Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

چدمبرم نے کیا کہا؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 9, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
’’ تمہارا یہ نام نہیں ہونا چاہے تھا۔ تم اس مقدس نام کے لائق نہیں ہو۔آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ بہت جلد ہونے کو ہے۔ وہ وقت عنقریب آرہا ہے۔ جیسے نوٹ بندی سے متعلق اعلان کیا گیا تھا۔ آرمی چیف کا بیان اس سلسلے کا پہلا عندیہ مان لو۔ آئی ایس آئی ایس نہیں، پاکستان کے جھنڈے نہیں۔ اب اپنے دنوں کی گنتی شروع کرلو، مہینوں کی بات ہی نہیں ہے۔‘‘  اب تک میں نے ارادہ بدل کر کرنال کے دوست کے پوسٹ کا یوں جواب بھیج دیا۔’’ برطانیہ نے ۱۸۴۶ء میں کشمیر کو فروخت کردیا تھا۔ لیکن ہم نے سخت جدوجہد کرکے اس سودا کو رد کروایا۔ اس طرح سے جموں کشمیر کے تمام باشندوں کو کھلی فضائوں میںسانس لینے کا موقعہ ملا تھا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی اب دوسرے دوست سے بھی مخاطب ہوا۔ ’’ تم کو میرے نام سے کیا ڈر محسوس ہورہا ہے۔ میں نے نہ تمہاری ذات کے خلاف کوئی لفظ لکھا ہے اور نہ ہی تمہارے خیالوں کی دنیا میں مداخلت کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ وفاقی آئین کا ایک حصہ ہے اور ہمیشہ رہنے کیلئے لکھا گیا ہے۔ہم اس کو پھر سے بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں تاکہ جموں کشمیر کے تمام شہری مساوی طور مستفید ہو سکیں۔ اطمینان رکھ لو کہ دفعہ ۳۷۰ ہٹانے کا کسی میں دم نہیں ہے ۔ نو ٹ بندی کے نتیجے میں ایک سو سے زائد شہریوں کو اپنی کمائی کے پیسے وصول کرنے کا انتظار کرتے کرتے سڑکوں پر جان دینا پڑی۔ معصوم شہریوں کو آرمی کی طاقت اور کمانڈر کے بیان کے حوالے سے ڈرانا دھمکانا چھوڑ دو‘‘۔ اس پوسٹ کے جواب میں اُس کا لکھنا تھا۔’’ میں تمہارے نام سے نہیں ڈرتا ہوں۔کاش تم نے معصوم پنڈتوں کی بے حرمتی اور اُن کا قتل عام ہوجاتے وقت اسی طرح کے احساسات کا اظہار کیا ہوتا،تو حالات کچھ اور ہوتے‘‘۔ اس پوسٹ کے ردعمل میں، میں نے یوں جواب بھیج کر رابطہ منقطعہ کرنے کی بھی بات کی۔’’ تم کس بنیاد پر میرے خلاف اس طرح کے الزامات عائد کرتے ہو۔ کیا تم مجھے جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ اپنے ذرایعہ سے پہلے میری ذات کے بارے میں معلومات حاصل کرلو۔ تب تک رابطہ منقطع‘‘۔اب تک پہلے دوست ( کرنال ) کا ایک اور پوسٹ آیا تھا۔’’ علی انکل، لیکن (سارے) کشمیر کا مسلمان ہوجانا ہی موجودہ مسلے کی بنیاد بنا ہوا ہے‘‘۔ میں لاکھ کوششوں کے باوجود بھی پنڈت دوست کی بودو باش کے حالات نہیں جان سکا۔ وہ کشمیری پنڈت نوجوان شائد کشمیر سے باہر ہی تولد ہوا ہے ۔ پنڈت پرادری کی نئی نسل میں اکثریت سے اب وہی لوگ شامل ہیں ،جو وادی سے باہر غیر کشمیری ماحول میں پیدا ہوئے ہیں۔اُسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور زیادہ تر نوجوان ٹوٹی پھوٹی کشمیری بولتے ہیں۔اُن کو کشمیر کی یاد ضرور ستاتی ہوگی، پر وہ کشمیر لوٹنے کیلئے شائد ہی تیار ہوں گے۔لیکن اُن کو ۱۹۹۰ء کے آس پاس پنڈت برادری کا کشمیر کو خیرباد کرنے کے اصل وجوہات سے بے خبر رکھنا ہر ایسے شخص کا مشغلہ رہا ہے، جو جموں، دہلی اور دیگر شہروں میں مختلف لیبل چڑھائے تنظیموں کے روح روان بنے ہوئے ہیں اور وطن واپس لوٹنے کی تڑپ لئے پنڈت سماج کا استحصال کررہے ہیں۔ وہ استحصالی عناصر اپنا روزگار چالو رکھنے کے ارادے سے ہی نئی نسل کو اپنے بزرگوں کے وادی چھوڑنے کے اصل وجوہات سے باخبر نہیں ہونے دیتے ہیں۔یہ دوطرفہ کھیل بنا ہوا ہے اور پیر پنچال کے اس طرف بھی کشمیر مسلے کی حقیقت کومسخ کرنے کی کوششوں میں مصروف کچھ لوگوں کا کاروبار چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں ملی ٹنسی کا کھیل ۱۹۸۴ء میں عوام کی چنی ہوئی حکومت کو بزور طاقت گرانے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔کانگریس کے بل پر شاہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ریاست میں ہر طرف افراتفری پھیلنے لگی تھی۔ نئے گورنر جگ موہن کے آمرانہ و غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور اقتدار کیلئے غلام محمد شاہ اور مفتی سعید کے درمیان رسہ کشی کے نتیجے میں ایک جانب عوام الناس مرکزی حکومت سے بیزار ہوتے گئے اور دوسری جانب اُلجھنوں میں پھنسی ریاست کی سرکار نقص امن کی کاروائیوں کے خلاف خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ ایسے حالات میںکشمیری عوام کی بھارت کے خلاف روز بروز بڑھتی نفرت کا سرحد پار بھی نوٹس لیا جانے لگا تھا اور اس نفرت کو آتش فشان میں تبدیل کرنے کیلئے لائحہ عمل تشکیل دینے پر کام ہونے لگا تھا۔تب تک جو کشمیر امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا، اب لاوا بن کر پھوٹ پڑا۔ ملی ٹینسی شروع ہوجانے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ہندو مسلمان، ہر کسی کو جان کے لالے پڑ گئے۔ حکمران جماعت کے حامی کارکنوں کو پارٹی سے مستعفی ہوجانے کی وارننگ جاری ہوجانے کے چند ہی ایام بعد ۱۲؍ اگست ۱۹۸۹ء کو رولنگ جماعت کا ایک عہدیدار محمد یوسف حلوائی ملی ٹینسی کا پہلا شکار بن گیا۔ اس کے بعد بھی لوگ مرتے گئے۔اب ہندو مسلمان کے درمیان کوئی تمیز نہیں تھی۔ ملی ٹینٹوں کے سامنے جو کوئی مشکوک الحال( یعنی تحریک مخالف تھا) یا پھر کشمیر کی تحریک آزادی میں مشکوک کردارادا کرنے کا ملزم قراردیا جا رہا تھا، حملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔لیکن ریاست میں قائم بے اختیار ہی سہی، جمہوری حکومت کی موجود گی میں پنڈت برادری اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرتی رہی ۔ تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ جگ موہن کی سربراہی میں گورنر راج کے قیام کے ساتھ ہی پنڈت برادری کو بے وطن بنانے کے پلان کا محرک کون بنا تھا؟ اُن لوگوں کوکس نے تحریک دی، تیار کیا اور پھر سہولیات فراہم کرکے پیر پنچال کے اُس پار روانہ کردیا؟ جگموہن نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی وادی میں جنگجوئوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی تھی۔ دو دن بعد ۲۱؍ جنوری کو گائوکدل سری نگر کا خونین واقعہ پیش آیا۔ تب جنگجو نوجوانوں کی کتنی تعداد ہوسکتی تھی؟ لیکن جگموہن کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے خلاف نہتے عوام کیا کرسکتے تھے؟ وہ مساجد کا رُخ کرنے لگے اور راتوں کے دوران شور محشر برپا کرتے تھے۔اکثرو بیشتر محلوں کو بار بار فوجی نرغے میں لیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ روز بروز دراز ہوتا گیا۔ گھروں کی تلاشیاں لینا فوج کا معمول بننے لگا۔سب سے زیادہ دقت یہ تھی کہ کچھ جوشیلے وردی پوش معمر شہریوں کے ساتھ بھی بے ادبی سے پیش آتے تھے۔ادھر سے کچھ غیرمعروف جنگجوئوں تنظیمیں بھی عوام کے نام نت نئے فتوی جاری کرتی تھیں۔ کبھی گھڑی کی سوئیاںگھمانے کی، کبھی داڑھی بڑھانے کی وغیرہ وغیرہ لیکن فوجی جوان جب سڑکوں پر گھیرا ڈالتے تھے، تو نوجوان شہریوں کو خاص طور سے داڑھی اور گھڑی کی سوئیوں سے ہی متعلق معاملات پر ہی سوالات اُٹھاتے تھے۔اب تک مرنے مارنے کا کوئی شمار نہیں رہا تھا۔ کچھ پنڈت بھی ضرور کام آتے رہے۔ فروری مہینے سے پنڈتوں کا وادی سے اخراج شروع ہوا۔یہ خوف کا نتیجہ تھا یا پھرکسی منصوبے کا ثمر، قطعی طورکچھ کہنا مشکل ہوگا لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ جس بستی سے پنڈت لوگ ترک مکانی کی تیاری میں نظر آتے تھے، بستی کی مسلمان  اُن کو گھیرے میں لے کر زاروقطار روتے رہتے تھے اور اُن کو ساتھ ساتھ مرنے جینے کی دہائی دیتے رہتے تھے۔ مجھے اسی دوران ہارون علاقہ میں اپنے نانیہال میں کچھ دن بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ میں صبح سویرے اپنے ماموں کے ساتھ پنڈتوں کے اکثریتی درباغ علاقے میں جایا کرتا تھا ۔ پنڈت لوگ سامان باندھے ٹرانسپورٹ کی آمد میں ہوتے تھے اور اُن کو روتے بلکتے مسلمان عورتوں و مردوں کے گھیروں میں دیکھ دیکھ کر کون سنگ دل آنسو نہیں بہاتا تھا۔ دونوں برادریوں کے درمیان میل ملاپ اور محبت کے نظارے کرتے ہوئے میں خود بھی رو پڑتا تھا اور چاہتا تھا کہ میں بھی اُن سب کو روک لوں۔اسی طرح کی خبریں ہر سمت سے ملتی تھیں۔ پنڈت برادری کے لوگوں کے ساتھ جب جموں یا دہلی میں ملاقات ہوجاتی، تو آنسو بہائے بغیر کون رہتا تھا؟ وہ بھی روتے تھے اور اُن سے ملنے والے مسلمان بھی آبدیدہ ہوجاتے تھے لیکن اب ماحول میں تبدیلی نظر آتی ہے، کیونکہ آرپارسے مان مریادا رکھنے والے وہ لوگ اب یا تو ضعیف العمر ی میں آگئے ہیں یا پھر اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔نئی نسل کو پرانی باتوں سے کیسے اطمینان دلایا جاسکتا ہے؟ اُن کو گھر کا راستہ بدلنے کی ترغیب دینے والے اُنہیں پوپ میوزک سناتے پھرتے ہیں۔ اب وہی لوگ اُن کے رہنما بنے ہوئے ہیں۔ پرانے زمانے کی دھارمک فلمیں دکھانے والوں کی آنکھیں روتے روتے سوکھ گئی ہیں ۔ اس پار رہنے والے لوگوں پر بھی پاکستان کے زیر اثر ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ زیر اثر نہیں ہیں۔ اکثر لوگ آزادی کی تڑپ لئے جی رہے ہیں اور اسی پر مرتے ہیں۔وہ کیونکر آزادی کی باتیںکرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت حد تک سابق صدر ریاست و سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر کرن سنگھ کے اُس بیان میں بھی مضمر ہے جو اُنہوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے۔جب ۱۹۴۷ء کے کچھ ہی دیر بعد بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے سرینگر کے تاریخی لال چوک میں کشمیری عوام کو یہی اطمینان دلایا تھا تو آزادی کا راگ سنانا اب کون سا گناہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ ملک پر ۷۰سال تک برسر رہنے والی جماعت نہرو کی یقین دہانیوں کے بعد بھی گناہ گار بنتی رہی ہے۔اب اسی نوعیت کے ہتھکنڈے اس قدر سنگین ہوتے جارہے ہیں کہ اسی پارٹی کے اہم لیڈر پی چدمبرم سے بھی سہنا برداشت نہیں ہورہاہے۔ ہمارے لئے تاہم یہ بات بھی باعث سکون ہے کہ تارک الوطن پنڈتوں کی کشمیر وادی میں چھوڑی ہوئی جائیدادیں جوں کی توں موجود ہیں۔ رکھ رکھائو نہ ہونے اور موسمی حالات سے متاثرہ جائیداد کو جو نقصان پہنچا ہے، اُس کو چھوڑ کر سب کچھ اپنی جگہوں پر قائم ہے۔ ایک خبر کے مطابق پنڈت برادری نے وادی چھوڑتے وقت اپنے پیچھے ۹۰؍ ہزار کنال اراضی اور ۱۷؍ ہزار تعمیراتی ڈھانچے چھوڑ دئے تھے۔ اس اراضی سے فقط ۱۳۲ ؍کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے جو کو چھڑانا کوئی کار داردوالا معاملہ نہیں۔ پنڈت برادری نے از خود گیارہ ہزار کنال فروخت کئے ہیںاور پنڈتوں کے ذریعے ہی دھارمک استھاپنوں کی کچھ اراضی کا سودا بھی ہوا ہے۔ یہ ساری چیزیں ہماری عصری سیاسی تاریخ کے نشیب وفراز پر بے انتہا ڈالتی ہیں۔
 
 (ختم شد )  
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ایس ایس پی ٹریفک سٹی سری نگر کی طرف سے میڈیا سیل کے قیام کا اعلان
برصغیر
نیشنل کانفرنس حکومت نے 8 مہینوں کے دوران زمینی سطح پر کوئی کام نہیں کیا:: اشوک کول
تازہ ترین
اودھم پور بارہمولہ ریلوے لنک سے کشمیر کے تمام لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا: سکینہ یتو
تازہ ترین
ریاسی سڑک حادثہ ، گاڑی گہری کھائی میں جاگری ،11افراد زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

محسن ِ کشمیرحضرت سید علی ہمدانی ؒ شاہِ ہمدانؒ

June 3, 2025
کالممضامین

سالار عجم شاہِ ہمدان سید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 3, 2025
کالممضامین

علم الاخلاق اور سید علی ہمدانی ؒ تجلیات ادراک

June 3, 2025
کالممضامین

فضیلت حج مع توضیح منسلکہ اصطلاحات ایام حج

June 3, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?