معاشرے میں تعلیمی اداروں کی اہمیت مسلم ہے۔یہ تعلیمی ادارے معاشرے کا حسن برقرار رکھنے کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ انہی اداروں سے نئی پود کی نشو نما ہوتی ہے ۔ اِن اداروں میں بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جاتا ہے اوراِنھیں مستقبل میں معاشرے کی زمام کار سنھبالنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔یہاںطالب علم اپنے تعلیمی سفر کو امتحانات کے مختلف پڑائو طے کر کے آگے بڑھاتے ہیں۔یہ امتحانات دراصل اُن کی شخصیت کو سنوارنے اور اُن میں تخلیقیت کا عنصر پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان امتحانات میں کامیابی نیز امتیازی نمبرات حاصل کرنا ہر ایک طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔ لہٰذا طالب علم پورے سال باضابطہ طور کلاسز میں شریک ہوتا ہے، استاد کی طرف سے مفوضہ کام کو انجام دیتا ہے، نوٹس تیار کرتا ہے اور پورے سال خونِ جگر میں انگلیاں ڈبو کرخود کو امتحان میں بیٹھنے کے قابل بناتا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں’ JKBOSE‘ کے نام سے ایک سرکاری ادارہ کام کر رہا ہے جوہر سال صوبہ جموں،صوبہ کشمیر اورصوبہ لداخ میں آٹھویں، دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات مختلف اوقات اور مرحلوں میں منعقد کرواتا ہے۔یہ ادارہ تعلیم کو خالص معیاری اور موثر بنانے کی غرض سے ۱۹۷۵ء سے ہی کام کر رہا ہے اور اِس وقت اِس ادارے کے تحت پوری ریاست میں10,609 سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں۔اِن تین جماعتوں کے امتحانات اسکولوں کے بجائے بورڈ کے زیر اہتمام منعقد کرنے کے پیچھے یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ ضلعی، صوبے اور ریاستی سطح پر بچوں کے مابین مقابلہ کرایا جائے تاکہ اُن کی علمی صلاحیتوں کو پرکھا جا سکے اور اُنھیں آگے بڑھنے کے مواقعے نصیب ہوں۔ لہذا ہر دفعہ بورڈ کے اِن امتحانات میں امتیازی مقامات حاصل کرنے والوں کو معاشرے میں پزیرائی حاصل ہوتی ہے جس سے یقیناً اُن کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔یہ امتحانات سکولی امتحانات کے مقابلہ میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اِن امتحانات کے نتائج پر معاشرے کی نظر ہوتی ہے اوران نتائج سے ایک طالب علم کو ’’ تعارف‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ اگر اُسے اچھے نمبرات حاصل ہوں تو وہ معاشرے کا ’’ ذہین ‘‘طالب علم کہلاتا ہے اور اگر اِن امتحانات میں اُس کی کارکردگی خراب رہی تو معاشرے میں اُسے ایک ’’ کمزور‘‘ طالب علم کے طور پر جانا جاتاہے۔چنانچہ طالب علم اِن امتحانات کے تئیں کافی حساس اور متفکر ہو تے ہیں۔
گذشتہ سال اہل کشمیر کے لئے پُر مصائب اور صبرا ٓزما سال ثابت ہوا۔ ۸جولائی ۲۰۱۶ء کے بعد پانچ ماہ تک پورے کشمیر میںآگ و آہن اور افراتفری کا ماحول پیدا ہواجس نے وادی میں بسنے والے ہر متنفس کو بُری طرح متاثر کیا۔بیمار علاج سے محروم ہوئے، مزدور دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے پیسہ کمانے کے مواقعوں سے محروم ہو گئے، طالب علم کتابوں اور اپنے تعلیمی اداروں سے دور گھر کی چار دیواری میں محصور ہو گئے۔اِن پانچ مہینوں میںچہار سو ، فائرنگ، آنسوں گیس، پیلٹ گنوں اور پاوا شیلز کا قہر برس رہا تھا۔ مجموعی طورگولیوں اور شیلنگ سے ۱۰۰ کے قریب قیمتی انسانی جانوں کازیاں ہوا، سینکڑوںافراد پیلٹ گنوں سے کلی اور جزوی طور اپنی بینائیاں کھو بیٹھے اور ۱۵ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوگئے۔ اِسی خونچکاں دور میںعید گاہ سرینگرکا ساتویں جماعت کا معصوم طالب علم جنید احمدآخون اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، شوپیان کی نویں جماعت کی طالبہ انشاملک پیلٹ چھروںکا شکار ہو کراپنی بینائی سے کلی طور محروم ہو گئی اورپلوامہ کے جواں سال کالج لیکچررشبیر احمد کی آرمی حراست میںپُر اسرار موت واقع ہوئی۔
اِس ساری صورتحال نے پوری دنیا کو کشمیر کی جانب متوجہ کیا اور قومی سطح سے لیکر بین الاقوامی سطح تک کشمیر کے دگر گوں حالات موضوع بحث بنے رہے۔اقوام متحدہ تک میں کشمیر کے چرچے ہونے لگے۔اِن پانچ مہینوں میں کرفیو، ہڑتالوں،مظاہروں،توڑ پھوڑ، گرفتاریوں، چھاپو اور ناکہ بندیوں سے پیدا شدہ کشمکش نے کشمیر میںپورے نظام زندگی کو مفلوج کر دیا۔ نظام تعلیم جو کسی بھی معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کا ضامن ہوتا ہے، بھی اِس نازک ترین صورتحال سے ناکارہ بن گیا۔ طالب علم درس و تدریس کے قیمتی جوہر سے پورے پانچ مہینے محروم ہو گئے۔ اِس تمام صورتحال نے کشمیر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کی اِن امتحانات کے تئیں حساسیت کو شدید دھچکا دیا۔ لیکن نومبر ۲۰۱۶ء کے آخر میں جب حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے تو ریاستی مشینری بھی حرکت میں آگئی اور بی جے پی-پی ڈی پی حکومت کے ترجمان اور سابق وزیر تعلیم نعیم اختر نے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات نومبر میں ہی منعقد کرنے کا اعلان کر کے طالب علموں اورماہرین تعلیم کو ورطۂ حیرت میں ڈالاکہ پانچ مہینوں میں درس و تدریس اور کتابوں سے کلی طور دور رہ کرطالب علم کیونکر امتحان میں بیٹھ سکنے کے قابل ہیں؟لہٰذا اِس کے ردِ عمل میں طالب علموں اور ماہرین تعلیم کی مسلسل نکتہ چینیوں سے وزیر تعلیم کو اِس غیر متوقعہ فیصلہ پر نظر ثانی کرنا پڑی اور بالآخر موصوف نے امتحانات کودو مرحلوں میں لئے جانے کا ایک اور انوکھا اعلان کیاجس کے تحت ایک مرحلہ نومبر ۲۰۱۶ء میں جب کہ دوسرا مرحلہ مارچ ۲۰۱۷ء میںمنعقد کئے جانے کی بات کہی گئی۔ نومبر مرحلے میں نصاب میں ۵۰ فیصد تخفیف کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مارچ ۲۰۱۷ء مرحلے میں نصاب میں بنا تخفیف کئے ہوئے امتحان منعقد کرنے کا حتمی فیصلہ لیا گیا اور بالآخر ریاستی وزیر تعلیم اور اُن کی ٹیم نے سینکڑوں جتن کر کے ہی نظام تعلیم کو از سر نو بحال کر دیا اور اولین فرصت میں دسویں اور بارہویں امتحانات کے لئے ڈیٹ شیٹ بنائی ۔یہ امتحانات کو منعقد کرنے کے لئے اتنے متجسس دکھے کہ نعیم اختر صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ جولائی کے بعد کشمیر کے یمین و یسار میں مظاہروں میں شرکت کے نتیجہ میں گرفتارہونے والے محبوس طلبہ کا امتحان جیل کی کال کوٹھری میں ہی لیا جائے گا۔
چنانچہ اِسی حکم نامہ کے تحت نومبر ۲۰۱۶ء میں نا مساعد حالات کے باوجود دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات منعقد کرائے گئے۔ مورخہ۱۵ نومبرتا ۲۸ نومبر تک دسویں کے جب کہ ۱۴ نومبر تا ۳دسمبرتک بارہویں جماعت کے امتحانات لئے گئے۔ اِس تمام عرصے میں امتحان گاہوں میں سیکورٹی کا سخت انتظام کیا گیا تھا۔اِن امتحانات میں دلچسپ بات یہ دیکھنے کو ملی کہ گذشتہ پانچ ماہ سے جاری مظاہروں میں جو بچے شرکت کر رہے تھے آج وہی بچے امتحان گاہوں میںاپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے فکر مند نظر آئے۔والدین خود بچوں کے ساتھ امتحان گاہوں میں آتے دیکھے گئے۔ شایدیہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ کشمیری طالب علم اور والدین تعلیم کے جواہرات سے بخوبی آشنا ہیں اور علم کے حصول میں سستی اور کاہلی برتنے کو وہ شکستگی اور پژ مردگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بہر حال نومبر مرحلے کے دسویں کے امتحان میں پوری وادی میں 98 جبکہ بارہویں کے امتحانات میں ۹۵ فی صد اُمیدواروں نے حصہ لیا۔دسویں اور بارہویں کے اُن اُمید واروں جنھوں نے مارچ مرحلے کے لئے فارم بھرے ہیں، کی تعدادقریب دو ہزار ہے۔اگر چہ دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات کامیابی سے منعقد کرنے کو حکومت نے بچوں کا ایک تعلیمی سال بچانے سے تعبیر کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالب علم اِن امتحانات میں ذہنی طورشرکت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ گذشتہ پانچ ماہ کی خون کی ہولی نے اُن کے اذہان پر منفی اثرات ڈالے تھے۔یہ بچے نا چاہتے ہوئے بھی کتابوں سے دور ہو گئے تھے۔گولیوں کی گن گرج، آنسو گیس کے ذہریلے دھوئیں،چھاپوں اور ناکہ بندیوں سے پیداشدہ خوف و ہراس سے اِن کا دماغ کلی طور مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن بالآخر چارو ناچار اِنھیں امتحانات میں بیٹھنا ہی پڑا۔
مورخہ۱۲ جنوری ۲۰۱۷ء کو دسویں جماعت کے نتائج اسٹیٹ بورڈ آف سکول ایجوکیشن (JKBOSE)نے اپنی ویب سائٹ پرظاہر کر دئے۔نومبر ۱۵تا نومبر۲۸تک لئے گئے اِس امتحان میں کل 58,293 طلبہ و طالبات نے حصہ لیا جس میں 30,070 طلبہ اور 28,223 طالبات تھیں۔58,293 میں سے 42,208 اُمید واروں کو کامیاب قرار دیا گیا۔اِن میں 3413 طلبہA1 گریڈ (90-100%) ، 7898 طلبہA2 گریڈ (80-89%) اور 9353 طلبہB1گریڈ (70-79%)کے ذمروں میں اپنا نام شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔امسال نمبرات کی جگہ نتائج میں گریڈنگ نظام متعارف کیا گیا تھا اورمجموعی طور کامیاب ہونے والوں کی شرح 83 فی صد رہی۔نتائج منظر عام پر آتے ہی پورے کشمیر میں موبائل فونزبجنے لگے اور سوشل میڈیا خصوصاً واٹس ایپ اور فیس بُک پرصارفین اِن نتائج کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہارکرنے لگے۔ لوگ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لئے تہنیتی پیغامات لکھنے لگے ۔ بقول اُنکے اِس امتحان میں کامیابی حاصل کرنا بچوں کے لئے ایک چیلنج سے کم نہ تھا کیونکہ جولائی ۲۰۱۶ء کے بعد مسلسل پانچ ماہ کرفیو اور ہڑتالوں کے حصار میں رہ کریہ بچے اپنی کتابوں اور درس و تدریس سے دور ہو گئے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ ہڑتال اور کرفیو کے باوجود بچوں کی اِس عظیم کامیابی کو پوری قومِ کشمیر کے لئے سرمایہ افتخار قرار دینے لگے۔ دسویں کے نتائج ظاہر ہونے کے ٹھیک دس دن بعد مورخہ ۲۲ جنوری کوJKBOSE نے بارہویں جماعت کے نتائج بھی ظاہر کر دئے۔ بارہویں جماعت کے امتحان میں کل53159طلبہ نے شرکت کی تھی جس میں 40119طلبہ کامیاب ہوئے اور مجموعی طور 75.47 فی صد طلبہ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے۔ دسویں کی طرح بارہویں جماعت کے نتائج میں بھی گریڈنگ نظام متعارف کیا گیا۔
دسویں اور بارہویں کے ان نتائج پر غور کرنے سے یقینا متعددسوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ۸ جولائی ۲۰۱۶ء کے بعد کے خونچکاں حالات نے پورے کشمیر میں نظام زندگی کو درہم برہم کر دیاتھا۔پورے پانچ مہینے لاشوں کو اُٹھانے اور دفنانے کا سلسلہ جاری رہا۔اِس سنگین ترین صورتحال سے اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات فطری طور خوف و ہراس میں مبتلا ہوئے جس سے یقینا اُن کی نفسیات پر اثر پڑا۔یہ طلبہ تعلیم اور تعلّم سے یکسر دور ہو گئے اور شاید کئی طلبہ نے اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھانے کے خواب کو ہی دیکھنا چھوڑ دیاہوگا۔ لیکن اِس غیر یقینیت کے باوجودنومبر۲۰۱۶ء میں حکومت نے دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات منعقد کرنے کا غیر متوقع فیصلہ کیا ۔ امتحان منعقد ہونے اور نتائج ظاہر ہونے کے فوراً بعد اب تک مسلسل نتائج پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ماہرین تعلیم خصوصاً پڑھے لکھے نوجوان اِن نتائج کو لیکر اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے ۵ مہینے کتابوں سے دور اور پُرسکون ماحول سے محروم یہ طلبہ ۱۰۰ فی صد نمبرات حاصل کر سکے۔ اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ کوچنگ سینٹرز بھی اِن پانچ ماہ میں بالکل بند تھے اور گھروں میں درس و تدریس کا اہتمام کرنے کا کوئی موقعہ نہیں تھا کیونکہ پورا کشمیرخوف،یاس اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا۔یونیورسٹی کے ایک طالب علم کے بقول اِن نتائج کے پس منظر میں سیاسی مقاصد کار فرماہو سکتے ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ بچوں کو کھلم کھلا نمبرات دیکر اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مستقبل میں مظاہروں میں شرکت کرنے سے دریغ کریں۔پاس ہونے کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن دسویں کے نتائج میںدرجنوں اُمید واروں نے پورے سو فی صد نمبرات حاصل کئے ہیں اور مجموعی طور پر گذشتہ سال کے75 فیصدنتائج کے مقابلہ میں امسال نتائج کا تناسب83فی صد رہا۔یہی حال بارہویں جماعت کا بھی ہے۔بارہویں جماعت کے گذشتہ سال کے نتائج 55 فی صد تھے لیکن امسال نتائج کے اس تناسب میں 20 فی صد اضافہ ہو کرمجموعی نتائج 75 فی صد رہے۔یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں ایک بڑا سوال پیدا کر رہے ہیں۔
اِن سوالات کی بنیاد یںاتنی قوی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے حکومت نے طلبہ کو ’’ نمبرات‘‘ کا ’لالی پپ‘ دے کر مستقبل میں مظاہروں سے دور رہنے کا درس دیا ہو۔برہان وانی کے جاںبحق ہونے کے بعدپیداشدہ حالات نے نوجوانوں خصوصاً ہائیر سیکنڈریز کے طلبہ پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اِس سے انتظامیہ کے اداروںمیںملی ٹینسی میں اضافہ کے خدشات نے جنم لیا ہے ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ۸ جولائی ۲۰۱۶ء کوبرہان وانی کے جاں بحق ہونے کے فوراً بعد ۵۹ ؍نوجوانوں نے عسکریت میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ نوجوانوں کے عسکریت کی جانب اِس بڑھتے ہوئے میلان کو روکنے کے لئے اِن پر نمبرات کی بارش کر کے اِنھیں بہلانے پھسلانے کی کوشش کی گئی ہو؟اگر یہ خیال وقیاس صحیح ہیں توکہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اختیار کیا گیا یہ طریقہ کسی بھی صورت میںموزون نہیں ہے کیونکہ اس سے امتحانی معیارات کو شدید ٹھیس پہنچے گی اور طلبہ و طالبات کو کھلم کھلا نمبرات دیناگویا اُن کی صلاحیتوں اور استطاعتوں سے فریب کرنا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو طالب علموںکے امتحانی نتائج کے متعلق ’ـ’سیلاب پاس‘ ‘ اور ’’برہان پاس‘‘جیسے فقروں کو اختراع کر نے کے مواقعے میسر آتے ہیں جس سے یقیناہمارے اِن نونہالوں کی صلاحیتوں کی تحقیر و تذلیل ہوتی ہے۔
حالات کی سنگینی کے درمیان منعقد کئے گئے دسویں کے اِن امتحانات کے نتائج کے پیچھے بہر حال کیا ہی عوامل کار فرما ہوں، لیکن ارباب اقتدار کو چاہیے کہ جولائی۲۰۱۶ء کے بعدکشمیر میں جو حالات پیدا ہوئے، اُنھیں پھر سے پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے لئے لازمی طور مسائل کو حل نیز لوگوں کے احساسات و جذبات کی قدرکرنا ازحد ضروری ہے۔کل کو خدانخواستہ اگرپھر سے سرزمین کشمیر میں آگ و آہن کا ماحول پیدا ہواتو غیر ممکن نہیں کہ آج کے یہی ۱۰۰، ۹۵ اور ۹۰ فی صد نمبرات حاصل کر نے والے بچے ترال کے معصوم نوجوان اسحاق پرے عرف نیوٹن کا راستہ اختیارکر لیں گے جس نے دسویںمیں۹۸ اوربارہویں میں ۸۵ فی صد نمبرات حاصل کئے تھے لیکن ۲۰۱۵ء میں وہ اپنی پڑھائی کو خیر باد کہہ کر جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہو گیا تھا اورایک سال سرگرم رہنے کے بعدمارچ ۲۰۱۵ء میںفورسز کے ساتھ ایک معرکہ میں جاں بحق ہواتھا۔یہ بچے اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اونتی پورہ میں انجینرنگ کے طالب علم باسط رسول کا راستہ اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جس نے جولائی ۲۰۱۶ء کے حالات سے ہی متاثر ہو کر بندوق اُٹھائی اور چند ہی ماہ بعد اپنی جان کانذرانہ پیش کیا۔جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے اِن نتائج کے متعلق ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ آیا یہ ہمارے اِن نوجوانوں کی ذہانت کی روشن دلیل ہے کہ ۵ ؍ماہ مسلسل کتابوں اور درس و تدریس سے کلی طور دور رہنے کے باوجود بھی وہ ۹۰، ۹۵ اور ۱۰۰ فی صد نمبرات حاصل کر پائے یا بچوں کی یہ غیر معمولی کامیابی سوائے ایک فریب اور دھوکے کے کچھ بھی نہیں؟
…………………………
رابطہ :متعلم شعبہ اُردو، کشمیر یونیورسٹی
9622093275
touseefahanger1@gmailcom