پرویز مانوس
شہر کی فضا میں ایک انجان سا شور بسا ہوا تھا۔ ٹریفک کے ہارن، ریہڑیوں والوں کی صدائیں، اور گلی کے نکڑ پر چائے والے کے ریڈیو سے آتی مدھم دھنیں۔رونق بھرے بازار سے نکل کر تھوڑی دوری پر آٹو رکشا رُکا اور شلپا اتر کر اپنے فلیٹ میں داخل ہوگئی۔ پنکھے کا سوئچ آن کرکے پرس ایک طرف پھینکتے ہوئے اُس نے تھکاوٹ سے چور اپنا جسم صوفے کے سپرد کردیا-
’’پنکی نے کچھ کھایا؟‘‘ اُس نے جانکی سے دریافت کیا۔
’’ہاں بی بی جی، اُس نے دودھ اور بریڈ کھا لی۔ اب اپنی گُڑیوں اور کھلونوں کے ساتھ لابی میں کھیل رہی ہے۔” جانکی نے اُس کے آگے میز پر پانی کا گلاس رکھتے ہوئے کہا۔
’’اور کوئی آیا گیا؟’’ شلپا نے پانی کا گھونٹ حلق سے اُتارنے کے بعد پوچھا۔
’’ہاں بی بی جی! وہ کورئیر والا ایک پیکٹ لے کر آیا تھا۔ ابھی لاتی ہوں۔‘‘ کہہ کر جانکی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
اتنے میں پنکی دوڑتی ہوئی آئی اور شلپا سے لپٹتے ہوئے بولی،
’’مما…! میری پیاری مما…!‘‘
وہ شلپا سے ایسے چمٹ گئی جیسے اُسے کئی دنوں بعد دیکھ رہی ہو۔
’’چلو! مما کو اسکول ورک دکھاؤ۔‘‘ شلپا نے اُسے بیگ لانے کو کہا۔
اتنے میں جانکی ایک پیکٹ لے کر آئی۔ شلپا نے پیکٹ کو غور سے دیکھا تو اُس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ ابھی اُس نے پیکٹ چاک ہی کیا تھا کہ موبائل کی بیل بج اٹھی۔
’’ہیلو…! ہاں، گھر پہنچ گئی ہوں۔‘‘
اُس کے پتی کشور کا فون تھا۔
’’ہاں، ابھی ابھی پہنچی ہوں۔ فون کیوں کیا؟‘‘
’’دراصل… وہ روہن…!‘‘
’’کیا؟‘‘ شلپا نے سنا تو اُس کے چہرے پر خوشی سی جھلکنے لگی۔
’’چلو اچھا ہوا، دنیاوی تکلیف سے اُس کی بھی جان چھوٹی اور دوسروں کی بھی۔‘‘ شلپا نے غیر ارادی طور پر کہا۔
کشور بولا، ’’تم تیار ہوجاؤ، ہمیں اُن کے گھر جانا ہے۔‘‘
اسی کے ساتھ اُس نے فون بند کردیا۔
شلپا نے اپنی گردن صوفے کے ساتھ ٹکا دی اور چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی۔
شادی سے کچھ ہی عرصہ قبل کشور کی سرکاری نوکری لگی تھی اور وہ شہر میں تعینات ہوا تھا۔ سرکاری میز پر بیٹھنے کے بعد جیسے اُس کے خوابوں میں بھی فائلوں کی بُو بس گئی تھی۔
کشور کی بیوی شلپا ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتی تھی۔ صبح دفتر جاتی تو شام تک کی تھکن اُس کے چہرے پر لکھی ہوتی لیکن پھر بھی وہ گھر کو گھر بنائے رکھنے کی پوری کوشش کرتی۔
ان دونوں کی زندگی کا محور ایک ہی تھی — چھ سالہ پنکی۔
پنکی معصوم، ہنس مکھ، نیلی آنکھیں، موٹے گلابی ہونٹ، سنہری بال — بالکل گڑیا سی بچی۔ اُس کی ہر مسکراہٹ گھر کی دیواروں میں زندگی بھر دیتی تھی۔
گھر میں ایک ملازمہ تھی، جانکی۔ وہ سب کام سنبھال لیتی۔ شلپا کے لئے وہ صرف مددگار نہیں، گھر کا سہارا تھی۔
شہر میں کشور کا کسی سے خاص تعلق نہ تھا۔ دفتر میں سب چہرے نئے تھے۔ بس ایک شخص — روہن — جس کی باتوں میں غیر معمولی روانی تھی، اُس کے قریب ہوگیا۔ پہلے محض ایک ساتھی، پھر دوست، پھر تقریباً گھر کا فرد۔
روہن کا آنا جانا معمول بن گیا تھا۔ وہ آتا، قہقہے لگاتا، پنکی کے لیے مہنگے مہنگے چاکلیٹ لاتا، کیرم کھیلتا، اور کبھی کبھی شلپا کے لئے پھول بھی لے آتا۔
شلپا کے چہرے پر اُس وقت محض رسمی مسکراہٹ ہوتی۔ وہ روہن کی ہر بات کو دوستانہ جذبے میں دیکھتی — یا شاید دیکھنا چاہتی تھی۔
پنکی کےلئے وہ “چاکلیٹ انکل” تھا۔ جب بھی دروازے کی گھنٹی بجتی، پنکی بھاگ کر دروازہ کھولتی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر روہن کے سینے سے لگ جاتی –
چاکلیٹ لیتے ہی وہ معصومیت سے کہتی تھینکیو. ۔۔۔!،،
زندگی ایک مانوس ترتیب سے بہہ رہی تھی — بظاہر پُرسکون، مگر اندر ہی اندر کسی نامعلوم ہلچل کے ساتھ۔
ایک شام شلپا کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی دفتر سے معمول سے کچھ پہلے لوٹی۔
دروازہ آہستہ سے کھولا تو کمرے سے قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں — پنکی کی ہنسی اور اُس کے بیچ روہن کی آواز:
’’چلو ایک اور گیم کھیلتے ہیں! تم جیتو تو دو چاکلیٹ، ہارو تو بس ایک!‘‘
شلپا دروازے کے قریب ٹھٹک گئی۔
روہن صوفے پر بیٹھا تھا، پنکی اُس کی گود میں تھی۔ شلپا کی نگاہ چند لمحے کے لئے ساکت ہوگئی۔
روہن فوراً چونک کر کھڑا ہوگیا۔
’’اوہ، بھابھی! آپ کب آئیں؟ میں تو بس یہاں سے گزر رہا تھا، سوچا پنکی سے ملتا چلوں۔ آپ لوگ نہیں تھے تو یہ تھوڑی دیر کھیلنے لگی۔‘‘
شلپا نے ایک زبردست مسکراہٹ لبوں پر سجا لی۔
’’اچھا کیا تم آ گئے۔‘‘
اُس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو روہن سمجھ نہ پایا، مگر محسوس ضرور کیا۔
روہن کے جانے کے بعد شلپا نے جانکی سے پوچھا،
’’روہن بابو کب آئے تھے؟‘‘
’’ابھی گھنٹہ بھر پہلے ۔ میں نے چائے بنائی تھی اُن کے لئے۔ پنکی کے ساتھ کھیل رہے تھے۔‘‘
شلپا نے صرف ’’ہمم‘‘ کہہ کر بات ختم کردی۔
دوسرے دن پنکی ماں کے پاس آئی۔
’’مما، میرے پیٹ کے نچلے حصے میں درد ہوتا ہے۔‘‘
’’کب سے، بیٹا؟‘‘
’’کل سے۔ جب چاکلیٹ انکل آئے تھے۔‘‘
شلپا چونک گئی۔
’’کیا مطلب؟ چاکلیٹ زیادہ کھا لی تھیں؟‘‘
’’نہیں مما، وہ جب مجھے اپنی گود میں بٹھاتے ہیں نا، چاکلیٹ کھلاتے ہوئے انگلی سے ایسی گدگدی کرتے ہیں جس سے مجھے درد ہوتا ہے… وہ کہتے ہیں ‘یہ ہمارا چھوٹا سا کھیل ہے… کسی کو مت بتانا‘‘
شلپا کے ہاتھ کانپنے لگے۔ لمحہ بھر کو وقت رک گیا۔
اُس نے سینے میں پھیلتی آگ کو ضبط کی تہہ کے نیچے دفن کرلیا۔
اُسے اُس دن کی یاد بھی آئی جب پنکی کے ہونٹ سوجھے دِکھے تھے اور اُس نے بتایا تھا کہ “چاکلیٹ انکل نے بہت سا پیار کیا” — اور اُس نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔
لیکن آج تو حد ہی ہوگئی تھی-
اس دن کے بعد شلپا کے رویّے میں ایک خاموش تبدیلی آنے لگی۔
اُس نے جانکی کو سخت ہدایت دی کہ جب بھی روہن بابو آئے تو پنکی کو مصروف رکھنا اور اُس سے دور-،،
ٹھیک ہے بی بی جی، جانکی نے وجہ جاننے کی کو شش نہیں کی-
وہ روہن کو پہلے سے بھی زیادہ خوش آمدید کہنے لگی۔
’’آج تمہاری پسند کی بریانی بنائی ہے۔‘‘
’’کل چکن کباب۔ پرسوں گاجر کا حلوہ۔‘‘
روہن ہنستا، ’’بھابھی، آپ تو کمال ہیں! اتنی محبت تو ماں بھی نہیں کرتی!‘‘
کشور اس رویّے سے خوش تھا۔ اسے کیا خبر کہ شلپا کیا کھیل کھیل رہی ہے۔
شلپا آہستہ آہستہ روہن کے کھانے میں ایک مخصوص نامانوس شے انتہائی کم مقدار ملانے لگی۔ اتنی کم کہ نشہ بھی محسوس نہ ہو۔ مگر جسم آہستہ آہستہ اُس کا عادی ہوتا جائے۔
ہفتوں بعد، روہن کے چہرے پر تھکن اور ہاتھوں میں لرزش نظر آنے لگی۔ شلپا کے لبوں پر خاموش مسکراہٹ ابھری۔
پھر ایک دن—
’’آج تمہارے لیے خاص ڈش ہے، روہن!‘‘
’’بھابھی، آپ کا کچن تو جنت ہے!‘‘
’’آج آخری چاکلیٹ تمہارے لئے ہے، روہن…‘‘
اُس کے لبوں کی ہنسی اب زہر میں بجھی ہوئی تھی۔
اس دن اُس نے کھانے میں وہ مقدار ملائی جو ایک عادی جسم کو بھی تباہ کرنے کے لئے کافی تھی۔
روہن ہنستا ہوا گیا۔ چند گھنٹوں میں اُس کی سانسیں اُلجھنے لگیں۔
اسپتال میں ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ منشیات کا عادی ہے — یہ سن کر دفتر کا سارا عملہ ششدر رہ گیا۔
آفس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ وہ تو سگریٹ پینے والے سے بھی دور بھاگتا ہے پھر یہ سب…..؟؟؟؟؟
روہن کی حالت بگڑتی گئی۔ ایک دن اسپتال میں اُس نے کشور سے فرمائش کی،
’’ یار آج بھابھی کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کھیر کھانے کا دل ہے…‘‘
شلپا خود کھیر بنا کر لائی۔ جاتے ہوئے اُس نے روہن سے کہا،
مجھے آفس کے لئے نکلنا ہے بعد میں کھالینا وہ
’’پنکی کے لیے آخری چاکلیٹ نہیں دوگے؟‘‘
روہن نے کانپتے ہاتھ سے پتلون کی جیب سے ایک پگھلی ہوئی چاکلیٹ نکال کر شلپا کو دیتے ہوئے کہا۔،،
’’اسپتال آنے سے پہلے ارادہ تو تھا کہ تمہارے گھر جاتا پنکی سے کے ساتھ کیرم کا ایک گیم کھیلتا… مگر قسمت…‘‘
دوائی کے بعد ڈاکٹر کی اجازت سے کشور نے اپنے ہاتھوں سے روہن کو کھیر کھلائی۔
کھیر کھاتے ہی روہن جیسے سکون کی نیند سو گیا۔
شلپا کو اُسی شام کشور کا فون آیا۔
روہن کی موت ہوگئی۔
ڈاکٹر نے کہا:
’’آج زیادہ مقدار میں ڈرگز لینے سے موت ہوئی۔ حیرانی یہ کہ اسپتال کے بیڈ پر اُس نے نشے کا ڈوز لایا کہاں سے !‘‘
شلپا کے ہونٹوں پر ایک ٹھہری ہوئی مسکراہٹ اُبھری۔
انہی خیالوں میں پنکی نے آکر پوچھا،
’’مما! چاکلیٹ انکل کب آئیں گے؟‘‘
شلپا نے اُسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا،،
’’وہ چاکلیٹ لانے بہت دور چلے گئے ہیں، بیٹی…‘‘
پنکی کے بالوں سے اب بھی چاکلیٹ کی خوشبو آرہی تھی۔
شلپا کے آنسو اُس کے گالوں پر بہنے لگے۔
باہر ہلکی بارش برس رہی تھی، جیسے آسمان اُس کی خاموش انتقامی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9419463487