عاصف بٹ
کشتواڑ// 14اگست کی دوپہر پاڈر علاقے کے چسوتی گائوںمیں خوفناک و دل دہلانے والے منظر کے درمیان ایک شخص کی ہمت و حوصلے نے سو افراد کی جان بچائی۔ اسی سانحے والی جگہ سےمحض پچاس فٹ کی دوری پر قایم مڈل سکول چشوتی کے ٹیچر حکم چند نے اپنےسکول کے 60سے زائد طلباء اور کم از کم 45 یاتریوں کو بچانے میں اہم رول ادا کیا لیکن بہت سے لوگوں کی مدد کرنے والا شخص خود غمزدہ تھا۔ جہاں اس نے اس حادثے میں اپنے ہی خاندان کے تین افراد بشمول اپنے بھائی کو بھی کھو دیا جس میں ابتک 63افراد جاں بحق، 120متعدد زخمی اور متعدد ہنوز لاپتہ ہوئے۔اس دوپہر حکم چند یوم آزادی اور جنم اشٹمی کی تقریبات کی ریہرسل کی نگرانی کر رہے تھے۔ ثقافتی سجاوٹ اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر میں مصروف ان کے طلباء کو قریب کے اسی لنگرمیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا جہاں سینکڑوں افراد مارے گئے ۔خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کی ریہرسل کی تکمیل میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے وہ وہاں جانہیں سکےاور چند منٹوں بعد اس جگہ پر موت و تباہی کا مرکز تھا ۔حکم چند نے کہا’’ پہلے میں نے سوچا کہ یہ ایک طیارہ حادثہ ہے،اچانک ہم نے ایک خوفناک آواز سنی۔ کچھ طلباء یہ سوچ کر باہر بھاگے کہ کچھ ہو گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا باہر مت جاؤ،کیا تم نے ہوائی جہاز دیکھا ہے ،شاید یہ یاترا کے لیے صرف ایک ہیلی کاپٹر ہو ۔کچھ ہی دیر بعد بجلی چلی گئی۔اس کے بعد بڑے پیمانے پر دھماکے جیسی آواز آئی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب میں گیٹ پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مٹی کا ایک بہت بڑا طوفان انسانی جسم کے اعضاء کو لے کر جا رہا ہے۔ یہ تصور سے باہر تھا۔مجھے گھبراہٹ ہوئی ،میںنے سکول میں کم عمر بچوں کو اندر کھینچا اور بڑے طلباء کو ہدایت کی کہ وہ انہیں اونچے میدانوں کی طرف لے جائیں۔ ہمارے پاس صرف چند منٹ تھے۔ گاؤں والوں نے خطرے کی گھنٹی بجائی اور میں جانتا تھا کہ انتظار کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ہر سیکنڈ اہمیت رکھتا ہے،میری ہدایات کی بدولت تمام 60طلباء کو محفوظ طریقے سے اونچی جگہ پر پہنچا دیا گیا ‘‘۔انہوںنے مزید کہا کہ جلد ہی والدین سکول پہنچےاور دیکھا کہ ان کے بچے پہلے ہی محفوظ مقام پر پہنچ چکے ہیں،ہم یہیں نہیں رکے ،مقامی ڈرائیوروں اور دیہاتیوں کی مدد سے میںنے 45سے زیادہ پھنسے ہوئے یاتریوں کو بچایا جو کہ مٹی کے تودوں میں پھنس گئے تھے۔ گاڑیوں اور عارضی مدد کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے لوگوں کو ملبے سے نکالا اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان پہلے گھنٹوں میں کوئی انتظامیہ نہیں تھی کوئی بڑی ریسکیو ٹیمیں نہیں تھیں کیونکہ یہ علاقہ ضلع صدر مقام سے کافی دور ہے، صرف ہم مقامی لوگ اپنے نقصانات کے باوجودیہاں زخمیوں اور پھنسے ہوئے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔انہوںنے کہا کہ طلباکا لنگر میں لنچ کے لیے دیری انکی زندگی اور موت کے درمیان فرق بن گیا، ریہرسل کرنے والے طلباء میں ایک نوجوان لڑکی بھی تھی جس نے قدرتی آفات میں کیسے زندہ رہنا ہے، کے موضوع پر تقریر تیار کی تھی،گھنٹوں بعد وہ اور اس کے ہم جماعتی اس سبق کو حقیقی زندگی میں جی رہے تھے۔ حکم چند ، جسے اب گاؤں میں ایک ہیرو کے طور پر سراہا جاتا ہے ،خود مایوس ہے۔وہ کہتے ہیں’’ میں نے بہت سے لوگوں کو بچایا لیکن میں نے اپنا بھائی کھو دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے آپ کو خوش قسمت کہوں یا بدقسمت ‘‘۔سرکاری امدادی کارروائیوں میں تیزی آنے سے پہلے کے تاریک ترین گھنٹوں میں حکم چند جیسے عام دیہاتی غیر معمولی ہیرو بن گئے۔ دماغ ہمت وذہانیت کی موجودگی کے ساتھ انہوں نے سینکڑوں افراد کی کو یقینی طور موت سے بچا کر اہم رول ادا کیا۔