ڈاکٹر عریف جامعی
زندگی پھولوں کی سیج ہے اور نہ عیش دوام۔ دنیا میں آنکھ کھولتے کھولتے انسان کا چیخ اٹھنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اسے زندگی بھر چیخنے اور کراہنے سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی میں انسان کی مسرتوں اور شادمانیوں کا کوئی انتظام نہیں رکھا گیا ہے۔ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ انسان حزن و ملال اور غم و اندوہ سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکتا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انسان کو صرف خوشیوں سے واسطہ رہے تو وہ اصل حقیقت بھی بھول جائے یا یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس کی تمام عاجزی ختم ہوجائے اور وہ استکبار کا شکار ہوجائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ مسلسل خوشی انسان کو خوشی کی اصل لذت سے ہی غافل کردے۔
حزن و ملال کے یہ وقفے نہ صرف خوشی کی معنویت کو برقرار رکھتے ہیں، بلکہ یہ انسان کو ’’انسان اصلی‘‘ (مین کٹ ٹو دی سائز) بنائے رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ چلچلاتی دھوپ میں چلنے والا مسافر ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں چھپی راحت کو محسوس کرتا ہے اور گرمی کے موسم میں شام کو گھر لوٹنے والا تھکا ہارا محنت کش ہی ٹھنڈے پانی کو خدا کی رحمت تصور کرتا ہے۔ کم عمری میں ماں یا باپ کے سائے سے محروم ہونے والا بچہ ہی پیار کے دو بول سننے کو ترستا رہتا ہے اور جوں ہی کوئی اس کے لئے دامن شفقت پھیلاتا ہے، تو وہ اسے دو جہاں کی نعمت خیال کرتا ہے۔ گمراہی اور فسق و فجور کی گھٹاؤں میں ٹھوکریں کھانے والا انسان ہی رشد و ہدایت کو خدا کی رحمت سمجھتا ہے۔ غرض، اشکوں کی دھاریں ہی انسان کے چہرے کو مسکراہٹوں کا انتظار کرنا سکھاتی ہیں، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو غم کا کسی نہ کسی صورت میں سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
غم اگرچہ جانگسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
تاہم جہاں تک حزن و ملال کا تعلق ہے، اس کا کسی نہ کسی صورت میں اظہار نہایت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان معمول کی زندگی گزارنے کے قابل رہے گا اور نہ ہی یہ معاشرتی سطح پر اپنا کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔ بسا اوقات انسان غم کا اظہار نہ کرکے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غم چھپانے والا انسان کئی عارضوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالموں، دانشوروں اور فلسفیوں نے غمزدوں کو غم کے اظہار پر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ غم کو ہلکا کرنے کے ایک مکمل لائحہ عمل کو ارسطو نے کتھارسس کہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ غم کو غلط کرنے کے طریقوں میں غم کے تجربات کو لکھنا، اپنے کسی مخلص دوست کے سامنے اپنے دکھ بھرے لمحات کو بیان کرنا، ماضی کے حادثات کی یاد تازہ کرنا، کسرت (ورزش) کرنا، مراقبہ کرنا، فنون لطیفہ میں حصہ لینا، موسیقی سے محظوظ ہونا، ڈرامے دیکھنا اور کہانیاں سننا شامل ہے۔ چیخنا، کراہنا اور رونا بھی کتھارسس میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ رونے اور اشک بہانے سے انسان کی غم کے ساتھ ایک نسبت قائم ہو جاتی ہے۔
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان آنکھ کھولتے ہی چیختا ہے۔ یعنی انسان دنیا میں اپنے سفر کی ابتداء ’’رونے دھونے‘‘ سے کرتا ہے۔ علم جنین (ایمبریالوجی) میں اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ رحم مادر میں بچہ نال (پلیسنٹا، ایمبلکل کارڈ) کے ذریعے سانس (آکسیجن) لیتا ہے۔ رحم سے باہر آکر جب بچہ چیختا ہے تو اس کے پھیپھڑے پھول جاتے ہیں، جس سے بچے کا نظام تنفس (ریسپائریشن) بلاواسطہ کام کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا تکسیدی عمل (آکسیجنیشن) بھی شروع ہوجاتا ہے۔ اگرچہ رحم کے مقابلے میں باہر کی سرد ہوا اور جسمانی دباؤ بھی چیخنے کی وجہ ہوسکتی ہے، لیکن یہ چیخ اس لئے مثبت معنی رکھتی ہے کہ اس سے ایک طرف پھیپھڑوں کی صحت کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ نظام تنفس خارج میں نئی شروعات کررہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رونے سے زندگی کی مسکراہٹوں کی ابتداء ہوجاتی ہے۔
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل کو درد آشنا کیجئے
انسان اس وقت بھی چیختا چلاتا ہے جب اسے والدین مزید باہر کی دنیا کی طرف ’’دھکیل‘‘ دیتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بچہ مکتب (مدرسے، اسکول) کا رخ کرتا ہے۔ چونکہ بچے کی کئی آزادیاں سلب ہونے والی ہوتی ہیں، اس لئے یہ نئی دنیا کا رخ کرنے سے ڈرتا ہے! یہاں پر اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کو نہ صرف اپنی آزادی سے محبت ہوتی ہے بلکہ یہ اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے سراپا احتجاج بنتا ہے اور اس کے چھن جانے پر آنسو بھی بہاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مقام کو خیرباد کہتے ہوئے اگرچہ اسے نیا مقام حاصل کرنے کی خوشی ہوتی ہے، لیکن پہلے مقام سے وہ اتنا مانوس ہوچکا ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں ضرور اشکبار ہوجاتی ہیں۔ اس انتقال مقامات میں کئی پیشہ ورانہ عہدے بھی شامل ہیں اور خاندان کی بدلتی ہیئتیں بھی اس میں شمار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقام کار (ورک پلیس) کی تبدیلی، چاہے وہ عام تبدیلی (ٹرانسفر) ہو یا کسی اعلی عہدے پر ترقی کی وجہ سے تبدیلی ہو، دونوں صورتوں میں انسان ملول ہوتا ہے اور اس کی آنکھیں الوداع کہتے ہوئے ضرور نم آلود ہوجاتی ہیں۔ اس طرح جب مشرقی معاشروں میں ایک خاتون نکاح کے وقت اپنے میکے سے رخصت ہوتی ہے تو اس کے والدین کی آنکھیں بھی اشکبار ہوتی ہیں اور وہ خود بھی زاروقطار آنسو بہاتی ہے۔ یہاں پر بھی آنسو خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے تحت بہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ آنسو بھی غبار خاطر ہلکا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ انسان اصل میں پیدائش سے لیکر موت تک حقیقت اعلی کا متلاشی رہتا ہے۔ اگرچہ اس تلاش کی سطحیں مختلف انسانوں کے لئے مختلف ہوتی ہیں، لیکن کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان حقیقت کی تلاش میں محو سفر رہتا ہے۔ آفاق اور انفس میں اس کی تحقیق اور تلاش جاری رہتی ہے۔ تلاش بسیار کے بعد جب حقیقت تجلّی کی طرح اس کے سامنے مبرہن ہوتی ہے تو وہ خدا کی تقدیس و تحمید میں نغمہ سنج ہوتا ہے۔ (آل عمران، ۱۹۱) تاہم حقیقت کا یہ مشاہدہ اس کی آنکھوں کو خیرہ نہیں کرتا بلکہ یہ تجلّی بن کر اس کے دل میں رقت پیدا کرتا ہے۔ نتیجتاً اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ (المائدہ، ۸۳) ابن کثیر کا بیان ہے کہ نجاشی (حکمران حبش)، حضرت سلمان فارسی، حضرت عبداللہ ابن سلام وغیرہ اسی طرح حق کے آگے جھکتے رہے ہیں۔ یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ جب حضرت جعفر ابن ابی طالب نے نجاشی کے سامنے سورہ مریم کی پہلی ۱۹ آیات تلاوت کی تھیں تو وہ اس قدر رویا تھا کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی تھی اور دربار میں موجود پادریوں کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپک کر ان کے صحیفوں پر گرے تھے۔
قرآن نے مؤمنین صادقین اور منکرین کے درمیان اس طرح فرق واضح کیا ہے کہ اول الذکر حق کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں، وہ خشیت الہٰی سے لرز اٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں: ’’اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل، ۱۰۹) اس کے مقابلے میں آخر الذکر کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ آیات الہٰی کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں: ’’پس کیا تم اس کلام پر تعجب کرتے ہو۔ اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔‘‘ (النجم، ۵۹-۶۰) ظاہر ہے کہ ان کا انجام کار رونا ہی ہوگا اور انہیں ہنسنا نصیب نہیں ہوگا۔’’پس انہیں چاہئے کہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کماتے تھے۔‘‘ (التوبہ، ۸۲) جہاں تک مؤمنین کو ملنے والے بدلے کا تعلق ہے، تو خوف خدا سے تر رہنے والی ان کی آنکھیں نہ صرف رونے سے محفوظ رہیں گی بلکہ انہیں عذاب الہٰی کا کوئی کھٹکا نہیں رہے گا۔’’دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی، (ایک) وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئی اور (دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری۔‘‘ (ترمذی)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو ایک فکر، ایک نظریہ یا ایک نصب العین سے محبت ہوجاتی ہے، تو وہ اسی کے لئے جیتا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اسی کے لئے اپنی جان دے دیتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی محب اپنے مطمح نظر یا محبوب سے اس طرح کٹ جاتا ہے یا دور جا پڑ جاتا ہے کہ اس کے پاس شدت احساس کے اظہار کے لئے آنسو بہانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ان حالات میں محب کو دوستوں کی دوستی بھی سکون نہیں دے پاتی۔ اس کے لئے ناصح کی نصیحت بھی بے معنی ہوجاتی ہے۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی غم گسار ہوتا کوئی چارہ ساز ہوتا
یہی وجہ ہے کہ عاشق اب دوستوں کی محفل سے بھی اکتا جاتا ہے۔ وہ اب تنہائیوں کو اپنا ساتھی بنا لیتا ہے۔ وہ حزن و ملال سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے۔ غم ہجر اب اس کی چشموں سے رواں ہوتا ہے۔ اس کی تاریک محفل میں اب یہی اشک جگنو بن کر چراغاں کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے حال سے بے حال نہیں ہوتا، لیکن اس کے حال سے ہر کوئی بے خبر ہوتا ہے۔ وہ کسی سے شاکی نہیں ہوتا، لیکن وہ رونے کی آزادی چاہتا ہے، اور بس۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
یہ آنسو دراصل عاشق کی صداقت کی گواہی یعنی شہادت دیتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل کی تکمیل ہوتے ہیں، جسے کتاب عشق میں ’’درد عرفان‘‘ (جاننے کا درد) کہتے ہیں! جس طرح ایک شہید آدرش کی خاطر اپنا لہو پیش کرتا ہے اور ایک مفکر اپنے قلم کی روشنائی سے اپنے اصول کی آبیاری کرتا ہے، بالکل اسی طرح ایک عاشق آنسو بہا کر معشوق کے لئے اپنی متاع دل وار دیتا ہے۔
نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلبار
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔9858471965
[email protected]