چلہ کلان کے اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ واردِ کشمیرہونے میں اب بس چند دن ہی بچے ہیں۔ شدید سردی کا 40 دن کا سلسلہ شروع ہونا ابھی باقی ہے اور پہلے رات کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے چل رہاہے۔ بالائی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔پہاڑی راستے بند ہونا شروع ہوچکے ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں بھی زمستانی ہوائوں کا چلنا شروع ہوچکا ہے ۔چلہ کلان کے چالیس دنوں کے دوران ہمیں جن معمول کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہم سب کو کئی دہائیوں سے معلوم ہیں۔ یہ سر د ترین ایام ہماری زندگی کو متعدد طریقوں سے متاثر کرتے ہیں۔ ہمارے پانی کے پائپ جم جاتے ہیں اور یہ ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس موسم میں جب برف پڑتی ہے تو ہماری کچھ سڑکیں بند ہو جاتی ہیں جو آبادی کو خوفناک تنہائی میں ڈال دیتی ہیں۔منفی درجہ حرارت کی وجہ سے بیشتر سڑکوںکی سطحوں پر پھسلن پیدا ہوجاتی ہے جو پھر حادثات کا باعث بن جاتی ہے اور یہ سب معمول کی مشکلات ہیں جن کا کشمیر کے لوگوں کو ان دنوں میں سامنا ہے۔ جو چیز ان سردی کے ایام کو انتہائی پیچیدہ بنادیتی ہے وہ طویل گھنٹوں تک بجلی کی عدم موجودگی ہے۔ اگر صرف کشمیر میں سردیوں کے دوران بجلی کی اچھی سپلائی ہوتی تو زیادہ تر مسائل کا آسانی سے مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ اب بھی ایک بہت دور کا خواب ہے۔بلا شبہ سائنسی ترقی کی وجہ سے ہمیں آج کل بہت سارے ایسے آلات دستیاب ہیں جو زمستانی ہوائوں میں ہمیں گرم رکھ سکتی تھیں تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ آلات بھی ہمارے کسی کام نہیں آتے ہیں کیونکہ ان آلات کو چلانے کیلئے درکار بجلی خال خال ہی دستیاب ہوتی ہے ۔کشمیر اور جموںکے سرد علاقوں میں موسم سرما کے دوران بجلی کی عدم فراہمی ایسے مہنگے آلات کے وجود کوہی ختم کر دیتی ہے۔ اب کچھ گرمی دینے والے آلات گیس یا مٹی کے تیل پر چلتے ہیں لیکن وہ بھی عام لوگوں کی رسائی سے باہر ہیں کیونکہ لوگ ان قیمتی حرارتی آلات کو چلانے پر اتناپیسہ خرچ نہیں کر سکتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سردی ہمیں معذور کر دیتی ہے۔ یہ ٹھنڈ کا دور صحت کے نقطہ نظر سے سب سے خطرناک ہے۔ اس موسم میں ہمیں صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کا ہم سب کو بہت خیال رکھنا چاہیے۔اس کا سب سے تشویشناک پہلویہ ہے کہ یہ بہت سی بیماریوں کے خطرے کو بڑھاتا ہے جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ہمارے ہاں بہت سی اموات سردی کے مہینوں میں ہوتی ہیں اور انکو آرام سے سردی سے جوڑاجاسکتاہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہرے اور پھسلن کی وجہ سے ہڈیوں اور جوڑوں کے مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں جبکہ امراض تنفس کے مسائل پیدا ہونا عام سی بات ہے اور اب تو یہ تحقیق سے بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ سردیوں کے نتیجہ میں فشار خون میںا ضافہ اور سٹروک بھی ہوسکتے ہیں ،نیز حرکت قلب بند ہونے کے معاملات سے بھی ہم نامانوس نہیں ہیں۔ وادی میں ڈاکٹروں نے وقتاً فوقتاً اس بارے میں قیمتی تجاویز جاری کیں اور کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو چوکنا کیا۔ زمستانی ہوائیںخاص طور پر ہمارے خاندان کے بوڑھے افراد کے لئے خطرناک ہیں۔ اگر ہمارے وسائل اجازت دیتے، اور اگر کوئی خیالی انتظامیہ ہوتی، تو سردیوں کے مہینوں کو صحت کی مستقل ایمرجنسی قرار دے کر ضروری انتظامات کئے جانے چاہئے تھے لیکن عملی دنیا میں ایسا ممکن نہیں ہے ۔ محکمہ صحت کو چاہئے کہ اس موسم کے لیے خصوصی ایڈوائزری جاری کرے، تاکہ اس موسم سے متعلق صحت کے مسائل سے لوگ آگاہ ہوں جسکے نتیجہ میں انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ محکمہ صحت کا فرض ہے کہ وہ آبادی تک پہنچ کر اس موسم میں انفرادی صحت کو لاحق خطرات کے بارے میں عام آدمی کی معلومات کو اپ ڈیٹ کرے۔موسم سرما میں درپیش صحت کے خطرات کے بارے میں بروقت تعلیم وآگہی بہت سی زندگیوں کو بچا سکتی ہے۔ مسائل پیدا ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے، محکمہ کو صحت کے ان عام مسائل کے خلاف ایک فعال موقف اختیار کرنا چاہئے جن کا ہمیں اس موسم میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس انتہائی نگہداشت والی ایمبولینسوں کا ایک بڑا دستہ ہونا چاہئے جو لوگوں کی ہنگامی طبی صورتحال میں دستیاب رہتی۔یہ ایک عام علم ہے کہ صحت کی ہنگامی حالتو ں ، جیسے حرکت قلب بند ہونے کے معاملات میں ابتدائی چند منٹوں کو سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ ہم عام طور پر اس موقع کو گنوا دیتے ہیں اور بہت سی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے انتظامیہ ،خاص طور پر وہ لوگ جو صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ کام کرتے ہیں، کو چاہئے کہ وہ ایک طویل منصوبہ تیار کریںجس میں صحت کے بحران کے حوالے سے چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کو بھی مدنظر رکھیں جن کا ہمیں سردیوں کے ایام میں سامنا رہتا ہے ۔
منگلوار۔۲۰؍دسمبر (صفحہ ۴) کے لئے (تین)مضامین
چلہ کلان سے قبل ہی سردی کا طوفان بے بس آبادی کی تو دادرسی کریں!
