وادی میں خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کی لہر جس پیمانے پر چہارسو بے قابو ہو کر پھیل رہی ہے،اُس نے ساری قوم کوسکتے میں ڈال دیا ہے، کیونکہ اور تو اور حکومت ابھی تک اس بات کاتعین کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اس مکروہ اور مذموم یورش کی پشت پر کون سے عناصر سرگرم ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں بھی احتجاج اور بیان بازیوں تک محدود ہیں اور عملی طور پر عوام کے سامنے کوئی لائحہ عمل رکھنے کی کوششنہیں کی جارہی ہے۔ چنانچہ متعدد مقامات پر مجبوراً عوام کو مقامی سطح پر گروپ تشکیل دینے پڑے ہیں، جو دوران شب اپنے علاقوں میں گشت کرکے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کا سبب بن رہے ہیں، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اس نوعیت کے بیش تر واقعات دن کی روشنی میں پیش آئے ہیں اور کئی مقامات پر شک و شبہہ کی بنیا د پر بے گناہ شہریوں کی مارپیٹ کےمعاملات بھی سامنے آئے، جس پر سنجیدہ فکر عوامی حلقوں نے زبردست دکھ کا اظہار کیا۔ اب حکومت کی جانب سے بھی سرکاری طور ضلعی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دینے کی باتیں کی جارہی ہیں، جو متاثرین اور انکے لواحقین سے روابط قائم کرکے انہیں نفسیاتی مشورے فراہم کرینگے۔ یہ سب ایسے واقعات پیش آنے کے بعد کے عمل سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ اس سنگین لہر کو قابو کرنے کے حوالے سے حکومت کی طرف اب تک صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اس کی تہہ میں جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سرکاری اداروں کی توجہ اب تک زیادہ تر نفسیاتی عوامل اور سائنسی تحقیق پر مرکوز رہی ہے، جبکہ ایسے حلقوں ، جنکے مفادات اس یوریش کے ساتھ وابستہ ہوسکتے ہیں اور جس کےلئے جرائم پیشہ عناصر، خاص طور پر منشیات کے مافیا کے ساتھ جڑے لوگوں، کو تفتیش کا مرکز نہیں بنایا گیا ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے یہ باتیں کھلے عام پوچھی جانے لگی ہیں کہ جس طرح کئی مقامات پر چوٹیاں کاٹنے کی بار بار کوششیں کی گئی ہیں، اُس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے واقعات میںایسے عناصر بھی ملوث ہوسکتے ہیں جو مقامی محل و قوع سے نہ صرف واقفیت رکھتے ہوں بلکہ گھروں کے اندر کی کیفیات کے حوالے سے بھی معلومات رکھتے ہیں ، کیونکہ متعدد واقعات ایسی حالت میں پیش آئے ہیں، جب خواتین گھروں کے اندر تنہا تھیں۔ اس بات سے انکار کرنا غلط ہوگا کہ موجودہ یورش کی آڑ لیکر جرائم پیشہ طبقہ بھی سرگرم ہوا ہوگا، کیونکہ انہیں اپنے گھناونے کام انجام دینے کےلئے موزون ماحول میسر ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر صورتحال اس موڑ پر پہنچنے لگی ہے، جہاں سارے سماجی ڈھانچے کی چولیں ہلنے لگی ہیں۔ باہمی اعتماد و اعتبار کے جذبات کو متواتر نقصان پہنچ رہا ہے اور غیر علاقوں میں لوگوں کے عبور و مرور میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، جو معیشت سے جڑے چھوٹے طبقوں کےلئے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جیسا کہ مزاحمتی اور مین اسٹریم دونوں حلقوں کا ماننا ہے، ایسے واقعات کی روک تھام کےلئے کی جانی والی کوششوں میں جہاں ہوشیاری اورمنظم نگرانی کی ضرورت ہے، وہیں حزم و احتیاط اور ضبط و تحمل کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ کےرکھنے کی ضرورت ہے۔ جس عنوان سے چوٹیاں کاٹنے کی مہم دن بہ دن شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور جس پیمانے پر یہ وادی کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے، اُسکو دیکھتے ہوئے عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہےکہ حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے، جس کی ایک جمہوری اور ذمہ دار نظام میں قطعاً توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس یورش نے انتظامی اداروں پر سے عوامی اعتماد کوختم کر دیا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔