیا ۔
" ہمیں تار نہیں چاہئیے چِٹھی بابو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" وہ اپنے ننھے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی ۔ اچانک اس کی آنکھیں ڈبڈبائیں ۔
" تار نہیں ، چِٹھی لایا ہوں مُنیا بیٹی ۔ " چِٹھی بابو پریشان ہوتا ہوا بولا ۔
" کون لکھے گا ہمیں چِٹھی ۔۔۔۔ ۔؟" مُنیا تڑپ کر بولی ۔ اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے تھے ۔ یہ الفاظ پاس بیٹھی رادھیکا اور ڈاک بابو کے جگر تک اُتر گئے۔ دونوں درد کی شدت سے مچل اُٹھے ، جبھی رادھیکا نے اسے گود میں اُٹھا کر اپنی چھاتی سے لگا لیا ۔
" اری مُنیا ۔۔۔۔ تیرے باپو جی کی چِٹھی ہے ۔ " کہتے ہوئے ڈاکیہ جگن ناتھ نے بڑی شفقت سے دشا کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا ۔ یہ سُنتے ہی ایسے لگا جیسے دونوں ماں بیٹی کو شدید جھٹکا لگا ہو ۔ دفعتاًدونوں کے کان کھڑے ہوگئے اور دونوں کےجسم میں اچانک ایک سرسراہٹ سی پیدا ہو گئی ۔ دونوں متحیر ہوگئے اور کاکا کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے ۔
'کاکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔"رادھیکا بدقت تمام بولی ، اسے جیسے لقوہ مار گیا ہو ۔ وہ آگے کچھ کہہ نہ سکی ۔ جبھی دشا جیسے چلائی ۔
" مگر رادھیکے ماتے تو کہتی ہے کہ میرے باپو اب سورگ میں ہیں ۔" دشا بڑی معصومیت سے بولی ۔ " چِٹھی سورگ سے آئی ہے کیا ۔؟" وہ معصوم نگاہ سے ڈاکیہ بابو کو دیکھتی رہی ۔
جبھی کاکا تیزی سے چھِٹیوں کو چھانٹنے لگا اور پھر جلد ہی اس نے ایک چِٹھی نکال کر رادھیکا کو تھما دی ۔ رادھیکا مبہوت سی چُپ چاپ کاکا کو ایک ٹک دیکھتی رہی ۔ کاکا سے اس کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی ۔
"رادھیکا بہن ، آپ کے پتی دیو دھنپت لال جی کی چِٹھی ۔"
کاکا نے زور سے رادھیکا کے کندھے پکڑے اور اسے پُوری قوت سے جھنجھوڑا ۔ جبھی وہ چونک گئی ۔
" ہاں ہاں ۔۔۔۔ پڑھ کر سنائو کاکا ۔ " وہ جیسے ہوش میں آئی ۔ اس نے چِٹھی واپس کاکا کو تھما دی ۔ کاکا نے چِٹھی لے کر اسے جلدی جلدی کھولا اور اسے پڑھنا شروع کردیا۔ لکھا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔ پرنام ۔۔۔۔ ۔
" میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں ۔ امید ہے آپ اور دشابی بھی ٹھیک طرح سے ہوں گیں ۔ میری فکر نا کریں ، بہت جلد ہم اپنے وطن کےلئے روانہ ہورہے ہیں ۔ یہاں خط میں زیادہ کچھ لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا ۔ میں نے دشابی کیلئے ایک خوبصورت گُڑیا خریدی ہے ، بالکل دشا جیسی ۔ اپنے ساتھ لا رہا ہوں۔ بس اپنا اور دشا کا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا دھنپت لال "
" با پووووووو ۔۔۔۔" اچانک دشا بہت زور سے چِلائی اور رادھیکا کی گود سے نکل کر جیسے پاگل سی ہوگئی ۔ اس نے چِٹھی بابو کے ہاتھ میں تھمے ہوئے خط پر جھپٹا مارا اور اسے اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی اسے دیوانہ وار چومنے لگی ۔
" باپو زندہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ میرے باپو جی زندہ ہیں ۔ " وہ چیخنے چلانے لگی اور چٹھی کو ہوا میں لہراتی ہوئی دیوانہ وار اپنے آنگن میں اُچھلنے کودنے لگی ۔ رادھیکا اور ڈاک بابو مبہوت سے یہ سب دیکھتے رہے ۔ دونوں کے چہرے فرط انبساط سے تمتمانے لگے ۔ آنکھیں پھر سے برسنے لگیں ۔ جو اس بار اچھا لگا ۔ کیونکہ یہ خوشی کے آنسو تھے ، جو رقص کرتے ہوئے سبھی کے رخسار پر ڈھلک رہے تھے اور جنہوں نے ایک مُدت بعد اچانک برس کر آنگن میں موجود تمام لوگوں کے تمتماتے ہوئے رخسار پر رونق پوت دی تھی ۔
���
فرنینڈس اینکلیو نیو ائیر پورٹ سری نگر کشمیر
موبائل نمبر؛9622900678