الف عاجز اعجاز
جب دسمبر کی آخری تاریخیں آتی ہیں تو کشمیر کے آسمان پر گہرے سرمئی بادلوں کا بسیرا ہونے لگتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ’’چِلّۂ کلان‘‘ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ وادی پر قابض ہو جاتا ہے۔ چِلّۂ کلان کو سردیوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، جو 21 دسمبر سے 31 جنوری تک اپنے سخت ترین دنوں کا اعلان کرتا ہے۔ یہ وہ موسم ہے جب سردی اپنی انتہا کو چھوتی ہے، پانی جمنے لگتا ہے، دریا اور جھیلیں برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں اور وادی کے لوگ گھروں میں لکڑی کے بخاریوں کے گرد بیٹھ کر گرمی کا سہارا لیتے ہیں۔
چِلّۂ کلان کا سب سے نمایاں پہلو شدید سردی اور برفباری ہے۔ درجہ حرارت منفی 6 سے منفی 12 ڈگری سیلسیس تک گر جاتا ہے۔ دن کے وقت سورج جھلک دکھا بھی دے تو اس کی کرنیں سردی کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔ راتیں طویل اور یخ بستہ ہو جاتی ہیں۔ گھروں کے نلکوں میں پانی جم جاتا ہے، برف کی دبیز تہہ راستوں، کھیتوں اور چھتوں پر چمکتی ہے۔ پہاڑ ایسے نظر آتے ہیں جیسے کسی نے سفید لحاف اوڑھ دیا ہو۔
اس موسم میں پانی بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ ندیوں، چشموں اور جھیلوں پر برف کی تہہ جم جاتی ہے۔ مشہور ڈل جھیل بھی اس وقت سیاحوں کے لیے ایک عجوبہ بن جاتی ہے۔ بچے اس پر پھسلتے ہیں اور نوجوان اس جمی ہوئی سطح پر کرتب دکھاتے ہیں۔ گاؤں میں تو پانی کا حاصل کرنا ایک جدوجہد بن جاتا ہے۔ لوگ صبح سویرے برف کو پگھلا کر پانی کے لیے انتظام کرتے ہیں۔
جہاں چِلّۂ کلان سیاحوں کے لیے ایک خوابناک نظارہ پیش کرتا ہے، وہیں مقامی لوگوں کے لیے یہ کسی کٹھن آزمائش سے کم نہیں۔ سیاحوں کے لیے یہ ’’ونٹر ونڈر لینڈ‘‘ ہوتا ہے، جہاں برفباری کے مناظر، جمی ہوئی جھیلیںاور پہاڑوں کی برفیلی چوٹیوں پر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ گلمرگ کی اسکیئنگ کی بہار ہو یا پہلگام کی وادیوں میں برف کے فرش پر چلنے کا تجربہ، سیاح ہر لمحہ ان نظاروں کو کیمرے میں قید کرتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف، مقامی لوگوں کو روزمرہ زندگی کے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجلی کی بندش عام ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو پینے کے پانی کے لیے برف کو پگھلانا پڑتا ہے۔ کھانے پینے کا سامان جمع کرنا پڑتا ہے کیونکہ برفباری کی وجہ سے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ لکڑی اور کوئلے کے دام بھی بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ یہی ذرائع گرمی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
چِلّۂ کلان صرف سردی کا موسم نہیں بلکہ کشمیری ثقافت کا حصہ بھی ہے۔ اس موسم میں کشمیری اپنے روایتی کھانوں جیسے ’’ہریِسہ‘‘ کا مزہ لیتے ہیں۔ صبح کے وقت لوگ نان کے ساتھ گرم ہریِسہ کھاتے ہیں، جو سردی کو کم کرنے کے لیے ایک بہترین غذا سمجھی جاتی ہے۔ لوگ گھروں میں ’’کانگڑی ‘‘ (مٹی کی انگیٹھی) کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے گرد بیٹھ کر اپنے دن کی کہانیاں سناتے ہیں۔
شام کے وقت کشمیری چائے یعنی ’’نون چائے‘‘ یا ’’قہوا‘‘ کا اہتمام ہوتا ہے۔ کڑک سردی کے دوران کہوا کی خوشبو اور ذائقہ دل و دماغ کو گرما دیتا ہے۔ یہ وہ موسم ہے جب لوگ آپس میں قریب آ جاتے ہیں، کیونکہ باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ خاندان کے افراد ایک جگہ بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں اور پرانی کہانیاں سنتے ہیں۔
چِلّۂ کلان کشمیری ادب، شاعری اور مصوری کا بھی محبوب موضوع رہا ہے۔ شعرا نے برفباری کو محبت اور جدائی کے استعارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ برف کی سفید چادر کو پاکیزگی، سردی کو بے حسی، اور چپ چاپ برفباری کو اداسی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ برف کے گرتے ہوئے گالوں کو شاعری میں ’’فلک کے موتی‘‘ یا’’آسمانی پھول‘‘ کہا گیا ہے۔ کشمیری ادب میں چِلّۂ کلان کے دنوں کی سختی اور وادی کے حسن کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے، وہ قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔
چِلّۂ کلان ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ قدرت کتنی طاقتور ہے۔ انسان نے چاند پر قدم رکھا، لیکن چِلّۂ کلان کے سامنے آج بھی بے بس ہے۔ قدرت کے اس موسم کے سامنے بڑے بڑے منصوبے بھی فیل ہو جاتے ہیں۔ برفباری سے ہوائی اڈے بند ہو جاتے ہیں، سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور انسان کو گھر میں قید ہونا پڑتا ہے۔
چِلّۂ کلان کشمیری زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے، جس سے ہر کوئی گزرنا چاہتا ہے، چاہے وہ مقامی ہو یا سیاح۔ یہ موسم جہاں زندگی کو مشکل بناتا ہے، وہیں یہ لوگوں کے دلوں میں امید اور محبت کا احساس بھی جگاتا ہے۔ یہ موسم اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہر برفباری کے بعد بہار آتی ہے، ہر سختی کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ چِلّۂ کلان اپنے ساتھ وہ کہانیاں لے کر آتا ہے جو سالوں تک یاد رکھی جاتی ہیں۔کشمیر کے لوگ اس برف کے بادشاہ کے مزاج کو سمجھ چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سختی عارضی ہے اور جلد ہی نرم ہواؤں کا استقبال کیا جائے گا۔ یہی امید چِلّۂ کلان کی سب سے خوبصورت حقیقت ہے۔
(کولگام، رابطہ۔9622697944)