سرینگر// ’’ 9بہنوں کے2اکلوتے لاڈلے بھائیوں کی المناک موت‘‘کے باعث’’ چاڈوہ بڈگام اوربارسوگاندربل میں چہارسوغمناک ماحول‘‘ پایاجاتاہے کیونکہ زاہدرشیداورعمرفاروق کے گھروں میں ڈھارس بندھائی کیلئے آنیوالے اشکبارآنکھیں لئے وہاں سے واپس لوٹ جاتے ہیں ۔ چاڈورہ کے کاروباری عبدالرشید بٹ اور بارسوسہ گاندربل کے رہنے والے جسمانی طور معذور فاروق احمد گنائی کے گھروں میںابھی بھی ماتم چھایا ہوا ہے ۔ 22سالہ زاہد رشید بٹ ولد عبدالرشید گزشتہ ماہ کی29 تاریخ کو چاڈورہ کے ایک گاؤں میں ہوئے انکاؤنٹر مخالف مظاہرے کے دوران دیگر دو نوجوانوں کے ہمراہ جاں بحق ہوا۔ 22سالہ زاہد رشید 7بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور اس نے تعلیم ادھوری اس بناء پر چھوڑدی تاکہ اپنے باپ کا کاروبارمیں ہاتھ بٹاسکے۔ لیکن کاتب تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ جس باپ کاسہارا بننے نے نکلا تھا، وہی باپ اپنے اس اکلوتے لاڈلے بیٹے کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنے کے دوران غشی طاری ہونے کے بعد بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس گھرمیں کسی چیز کی کمی نہیں لیکن آج بھی وہ کمرہ ویسے ہی ہے ، جس میں زاہد رشید بیٹھا ہوا کرتاتھا۔ والدین اور بہنیں کہتی ہیں کہ ہم یہ سامان اس لئے نہیں ہٹاتے کیونکہ ہمیں لگتاہے کہ زاہدواپس آئے گا اور اسی طرح کپڑے بدلنے کے بعد اپنے میلے کپڑے یہاں ادھر اْدھر پھینک دے گا۔ اس کمرے کو دیکھ کر اب یہ بہنیں روتی نہیں ہیں لیکن جو یہاں انہیں دلاسہ دینے کے لئے آتاہے اس کی آنکھیں اس کمرے کو دیکھ کر ضرور اشکبار ہوجاتی ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال ضلع گاندربل کے باروسہ گاؤں میں بھی ہے کیونکہ یہاں دوبہنوں کا اکلوتا بھائی اور جسمانی طور معذور والدین کا واحد کفیل22سالہ عمر فاروق رواں ماہ کی 9تاریخ کو اس روز گولی لگنے سے جاں بحق ہوا ، جب سرینگر پارلیمانی حلقے کے لئے ضمنی چناؤ ہورہے تھے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ نوعمر نوجوان عمر فاروق نے اس بناء پر تعلیم ادھوری چھوڑی دی تاکہ ایک حادثے میں جسمانی طور معذور ہوئے اپنے باپ ،دماغی طور معذور اپنی ماں اور دوبہنوں کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ اس نوجوان کی بڑی بہن شگفتہ نے بھی نویں جماعت میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ ماں دماغی سدھ بدھ کھوبیٹھی ہے اور کھانا پکانے کے لئے اس معصوم بہن کو ہی تعلیم چھوڑنی پڑی۔ چھوٹی بہن عظمیٰ فاروق ابھی آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم ہے اور جب سے اکلوتا بھائی اس دنیا سے رخصت ہوگیا ، تب سے اس معصوم بہن نے اپنی کتابیں کبھی نہیں دیکھیں۔ یہاں آنے والے جب شگفتہ اور عظمیٰ کو دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھی اشکبار ہوجاتی ہیں کیونکہ جسمانی طور معذور باپ بشیر احمد گنائی اوردماغی طور معذو رماں حفیظہ کی حالت دیکھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی۔اس ستم رسیدہ اور غمزدہ کنبے کا یکہ منزلہ رہائشی مکان سینٹر ل یونیورسٹی کی طرف جانیوالی سڑک پر واقع ہے لیکن اس مکان کی نہ تو کھڑکیاں ہیں اورنہ دروازے۔کھڑکیوں اور دروازوں پر پالی تھین کے لفافے لگے ہیں تاکہ کوئی ہوا کا سرد جھونکا یا گردوغبار اندر آئے لیکن پھر بھی جب ان لفافوں میں تھر تھراہٹ ہوتی ہے تو بہنوں کو لگتاہے کہ بھائی آنے والا ہے۔