فریدہ تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے اپنے بیٹے منیر کے سرہانے بیٹھی اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔اس کے سوکھے ہوئے ہونٹ کپکپا رہے تھے، چہرے پر ایک تحریر سیاہ حروف میں نمایاںتھی۔ اس کی نگاہیں کھڑکی سے باہر کالے بادلوں سے بھرے آسمان پر تھمی ہوئی تھیں۔
منیر بستر پر پڑا درد سے کراہ رہا تھا۔اس کی دونوں آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرے پر چیچک کے سے تازہ داغ تھے، جو اس بے رحم دیو کے منہ سے نکلی ہوئی چنگاریوں سے اس کے چہرے پر لگےتھے۔
اچانک فلک شگاف آوازوں کی گونج ان دونوں کی سماعت سے ٹکرا گئی۔فریدہ سہم کر کھڑی ہوگئی اور کھڑکیاں بند کرنے لگی۔
"امی شائد وہ آگئی"منیر نے معصوم سی آواز میں کہا۔
"نہیں بیٹا ابھی نہیں آئی لیکن وہ آئے گی ضرور"۔یہ کہہ کر فریدہ خاموش ہوئی۔
منیر اس دن کے انتظار میں تھا کہ وہ سنے کہ پری اس شہر میں پہنچ گئی۔ آوازوں کی یہ گونج سن کر اسے لگا تھا شاید وہ آگئی لیکن اس بار بھی وہ نہیں آئی تھی۔ اس پری کے متعلق منیر نے بچپن میں سنا تھا جب اس نے پہلی بار ان آوازوں کو سنا تھا اور اپنی ماں سے طفلانہ لہجے میں کہا تھا "امی یہ لوگ چلاتے کیوں ہیں؟ یہ کس کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ "
فریدہ ایک ٹھنڈی آہ کھینچ کر کہنے لگی "یہ لوگ ایک پری کی تلاش میں ہیں جو آج سےبہت پہلے اس شہر میں رہتی تھی اور ایک دن اچانک کسی ظالم بادشاہ نے اسے پکڑ کر پہاڑوں کے اس پار قید کر دیا۔ اب یہ لوگ اسی پری کو چھڑوانے جاتے ہیں لیکن جہاں وہ پری قید ہے لوگ وہاں تک نہیں پہنچ پاتے۔
"کیوں نہیں پہنچ پاتے؟"۔بیٹے کا یہ سوال سن کر فریدہ خاموش ہوئی ۔
فریدہ کے چہرے پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ بیٹے کو کیا جواب دے۔ تھوڑے سے تامل کے بعد فریدہ کہنے لگی۔"راستے میں ایک خونخوار کالا دیو ہے جو ان لوگوں کو آگے بڑھنے نہیں دیتا ہے۔اس کی ڈراونی لال آنکھیں ہیں،اس کے کانوں سے دھواں اور منہ سے چنگاریاں نکلتی ہیں"
"کوئی اسے مارتا کیوں نہیں؟ " منیر کے ذہن میں نہ جانے کیسے کیسے سوالات ابھر رہے تھے۔
فریدہ اب بات کو بڑھانا نہیں چاہتی تھی لیکن بیٹے کے اصرار نے اسے کچھ اور کہنے پر مجبور کیا اوروہ کہنے لگی"جب بھی کوئی انسان آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ دیو اس قدر غراتا ہے کہ اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے اور وہ انسان کو ڈراتا ہے۔ اگر کوئی اور آگے بھڑنے کی کوشش کرے تو دیو منہ سے شرارے اُگلتا ہے۔ ان شراروں نے نہ جانے کتنے لوگوں کو حسین کائنات دور رکھا"
فریدہ کی آنکھوں سے موتیوں کی ایک لڑی نکل آئی اور کچھ دیر کیلئے خاموش ہو گئی۔منیر اپنی ماں کی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھ رہا تھا۔ اس کی زبان پر جیسے قفل چڑھا تھا۔اب وہ بھی کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔
آنسوؤں کو پونچھ کر پھر کہنے لگی"اس دیو نے بہت سے لوگوں کو اپاہج بنا رکھا۔کسی کی ٹانگ کھا گیا اور کسی کا بازو۔کچھ لوگ اس دیو کے چنگل میں پھنس گئے اور کچھ لوگوں کو کھا گیا "۔
منیر خاموش بیٹھا دھیان سے سن رہا تھا۔اس کے چہرے پر خوف کے آثار نظر آ رہے تھے۔اس کے ماتھے پر سلوٹیں ابھر آئیں۔فریدہ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا"آپ کا بابا بھی اس دیو کے چنگل میں پھنس گیا اور وہ بھی آج تک نہیں لوٹا"
منیر کے گال انگاروں کی طرح لال ہوئے اور ماتھے پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے ابھرنے لگے۔ اس کی سانسیں تیز ہو گئیں۔اس کے دماغ میں نہ جانے کیسے کیسے خیالات گھر کرنے لگے۔اب جتنی منیر کے دل میں پری کو چھڑوانے کی تڑپ تھی اس سے کہیں زیادہ وہ اپنے باپ کو دیکھنےکے لئے بے قرار تھا۔
کائنات سیاہ چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ چاند اور تارے چراغ راہ بن کر ان لوگوں کی راہیں روشن کر رہے تھے۔ منیر بھی لوگوں کے جم غفیر میں شامل ہوا اور قدم سے قدم ملا کر منزل کی طرف پڑھنے لگا۔ذہن میں اُبھر آنے والے خیالات سے اسکو اور راہیں بھی روشن نظر آ رہی تھیں ۔ سبھی چلنے میں مصروف تھے کہ اچانک کالے دیو کے گرجنے کی آواز آئی۔ کچھ لوگوں کے قدم رک سے گئے لیکن کچھ آگے بڑھتے رہے۔ منیر بھی آگے بڑھنے والوں کے ساتھ تھا۔ دیو نے لوگوں کو آگے بڑھتے دیکھا تو اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔دھوئیں کے ساتھ ہی اس کے منہ سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ منیر اس کی پکڑ سے تو بچ گیا لیکن ظالم چنگاریوں نے اس کے پورے چہرے چھید ڈالا۔ لیکن ابھی تک بستر پر لیٹے پری کا انتظار کر رہا ہے اور جبھی کوئی آواز سنتا ہے تو اپنی ماں سے کہتا ہے "امی شائد وہ آگئی"
رابطہ؛ اچھہ بل اننت ناگ