عاصف بٹ
چسوتی(کشتواڑ)//چسوتی پاڈر کشتواڑ ضلع میں بادل پھٹنے سے کم از کم ہلاکتوں کی تعداد میں متاتر اضافہ ہورہا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کو کشتواڑ کے دور افتادہ پہاڑی گائوں چسوتی میں بادل پھٹنے کے بعد ہوئی قیامت خیز صورتحال سے درجنوں ہلاکتیں اور مزید نا معلوم تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔جمعہ کو صرف2 لاشیں بر آمد کی جاسکی۔ حکام نے بتایا کہ اب تک49 لاشیں بر آمد کی جاچکی ہیں جبکہ 47کی شناخت کرلی گئی ہے۔تاہم وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ اس المناک واقعے میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ادھر وزیر اعظم نریندر مودی نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے ساتھ کشتواڑ میں بادل پھٹنے اور سیلاب کی صورت حال کے بارے میں بات کی۔ایکس پرایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا’’کشتواڑ میں بادل پھٹنے اور سیلاب کی صورت حال کے بارے میں جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا جی اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے بات کی، حکام متاثرین کی مدد کے لیے زمین پر کام کر رہے ہیں‘‘۔
چسوتی
جمعرات کو یہاں بادل پھٹنے کے بعد پیش آئی تباہ کن صورتحال کے نتیجے میں ابھی تک ہلاکتوں کے بارے میں وثوق کیساتھ کچھ بھی بتایا نہیں جاسکتا۔بچائو کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے سینئر افسران نے اس نمائندے کو بتایا کہ آفت میں پھنسے لوگوں کے رشتہ داروں کی مدد کے لیے چسوتی سے تقریباً 15 کلومیٹر دور پاڈر میں ایک کنٹرول روم کم-ہیلپ ڈیسک قائم کیا گیاہے۔حکام نے بتایا کہ سانحہ کے بعد سے، ہیلپ ڈیسک کو کئی پریشان کالیں موصول ہوئی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکام ہیلپ ڈیسک پر102سے 150 کے بارے میںکالز موصول ہوئی ہیں، جنہیں لاپتہ قرار دیا گیا ہے لیکن مصدقہ طور پر لاپتہ ہونے والے 69 افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کے اہل خانہ نے اطلاع دی ہے۔ایک اہلکار نے کہا، ہم نے لاشوں کی تصویریں ان کے ساتھ شیئر کی ہیں۔متوفی کی شناخت کے لیے حکام نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے ان کی تصاویر شیئر کیں جس کے نتیجے میں ان میں سے 47کی شناخت ہوگئی ہے۔اب تک 220 سے زائد افراد کو بچا لیا گیا ہے جن میں سے 39 کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ115افراد زخمی ہیں، جو ہسپتالوں میں داخل کئے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ 220سے زائد کو بچا لیا گیا ہے۔حکام نے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی درجنوں لاپتہ ہیں۔بادل پھٹنے سے متاثرہ پٹی سے آگے دو گائوں مچیل اور ہموری میں بھی سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ ان کے موبائل فون کی بیٹریاں تباہی کے بعد بجلی کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک بار رابطہ قائم ہونے کے بعد حکام کو ان لوگوں کے صحیح ٹھکانے کا پتہ چل جائے گا۔حکام نے بتایا کہ تازہ بچائو کارروائیوں سے علاقے میں ملبے اور کیچڑ سے مزید متاثرین کو بھی نکالا جائے گا۔گائوں والوں نے بتایا کہ انہوں نے دریائے چناب میں 10 لاشیں تیرتی ہوئی دیکھی ہیں۔
مالی نقصان
سیلاب، مٹی کے تودے اور بھاری پتھر گرنے نیزملبے کے بہا ئوکے ساتھ، مکانات، دکانیں اور گاڑیاں دب گئے ہیں۔حکام نے بتایا کہ کم از کم 16 رہائشی مکانات بشمول کچھ سرکاری عمارتیں، تین مندر، چار واٹر ملز اور ایک 30 میٹر طویل لوہے کا اور ایک لکڑی کا پل تباہ ہوگئے ہیں۔اسکے علاوہ2درجن گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی تباہ ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے میں 2درجن کے قریب عارضی دکانیں بھی تباہ ہوگئے ہیں۔طوفانی سیلاب نے ایک سیکورٹی کیمپ اور بس سٹینڈ پر کھڑی کئی گاڑیوں کو بھی بہا لیا۔ سیلاب زدہ علاقے کے وسط میں ایک مندر بچ گیا۔بادل پھٹنے کی وجہ سے یاتریوں کے لیے ایک لنگر(کمیونٹی کچن)قائم کیا گیا۔ سیلاب آنے سے مذکورہ لنگر، کئی ڈھانچے بشمول دکانیں اور ایک حفاظتی چوکی بہہ گئی۔مچیل ماتا کے ہمالیائی مندر تک پیدل سفر کے نقطہ آغاز بس سٹینڈ پر موجود کئی گاڑیوں کو سیلابی پانی اور کیچڑ سے شدید نقصان پہنچا۔
بچائو کارروائی
نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف)کی ٹیم جمعہ کو چسوتی پہنچی۔کشتواڑ کے ڈپٹی کمشنر پنکج شرما نے بتایا، “این ڈی آر ایف کی ٹیم اس وقت گائوں میں جاری آپریشن میں شامل ہے۔ وہ دیر رات گلاب گڑھ پہنچی”۔آپریشن کی نگرانی کر رہے شرما نے کہا کہ خراب موسم کی وجہ سے ہیلی کاپٹر نہیں چلائے جا سکے۔حکام نے بتایا کہ دو اور ٹیمیں آپریشن میں شامل ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ فوج تلاش اور بچائو کارروائیوں میں شامل ہو گئی ہے۔ 300 فوجی، وائٹ نائٹ کور کے طبی دستوں کے ساتھ موجود پر ہیں۔