بڑا مبارک ہوتاہے وہ دن، جب کوئی نیاخانساماں گھرمیں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلاجائے!چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بارآتے ہیں اورتلخی کام ودہن کی آزمائش کرکے گزرجاتے ہیں،اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر، صرف دو ہی موقعوں پرنصیب ہوتاہے ع
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
عام طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ بدذائقہ کھاناپکانے کاہنر صرف تعلیمیافتہ بیگمات کوآتاہے ۔لیکن ہم اعدادوشمارسے ثابت کرسکتے ہیں کہ پیشہ ورخانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہرشخص یہ سمجھتاہے کہ اسے ہنسنااورکھاناآتاہے۔اسی وجہ سے پچھلے سوبرس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کرسکے۔ایک دن ہم نے اپنے دوست مرزاعبدالودودبیگ سے شکایتاً کہاکہ اب وہ خانساماں جوسترقسم کے پلاوپکاسکتے تھے،من حیث الجماعت رفتہ رفتہ ناپیدہوتے جارہے ہیں۔جواب میں انھوں نے بالکل الٹی بات کہی۔کہنے لگے’’خانساماں دانساماں غائب نہیں ہورہے،بلکہ غائب ہورہاہے،وہ سترقسم کے پلاوکھانے والاطبقہ جوبٹلراورخانساماں رکھتاتھااوراڑوکی دال بھی ڈنرجیکٹ پہن کرکھاتاتھا۔اب اس وضع دارطبقے کے افرادباورچی نوکررکھنے کے بجائے نکاح ثانی کرلیتے ہیں۔اس لیے کہ گیاگزراباورچی بھی روٹی کپڑااورتنخواہ مانگتاہے، جب کہ منکوحہ فقط روٹی کپڑے پرہی راضی ہوجاتی ہے،بلکہ اکثروبیشترکھانے اورپکانے کے برتن بھی ساتھ لاتی ہے‘‘۔
مرزااکثرکہتے ہیں کہ خودکام کرنابہت آسان ہے مگردوسروں سے کام لینانہایت دشوار۔بالکل اسی طرح جیسے خودمرنے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن دوسروں کومرنے پرآمادہ کرنابڑامشکل کام ہے۔معمولی سپاہی اورجرنیل میں یہی فرق ہے۔ اب اسے ہماری سخت گیری کہیے یانااہلی یاکچھ اورکوئی خانساماں ایک ہفتے سے زیادہ نہیںٹکتا۔ایسابھی ہواہے کہ ہنڈیااگرشبراتی نے چڑھائی توبگھاررمضانی نے دیااوردال بلاقی خاں نے بانٹی۔ ممکن ہے مذکورالصدرحضرات اپنی صفائی میں یہ کہیں ع
ہم وفادارنہیں توبھی تو دل دارنہیں!
لہٰذا ہم تفصیلات سے احترازکریں گے۔ حالانکہ دل ضرورچاہتا ہے کہ ذراتفیصل کے ساتھ من جملہ دیگرمشکلات کے اس سراسیمگی کوبیان کریں جواس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہم سے ازروئے حساب یہ دریافت کرنے کوکہاجائے کہ اگرنوکرکی ١٣دن کی تنخواہ ٠٣روپے اورکھاناہے تو ٩گھنٹے کی تنخواہ بغیرکھانے کے کیاہوگی؟ایسے نازک مواقع پرہم نے سوال کوآسان کرنے کی نیت سے اکثریہ معقول تجویزپیش کی کہ اس کوپہلے کھاناکھلادیاجائےلیکن اول تووہ اس پرکسی طرح رضامند نہیںہوتا۔دوم کھاناتیارہونے میں ابھی پوراسواگھنٹہ باقی ہے اوراس سے آپ کواصولاًاتفاق ہوگاکہ 9گھنٹے کی اُجرت کاحساب ٤١ ٠١گھنٹے کے مقابلے میں پھربھی آسان ہے۔ہم دادکے خواہاں ہیں نہ انصاف کے طالب،کچھ تواس اندیشے سے کہہ کہیں ایسانہ ہوکہ جن سے خستگی کودادپانے کی توقع ہے وہ ہم سے زیادہ خستہ تیغ ستم نکلیں۔اورکچھ اس ڈرسے کہ ع
ہم الزام ان کودیتے تھے قصوراپنانکل آیا
مقصدسردست ان خانساماوں کاتعارف کراناہے جن کی دامے درمے خدمت کرنے کاشرف ہمیں حاصل ہوچکاہے۔اگرہمارے لہجے میں کہیں تلخی کی جھلک آئے تواسی تلخی کام ودہن پرمحمول کرتے ہوئے،خانساوں کومعاف فرمائیں۔خانساماں سے عہدوفااستوارکرنے اوراسے ہمیشہ کے لیے اپناغلام بنانے کاڈھنگ کوئی مرزاعبدالودودبیگ سے سیکھے۔یوں توان کی صورت ہی ایسی ہے کہ ہرکس وناکس کابے اختیارنصیحت کرنے کوجی چاہتاہےلیکن ایک دن ہم نے دیکھاکہ ان کادیرینہ باورچی بھی ان سے ابے تبے کرکے باتیں کررہاہے۔ہماری حیرت کی انتہانہ رہی ،کیوں کہ شرفامیں اندازگفتگومحض مخلص دوستوں کی ساتھ رواہے۔جہلاسے ہمیشہ سنجیدہ گفتگوکی جاتی ہے۔ہم نے مرزاکی توجہ اس امرکی طرف دلائی توانھوں نے جواب دیاکہ میں نے جان بوجھ کراس کواتنامنہ زوراوربدتمیزکردیاہے کہ اب میرے گھرکے سوااس کی کہیں اورگزرنہیں ہوسکتی۔کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میںآنکلااورآتے ہی ہمارانام اورپیشہ پوچھا۔پھرسابق خانساماوں کے پتے دریافت کیے۔نیزیہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی باہرمدعوہوتے ہیںاورباورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آوازسے ہمارے اعصاب اوراخلاق پرکیااثرمرتب ہوتاہے۔ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی اگرآپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑپرجائیں گے توپہلے’’عوضی مالک ‘‘پیش کرناپڑے گا۔کافی رودکدکے کے بعدہمیں یوں محسوس ہونے گاجیسے وہ ہم میںوہی خوبیاں تلاش کررہے ہیں جوہم ان میں ڈھونڈرہے تھے۔یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اورکام کے اوقات کاسوال آیاتوہم نے کہاکہ اصولاًہمیںمحنتی آدمی پسندہیں۔خوبیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھرکے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔کہنے لگے’’صاحب!ان کی بات چھوڑئیے۔وہ گھرکی مالکن ہیں ۔میں تونوکرہوں‘‘!ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کردی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔جھاڑونہیں دوں گا۔ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔میزنہیں لگاوں گا۔دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاوں گا۔
ہم نے گھبراکرپوچھا’’پھرکیاکروگے؟‘‘
’’یہ توآپ بتائیے۔کام آپ کولیناہے۔میں توتابع دارہوں‘‘۔
جب سب باتیں حسب منشاءضرورت (ضرورت ہماری،منشاان کی)طے ہوگئیںتوہم نے ڈرتے ڈرتے کہاکہ بھئی سوداسلف لانے کے لیے فی الحال کوئی علیٰحدہ کوئی علیٰحدہ نوکرنہیں ہے،اس لیے کچھ دن تمھیں سودابھی لاناپڑے گا۔تنخواہ طے کرلو۔
فرمایا’’جناب !تنخواہ کی فکرنہ کیجئے۔پڑھالکھاآدمی ہوں۔کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا‘‘۔
’’پھربھی؟‘‘
(بقیہ منگلوار کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)