سرینگر پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کے لئے جہاں سرینگر ،بڈگام اور گاندربل اضلاع میں سرکاری اعلان کے مطابق۹؍اپریل کوووٹ ڈالنے اور حریت کانفرنس کی طرف سے ووٹنگ کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے پیش نظر جہاں مختلف مقامات پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ،وہیں بیشتر مقامات پرمتشددانہ واقعات بھی رونما ہوئے۔ حلقہ انتخاب چرار شریف سے منسلک تمام پولنگ بوتھوں پر بھی کم و بیش یہی کیفیت طاری تھی ۔ صبح کے آٹھ بج چکے تھے ، متذکرہ حلقہ میں اگرچہ ووٹروںکی کل تعدا اُنانوے ہزار نو سو ستانوے (۸۹۹۹۷) تھی ، میں سے صرف چھیاسی(۸۶) ووٹوں کا استعمال ہوچکا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چرار شریف حلقہ انتخاب میں عشروں سے ہونے والے سبھی الیکشنوں کے برعکس آج کہیں بھی ووٹروں کی کوئی لائین ہی موجود نہ تھی ۔بقول ناقدین چرار شریف حلقے سے منسلک تمام پولنگ بوتھوں پر ستر سالہ پرانی روایت کے الٹ ہو رہا تھاکیونکہ اکثر پولنگ بو تھوں پر اُلوبول رہے تھے۔ وجہ عیاںہے کہ زیادہ تر لوگ بائیکاٹ اپیل پر اپنے گھروں میںہی خیر منا رہے تھے ۔ الیکشن کے موقع پر یہاں کی صورت حال کے سوال کا ہر کوئی یہی جواب دیتا تھا :۔’’ جس مقصد کیلئے آج تک ووٹ ڈالتے چلے آرہے تھے اس کا صلہ ملا ہی کیا ہے ۔بجلی فراہم ہوتی نہ پینے کا پانی ملتا ہے،ملازمت ملتی ہے نہ روزگار۔روز بہ روز کے بڑھتے ہوئے مسائل کے انبار تلے لوگ دب چکے ہیںاور اس پرستم کہ سرکاری فورسز کی زور وزبردستی اور ظلم وستم سے پریشا ن زدہ لوگوںکا انتہائی بُرا حال ہونے کے سوا اور کچھ ہو اہی کیا ہے ؟اس لئے ۹ ؍ اپرہل کو حلقہ چرار شریف کا ہر فرد، چاڈورہ کے مقام پر حال ہی میں فورسز کے ہاتھوںشہید ہونے والے نوجوانوں کو یاد کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔‘‘ دیکھنے میں یہ بھی آرہا تھا کہ پولنگ بوتھوں کی کچھ خاصی دوری پر کچھ کم عمر بچے اوربعض نوجوان اس صورت حال کا باریک بینی سے مشاہدہ کررہے تھے۔ کم سِن بچوں سے لے کربوڑھے بزرگ تک الگ الگ جگہوں پر الگ الگ ٹولیوںمیں گپ شپ ، تبصرے یا بحث وَ مباحثے میں مشغول تھے جب کہ کئی مقامات پر مقامی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ایجنٹ حضرات ووٹروں کو لبھانے کی کوششیںکرتے ہوئے بھی نظر آرہے تھے ۔کئی جگہوں پر نوجوانوں کی طرف سے پولنگ بوتھوں کی طرف اُکا دُکا پتھر پھینکنے کی اطلاعات بھی مل رہی تھیںجب کہ یہاں بھی کچھ اسی طرح کے معمولی واقعات دیکھنے کو ملے۔ کوئی ایسا بڑاواقعہ یا مسئلہ سامنے نہیں آیا تھا کہ جسے جمو ں وکشمیر پولیس سلجھانے میں ناکام ہوجاتی۔ جیسا کہ چرار شریف کے تین مقامات پر بیک وقت تین الگ الگ جگہوں پر یہاں کی پولیس پارٹیوں نے ثابت کر دکھایا تھا کہ وہ پہلے کی طرح اس روز بھی ہرمعاملہ کو سلجھا سکتی ہے ۔یہاںاس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ ریاستی پولیس توکشمیر میں اب تک رونما ہونے والے مختلف قسم کے حالات وواقعات سے نمٹنے کے لئے ایک دم گولی چلانے کے بجائے مختلف حکمت عملیوںاور نت نئے حربوں سے کام چلاتی آئی ہے لیکن اس بار ضمنی انتخاب کے موقعہ پر ریاستی پولیس کے بجائے غیر ریاستی سپیشل سینا فورسزجو کہ اُترا کھنڈ،ہماچل پردیش، امرتسر اور جموں سے لائی گئی تھی اورجو یہاں کی اصل صورت حال سے بالکل ناواقف ہے،تعینات کی گئی تھی۔ اسی پس منظر میں یہاں کے لوگوں کوبذریعہ فون اطلاع ملی کہ ڈھلون چرار شریف کے گورنمنٹ ہائی سکول میںقائم پولنگ بوتھ پر تعینات راشٹریہ رایفلز کے اہلکاروں نے پولنگ بوتھ کی طرف کچھ پتھر پھینکنے والے بچوں کوجوابی پتھر باز ی سے پسپا کردیا ہے ،جس کے نتیجہ میں کچھ نوجوان بھی مشتعل ہوکر پولنگ بوتھ پر پتھراو کرنے لگے ۔اس کے جواب میں وہاں تعینات سی آر پی اہلکارو ں نے کسی مجاز آفسر یا موقع پر موجود پریذایڈنگ آفسر سے کوئی اجازت لئے بغیر پولنگ بوتھ سے تقریباًدوسو فٹ کی دوری پر موجود تماشائیوں پر براہ راست بندوق کے دہانے کھول دئے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ کئی لوگ گولیوں کا نشانہ بنے لہو لہاں ہوکر سڑک پر تڑپ رہے تھے ،ہر طرف رنج و غم اور چیخ وپکار کی صدائیں گونج رہی تھی اور رنج و الم کی فضا میں لوگوں نے زخمیوں کو کاندھوںپر اٹھاکر ہسپتال پہنچا دیا ۔ڈھلون گائوں کے ہی ایک عمر رسیدہ شخص عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ کچھ کم عمر بچے چھوٹی چھوٹی کنکریاں اُس بوتھ کی طرف مارتے تھے۔ آرا ٓر اہل کار تو پہلے چھوٹے بچوں کی اس حرکت پر ہنس رہے تھے اور وہ بھی بچوںکی طرف پتھر مار رہے تھے۔ دوسرے تماشہ بینوں کی طرح میں بھی بخوبی نزدیکی ا سکول احاطے کے قریب یہ منظردیکھ رہا تھا اور دوسرے لوگوں کی طرح ایسا کرنے والوں کو روکتاٹوکتا تھا لیکن اسی بیچ اچانک مجھے ایسا لگا کہ شاید آسمان سے کوئی بڑی بجلی گری جب فورسز کے دوتین اہلکاروں نے سڑک کے اُس پار موجود تماشہ بینوں کی طرف راست اور ٹارگٹ فائرنگ سے موقع پر ماتم برپا کردیا۔ریاستی پولیس تو یہاں تھی ہی نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کئی نوجوان گولیاں لگتے ہی زمین پر درد وکرب کے ساتھ رینگ رہے ہیں ۔دو تین منٹ میںگولیوں کے دس بارہ راؤنڈ چلاکر فورسز اہلکار پولنگ بوتھ میں داخل ہوکرآرام سے بیٹھ گئے۔ اگرچہ زخمیوں میں سے ایک شدید زخمی ساتویں جماعت کے ہونہار اور قابل ترین طالب علم فیضان فیاض کو لوگوں نے فوری طور پکھر پورہ علاج ومعالجہ کے لئے پہنچایا تاہم وہاں موجود ڈاکٹر نے اسے مردہ قرار دیا۔وہیں کچھ لوگوں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک نجی گاڑی میں دوسرے شدید زخمی نوجوان عباس جہانگیر کو بھی انتہائی نازک حالت میں چاڈورہ ہسپتال پہنچاد یا لیکن تب تک وہ بھی اپنی زندگی کی آخری سانسیں بند کرچکا تھا ۔ پولیس نے میت اپنے قبضے میں لے کر شام کے وقت اسے لواحقین کے حوالے کردیا۔ عباس احمد راتھر کی عمر صرف اُنیس سال بتائی جاتی ہے۔لواحقین کے مطابق الیکشن کے موقع پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہائی اسکول سے قریب دوسو دس فٹ کی دوری پر موجود ایک اُونچے ٹیلے پر نیچے کا نظارہ دیکھ رہا تھا، کچھ وردی والوں پر چھوٹے بچوں نے اُکا دکا پتھر پھینکنے شروع کئے‘ تو انہیں منتشر کرنے کے لئے بغیر کسی جوابی پتھراؤیا ٹیر گیس شلنگ یا لاٹھی چارج کے یہاں ڈیوٹی دے رہے اہل کاروں نے ان بچوں پربندوق کے دہانے کھول دئے۔ لواحقین کے مطابق جب ہر طرف سے چیخ وپکار اُٹھی تو گھر سے باہر آتے ہی ہمیں یہ افسوس ناک خبر ملی کہ گھر کے لخت جگر عباس جہانگیر کوگولیوں سے بھون ڈالا گیا ہے ،جسے خون میں لت پت نیم مردہ حالت میںلوگوں نے گاڑی میں بھر کر ہسپتال لے جایاگیا ہے ۔اس کی والدہ اور اکلوتی بہن کو یہ درد ناک خبر ملی تو دونوںپر گویا آسمان ٹوٹ پڑا، پورا گاؤں سڑک پر اُمنڈ پڑا‘ احتجاجی جلوس برآمد ہوگیا،اس دوران پریذائیڈنگ آفسر نے پولنگ بند کرکے اپنا ساراڈیرا گول کیا تھا۔ عباس احمد نے سال ۲۰۱۶ء میں میٹرک پاس کیا تھا‘ والدین کی خواہش کے مطابق تعلیم جاری رکھتے ہوئے وہ کے اے ایس کرنا چاہتا تھا، اُس کے پاس سب کچھ تھا، سوشیالوجی کا سبجکٹ بڑے شوق سے اُس نے چنا تھا‘ لیکن درد ناک بات یہ ہے کہ راتھر خاندان میں سب سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے والا یہ نورِ چشم جب ایک چھوٹی پرائیویٹ گاڑی کی سیٹ پر خون میں لت پت اپنی شباب بھری زندگی کے ساتھ آخری جنگ لڑرہا تھا، اس وقت گھر میں اس کی بہن اپنے بھیاجہانگیر کے پتلون کا پریس کررہی تھی کیونکہ بھیا کو پاپا کیلئے دن کے دو بجے کچھ چیزیںچرار شریف بازار سے لانے کیلئے جانا تھا۔اپنے گھر کے صحن میں ا سکوٹر بھی سواری کے لئے تیار تھا‘ لیکن اُس کی بہن نے جب اپنے بھیا کے بارے میں سنا تو غم وصدمے سے نڈھال ہوکر چکر کھاتے ہی زمین پر گرگئی۔ اس کے باپ کی کمر تو سال ۲۰۱۴ء کے دوران ہی اس وقت ٹوٹ چکی تھی کہ جب اس کے پہلے فرزند جو پیشے سے سافٹ ویئر انجینئر تھا ،چاڈورہ کے مقام پر قتل کردیا گیا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عباس جہانگیر گولی لگنے کے ساتھ ہی ٹیلے سے نیچے کی طرف گرکر سڑک پر خون میں لت پت پڑا تھا۔ہم لوگوں نے اسے فوری طور اٹھانے کی کوشش کی، لڑکا جوان تھا، سر پر گولی پیوست ہوچکی تھی اور سارا خون جسم سے باہر آرہا تھا ۔ چنانچہ جب جہانگیر کی ہلاکت کی خبر پھیل گئی تو پورے علاقے کے لوگ گھروں سے باہر آگئے اور زور دار احتجاج کرنے لگے۔دن بھریہ سلسلہ بڑھتا گیااور نصف رات تک احتجاجی ماحول اور سوگواری کی فضا قائم رہی۔ غرض ڈھلون کے دوہرے قتل نے قیامت صغریٰ کی صورت اختیار کر لی ،ہر مقام پر تناؤ اور کشیدگی پھیل گئی‘ فورسزکے ساتھ دوبدو لڑائی مختلف مقامات پر یکایک شروع ہوگئی کہ جو محض دو گھنٹوںمیں پورے بڈگام ضلع تک وسیع ہوگئی۔ عباس کی میت قریب چھ بجے اس کے گھر لائی گئی ، اس کے نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔محمد عباس راتھر المعروف عباس جہانگیر کی عمر صرف اُنیس(۱۹) سال تھی ‘جموں وَ کشمیر آرمڈ پولیس میں گذشتہ تنتیس سال سے بحیثیت پولیس کانسٹبل کام کررہے ڈھلون چرار شریف کے سکونت پذیر فتح محمد راتھر کی یہ تیسری اولاد تھی۔ فتح محمد کا سب سے بڑا فرزند نثار احمد راتھر زمینداری کا کام کررہا ہے جب کہ دوسرا فرزند مدثر احمد راتھر جوکہ ایک سافٹ ویر انجینئر تھا، وہ کشمیر سے باہر بھی دبئی میں اپنی قابلیت کا لوہا منواچکا تھا‘ سال ۲۰۱۴ء میںوہ دبئی سے واپس لوٹ کر جب گھر پہنچا تھا تو نہ صرف گھر میں شادیانہ منایا گیا بلکہ پورے گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑی گئی۔رشتہ داروں ، اڈوس پڑوس اور دوستوں نے کئی روز تک اسے دعوتوں پر بلایااور گھر والوں کے لئے خوشی و مسرت کا یہ سلسلہ دو ماہ تک جاری رہا ۔تقریباً دو ماہ بعد اپنے والدین سے اجازت حاصل کرکے مدثر احمد کچھ دوستوں سے ملنے کیلئے اسکوٹرپر چاڈورہ چلا گیااور پھردوبارہ واپس زندہ نہیں آیاکیونکہ چاڈورہ روانگی کے ساتھ ہی اس کے فون کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔گھر والوں کو تشویش لاحق ہوئی ، جب کسی جگہ سے مدثر کے ٹھہرنے یا موجود ہونے کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی توعزیزوں،رشتہ داروں ،ہمسایوںاور احباب و اقارب نے اس کی تلاش شروع کردی۔مدثر کے والد فتح محمد جوکہ ملازمت کے سلسلے میں جموں میں ڈیوٹی انجام دے رہے تھے ،کو بھی اپنے بیٹے کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی اور ساتھ ہی چرار شریف پولیس تھانہ میںمدثر احمد کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔پولیس نے اس کی باز یابی کی کارروائی ہنگامی بنیادوں پر شروع کردی لیکن بدقسمتی سے جلدی میں بھی دیر ہوچکی تھی اورصرف دو روز بعد چاڈورہ کے ایک سنسان کھیت میںانجینئرمدثر احمد راتھر کی خون میں لت پت مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔ دوماہ قبل جس گاؤں میں اس کی دبئی سیو اپسی پر خوشیوں کا ماحول چھا گیا تھا ،وہ اچانک ماتم میں بدل گیا ۔ غم و الم کے اس ماحول میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے پولیس سے قتل میں ملوث افراد کو فوری طور گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ر ہے مگر جانے والا کبھی واپس آتا ہے ؟، کانسٹبل فتح محمد ہنگامی حالات میں کشمیر پہنچ چکا تھا، جب قانونی لوازمات پورا کرنے کے بعد لاش لواحقین کے سپرد کی گئی تو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے آبائی گائوں پہنچا کر مدثر کی تجہیزوتکفین کی گئی،ہزاروں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کرکے اشکبار آنکھوں سے وداع کرتے ہوئے راتھر پورہ ڈلون میں واقع قبرستان میں دفن کیا ۔ اگرچہ اس بے دردانہ قتل کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہنے سے معاملہ عدالت تک پہنچ گیا تھا لیکن تین سال گزرجانے کے بعد بھی مدثر کے والدین کو انصاف نہ مل سکااورآج بھی وہ انصاف کے منتظر ہیں۔ابھی یہ انتظار ختم بھی نہ ہو اکہ ۹ ؍ اپریل کو ایک اور قیامت اس کم نصیب کنبے پر اس وقت ٹوٹ پڑی میں جب فورسز نے اُن کے دوسرے لال عباس جہانگیر کو ہمیشہ کے لئے ان سے چھین لیا۔ مرحومین کے والد فتح محمد کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک انہیں جس چیز کی سب سے زیادہ امید تھی اس کا نام’’انصاف ‘‘ہے لیکن ہمیں وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا ہے۔ اب جب کہ میرے دوسرے لال عباس کو بھی فور سز نے مجھ سے چھین لیا ہے ،اب میرے پاس رہاہی کیا ہے ماسوائے افسوس در افسوس اور غمگینی وسینہ کوبی کے۔مجھے بس اپنے پیدا کردینے والے خدائے برتر و بالا جل شانہ پر مکمل یقین ہے کہ وہی میرے ساتھ ضرور انصاف کرے گا اور کوئی نہیں،میں اہل وطن سے عاجزانہ التجا کرتا ہوں کہ وہ میرے لخت ہائے جگر کیلئے بارگاہ الٰہی میں دعائے مغفرت کیلئے اپنے ہاتھ اُٹھائیں۔ اللہ تبارک تعالی ہمیں اپنے نورِ رحمت سے چہارسو فیض یاب فرمائے ۔آمین
ادھر اسی سانحہ میں جان بحق ساتویں جماعت کے ہونہار طالب علم فیضان فیاض کے لواحقین کے مطابق اُن کا لخت جگر صبح ساڑھے آٹھ بجے یہ کہہ کر گھر نکلا کہ الیکشن ہورہا ہے ، ٹیلے پرتماشہ دیکھوں گا۔فیضان اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ پولنگ بوتھ سے تین سو ساٹھ فٹ کی دوری پر موجود ایک پہاڑی ٹیلے پر پولنگ بوتھ کا نظارہ دیکھ رہا تھا ۔اس جگہ سے کچھ کوس دور ی پر جمع کچھ چھوٹے بچے پولنگ بوتھ کی طرف اِکا دُکا پتھر ماررہے تھے تاہم یہ کوئی ایسی شدید سنگ باری نہیں تھی جس سے فورسز اہل کارخوفزدہ ہوتے یا مشتعل ہوجاتے۔ اُس جگہ موجود ایک طالب علم شہزاد سلطان نے بتایا کہ اس معمولی سنگ بازی کے خلاف کاروائی میں فورسز نے نہ لاٹھی چلائی ،نہ ٹیر گیس کا استعمال کیا بلکہ اچانک براہ راست گولیوںکا استعمال کیا ،ہر طر ف چیخ و پکار بلند ہوئی اور بھگڈرمچ گئی اور لوگ ہکا بکا رہ گئے۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ڈیوٹی پر تعینات فورسز اس طرح کا وحشیانہ کھیل کھیلے گی۔میرے دوست فیضان کے سر میں گولی لگ گئی تھی جو چہرے کے دائیں لب کو چیرکر نکل گئی تھی اور اس معصوم کو دن کے ڈھائی بجے راتھر پورہ کے مزار شہدا ء میں سپرد خاک کیا گیا ۔اس کے جنازے میں شامل مختلف علاقوں کے ہزاروں لوگوں کی آنکھیں پُر نم تھیں،ہر طرف آہ و بکاہ کے ساتھ ساتھ آزادی اور اسلام کے حق میں نعرے بازی ہورہی تھی۔اس صورت حال کے پیش نظر پولیس نے چاڈورہ کے مقام پر عباس جہانگیر کی میت شام ہونے تک روک رکھی تھی۔ اپنے معصوم فیضان کے غم میں اس کی والدہ ظریفہ بی بی اپنا حال ہوش کھو بیٹھی ہے اور اسی عالم میں ارباب ِ اقتدار سے سوال کررہی ہے :مجھے میرا لال واپس لوٹادو ،عمر بھر ممنون احسان رہوں گی۔
۔۔۔ چرارِ شریف بڈگام کشمیر