پچھلے کئی دنوں سے وہ نیند میں ایک عجیب و غریب خواب دیکھ رہی تھی جیسے راستے میں چلتے چلتے اپنی چرتی گائیو ں اور بھینسوں کو اپنے ساتھ ہانکتے ہوئے وہ گھر چلتی آتی کہ اچانک دور کہیں سے ایک آوارہ بادل کا ٹکڑا فلک پر نمودار ہو کر اس کے سامنے حائل ہوتا اور ایک مہیب اندھیرا سا پھیل جاتا، جو اسے آگے بڑھنے سے روکتا ہوا لگ رہا ہے۔
پھر جو نہی اس کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا تو خون میں لت پت ایک چھوٹا سا پرندہ پھڑا پھڑا تا ہوا دکھائی دیتا، جیسے اس کو کوئوں نے چونچیں مار مار کر آدھ مرا کرکے چھوڑا ہو۔ یہ دیکھ کر وہ سہم ہو جاتی اور اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ خوف کے مارے وہ ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتی پھرا سے یاد نہیںرہتا کہ کب وہ خود بخود نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
صبح اٹھ کر لگ بھگ وہ اس واقعہ کو بھول چکی ہوتی اور اپنی ماں کے سامنے اس کےبارے میںکچھ کہنےسے گریز کرتی، البتہ اس کے ان مٹ نقوش ذہن پر چھائے رہتے۔ معمول کے مطابق جب بھی وہ اسکول سے آکر گھر کے احاطے میں داخل ہو تی تو اماں کو نہ کسی کام میں مشغول پاتی۔ کبھی وہ بھیڑ بکریوں کو چارہ کھلاتی ، کھبی اِدھر اُدھر جھاڑ و پھرتی یا پھر کبھی امرود کے پیڑ کی چھائوں تلے سبزی کا ٹتی ہوئی نظر آتی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ کھل اٹھتی اور وہ پوچھتی۔۔۔۔’’ آگئی بیٹا! لگتا ہے کافی بھوک لگی ہے۔ اند ر جا کر پہلے اپنی وردی اُتار نا پھر کچن میں جاکے کھاپی لینا۔ ورنہ تمہاری یہ وردی گندی ہو جائے گی اور اس پر داغ لگ جائیں گے‘‘۔
’’ اچھا اماں! ‘‘وہ اس کے جواب میں اپنا سر اثبات میں ہلاتی ہوئی اند ر جاتی اور دل ہی دل میں اس کی بات پر مسکرائے بغیر نہیں رہتی۔
یوں تو وہ ایک عام سی لڑکی ہے ۔عمر دس برس کی رہی ہوگی، چہرے پر وہی معصومیت جھلکتی نظر آتی تھی جو عام دنوں میں اس کی ماں کے چہرے پر کھلی رہتی۔ قد کے لحاظ سے قدرے لمبی لیکن بالکل دبلی پتلی، آنکھیں جھیل سی گہری اور شانوں پر کسی ناگن کی طرح پھن پھیلائے سنہرے ریشمی بالوں کی لٹ ایک عام سےر بر بینڈ سے سے جوڑے میں بندھی ہوتی تھی۔ پھٹا پرانا کاٹن کا فراک اور ٹانگوں میں سفید رنگ کا ڈھیلا ڈھیلا شلوار اور پیروں میں گھٹیاقسم کا چپل اس کے پورے جسم کا اثاثہ تھا۔
شام ہونے سے پہلے پہلے ہی مندر سے ملحقہ میدان میں چرتی اپنی بھیڑ بکریوں کو گھر لانا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ یہ میدان بستی سے تھوڑی مسافت پر پہاڑی کے مشرقی دامن میں تھا۔ جہاں سال بھر خود رو گھاس اور جنگلی جھاڑیاں اُگی رہتیں جو جانوروں کے کھانے کے کام آتیں اور اس میں بستی کے لوگ اپنے مویشیوں کو چرنے کےلئے چھوڑ دیتے تھے۔
اس بہانے اُسے اپنی ہم عمر سہلیوں سے میل ملاپ کا موقع بھی ملتا تھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی بچیاں ایک ساتھ کھیلا کرتیں۔ کبھی مندر کے صحن میں گھروندے بناتیں۔ کبھی گڈے گڑیا کا بیاہ رچاتیں۔ اس طرح ایک دوسرے کی قربت پا کر انہیں انجانا سکھ ملتا، جس کا ایک ایک لمحہ ان کی راہوں میں خوشیوں کے پھول کھلا تا رہتا۔
مندر کے احاطے میں برگد کا ایک پرانا درخت استادہ تھا۔ جسکے سائے میں ایک جوگی منش بیٹھا کرتا تھا جودن بھرمنتروں کا جاپ کرتانظر آتا۔کیا ہندو ، کیا سکھ ، کیا مسلمان، جس کا وہاں سےگزر ہو جاتا اس کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ضرور ڈالتا۔ اہل ہنود اسے ایک اعلیٰ پایہ کا گیانی اور مسلمان باکمال فقیر سمجھ کر قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھتے۔
بستی میں ملی جلی آبادی تھی اور بھائی چارے کی فضا میں سکھ و اطمینان کے ساتھ ہر ذات و فرقے کے لوگ وہاںبرسوں سے ساتھ ساتھ رہتے چلے آرہے تھے، جب کہ ان ہی میں سے ایک طبقہ پہاڑی کی اونچی نیچی ڈھلوانوں پر گذر بسر کر رہا تھا اور وہ لڑکی بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتی تھی۔ غربت و مفلسی اس کے ماں باپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ چند بکریاں ان کے گھر کا کل سرمایہ تھا، جن دودھ کا وہ فروخت کرتے تھے اور اس طرح گھر کا گذارہ چلتا تھا۔
حسب معمول جب وہ ہرنی کی سی چال چلتی ہوئی اونچی نیچی ڈھلوانوں کو عبور کرکے سکول ،جو اس کے گھرسے یہی ایک آدھ کلو میٹر کی دور ی پر تھا، تو اچانک نہ جانے اس کے من میں کونسا خیال در آیا کہ اس کچی ناہموار سڑک کی بجائے پگڈنڈی جیسے درمیانی راستے کو ترجیح دی ۔ وہ مٹکتے مٹکتے سکول پریئر میں گایا جانے والا ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا ،مذہب نہیں سکھاتا ہے آپس میں بیر رکھنا، ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا‘‘ گارہی تھی کہ اچانک ایک سنسان جگہ پر چند آدمی ایک بڑے پتھر کی اوٹ سے باہر نکلنے۔ تعداد میں وہ چار تھے اور جھٹ سے آگے بڑھ کر اس کے اردگرد کھڑے ہوگئے اور اسے اپنی گرفت میں لے کر اس کا چہرہ ڈھانپ لیا۔ کپڑے کے ایک ٹکڑے سےاس کا منہ بند کرکے دونوں ہاتھ پائوں کوبھی باندھ دیا۔یہ سب اتنی ہوشیاری اور برق رفتاری سے ہوا کہ وہ اُف تک نہ کرپائی اور نہ وہاںسے بھاگ سکی پھر وہ اُسے ایک بوری میں بند کرکے اپنے ساتھ لے گئے کہ کسی کو کانوں کا خبر تک نہ ہوئی۔
شام اتررہی تھی اور سورج درختوں کے اوٹ میں چلے جانے کو بے تاب تھا۔ جب دیر تک وہ گھر واپس لوٹ کر نہ آئی تو اس کے ماں باپ کے جسموں پر جیسے چونٹیاں رینگنے لگیں۔ ان کی نگاہیں سامنے دور تک پھیلی کچی سڑک پر اس گمان میں لگی ہوئی تھی کہ شاید یہ ابھی نہ ابھی وہ اسکول سے لوٹ آئے گی۔ لیکن جب کافی دیر تک وہ نہ لوٹی تو بدحواسی کے عالم میں دونوں میاں بیوی نے پہاڑی کا چپہ چپہ چھان مارا اور بستی میں جا کر اس کی سہلیوں سے دریافت کیا کہ شاید انہیں کچھ پتہ ہو اور اس طرح اس کا کوئی سراغ مل جائے لیکن معاملہ ڈھاک کے تین پات ثابت ہوا۔
آنا ً فاناً جب یہ بات بستی میں پھیل گئی تو لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔پھرجس کسی نے بھی سنی اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ کسی کو اس بات یہ یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ آج تک بستی میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ لوگ گھر چھوڑ کر ننگے پیر اُسے ڈھونڈنے نکلے۔ جہاں جہاں اس کے ہونے کا امکان تھا وہاں وہاں دیکھ آئے مگر پھر بھی وہ کہیں نہ ملی۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگوں کی نگاہیں تھک گئیں اور آنکھیں دکھنے لگیں۔ ہائے رے قسمت! دکھ کی گھڑیاں گھر کی دہلیز پر آکر جم گئیں اور انتظار ان کا مقدر بن گیا۔ قسمت کے لکھے کا کوئی کیا کرے۔ ادھر چھوٹی ننھی سی بچی کی گمشدگی سے جہاں بستی کےسب لوگ دکھی تھے وہیں اب سادھو بھی کہیںآس پاس دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نے طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا کر ڈالیں۔ حسن اتفاق سے مندر کا پجاری پر واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی کسی کی شادی میں شرکت کے لئے شہر گیا ہوا تھا لہٰذا ایسے حال میں فقیر کے اسطر غائب ہونے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
وہ صبح بڑی قیامت خیز ثابت ہوئی جب ساری بستی خاموش تھی اور لوگ لحافوں میں دبکے پڑے تھے۔ کہ اچانک یہ خبرپوری بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ کسی نے مندر کی سیڑھیوں پر فقیربابا کی لاش پڑی دیکھتی ہے اور اس کے سینے میں کسی نے خنجر پیوست کرے اسے وہاں پھینک دیا ہے۔ اس کے چہرے پر بہت سی خرا شیں پڑ چکی ہیںاور بدن کے کپڑے تا رتار ہیں۔
چنگاری کا ہوائیں اُٹھنا تھا کہ ساری بستی میں ایک آگ سی لگ تھی۔ ہر طبقہ ہر فرقہ خود سے خیالات کا ظہار کرنے لگا۔ دن کے بے رنگ اجالے میں اور رات کی تاریکی میں کسی خطرناک انہونی کی پرچھائیاں رقصاں لگ رہی تھیں۔ کب کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔ کل تک جو لوگ ننھی سی بچی کو تلاشتے رہے وہی آج اس فرقے کے مخالف ہوگئے۔ ابھی اس المناک واقعہ کو زیادہ دن نہ گزرے کہ ایک دوسری بُری خبر آئی جس نے لوگوں کے ہوش اڈا دیئے۔
چند لوگوں نے اس مظلوم لڑکی کی خون میں لت پت لاش ندی کے کنارے پر پڑی دیکھی، جو اپنی بے بسی اور مظلومیت کی سرپا داستان بنی تھی۔ اسے اس حالت میں نیم برہنہ چھوڑا گیا تھا کہ اس کے چہرے کی تازگی کھوئی اور آنکھو کی چمک کا فور ہوچکی تھی۔ اسے دیکھ کر انسانیت شرمسار ہوئی جارہی تھی۔
بات پھیلتے دیر نہ لگی۔ سب خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو تکتے رہے جیسے انہیں سانپ سو نگھ گیا ہو۔ کل تک جو دین ودھرم کی باتیں کررہے تھے وہی آج ایک دوسرے پر تن گئے۔ پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے بستی میں اس سانحہ نے فساد کی شکل اختیار کرلی ۔لوگ آپس میں دست و گریبان ہونے لگے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔
دور سنسان سڑک کے بیچوں بیچ چند لوگ واویلا کررہے تھے انہوں نے اس گھمبیر سانحے پر آسمان سر پر اٹھائے رکھاتھا۔ وہ اس گھناونے کام کے لئے ذمہ دار لوگوں کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے چیخ رہے تھے۔ ساری بستی اُمڈ پڑی۔ پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔حقیقت کو لاکھ چھپائو نہیں چھپتی۔ آخر لوگوں نے جب مری ہوئی بے جان لڑکی کی آدھ کھلی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک لاکٹ برآمد ہوا جس میں ان ہی بھیڑیا نما انسانوں میں سے ایک کی تصویر اور اس کا نام کندہ تھا۔
ٹینگہ پورہ نواب بازار سرینگر،فون نمبر9858989900