سرینگر//تحریک حریت نے بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی کی طرف سے تہار جیل میں نظربند قائدین کے خلاف چارج شیٹ میں لگائے گئے تمام الزامات کو مضحکہ خیز اور بچگانہ حرکات سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ان بنیادوں پر سیاسی قیادت کو جیل میں بند رکھنا صرف اور صرف سیاسی انتقام گیرانہ کارروائی ہے۔ تحریک حریت نے کہا کہ زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو اس کے تاریخی اور بین الاقوامی پسِ منظر میں دیکھنے کے بجائے سوشل میڈیا پر دستیاب مواد کو بنیاد بناکر حریت کے نظربند قائدین پر علیحدگی پسندی اور ملک دشمنی کے الزامات عائد کرکے فردِ جرم تیار کی گئی ہے۔ اس مقدمہ میں تین سو گواہان کی فہرت تیار کی گئی ہے جس کا مقصد ان قائدین کی اسیری میں طوالت پیدا کرنا ہے۔ تحریک حریت نے اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرینگر میں این آئی کی عدالت کا بینچ پہلے سے موجود ہونے کے باوجود حریت راہنماؤں کو گرفتار کرکے دلی کے انٹروگیشن سینٹروں میں طویل عرصہ تک جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا شکار بنایا گیا۔ اس سے پہلے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تقریباً تین ماہ تک ان قائدین کی کردار کُشی کی ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی ان کو مجرم قرار دیکر انکے خلاف توہین آمیز باتیں کرکے ان کی کردار کُشی کی گئی۔ تحریک حریت نے کہا کہ چارج شیٹ میں کسی ٹھوس اور واضح ثبوت کی عدم موجودگی میں سوشل میڈیا پر دستیاب عوامی آراء پر مشتمل مواد کی بنیاد پر الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اخبار انڈین ایکسپرس کے مطابق پہلے تو ایجنسی نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے بہت سے مشکوک مالی لین دین کے بارے میں جانکاری حاصل کی ہے، لیکن ابھی تک وہ اس کے تعلقات اور حوالہ کے متعلق تفصیلات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ان معاملات کی تفصیلات ایک بزنس مین کی ڈائری میں ہاتھ سے لکھی گئی تحریر بتائی جاتی ہے۔ ان تحریروں میں حریت کانفرنس کی ویب سائٹ، چیرمین سید علی گیلانی اور پاکستانی ہائی کمیشن کے کسی اہلکار کا رول بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چارج شیٹ میں حریت کانفرنس اور تحریک حریت کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور مختلف عنوانات کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں، مثلاً حریت کا علیحدگی پسندانہ ایجنڈا اور سازش، اس میں حریت ویب سائٹ کا حوالہ دیکر جدوجہد آزادی اور جموں کشمیر کے عوام کی بھارتی قبضہ کے خلاف جدوجہد جیسے الفاظ سے سہارا لیکر یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ تحریک حریت اس کے لیڈر اور کارکنان علیحدگی پسندانہ ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے عوام کو بھارتی قبضہ کے خلاف تحریک چلانے پر اُبھارتے ہیں۔ چارج شیٹ میں سید علی گیلانی اور دیگر قائدین کی تقاریر کا حوالہ دیا گیا جس میں انہوں نے عوام پر زُور دیا کہ شہداء اور محبوسین کے اہل خانہ کی بھرپور امداد کی کوششیں کی جائیں۔تحریک حریت لیڈر ایاز اکبر سے Whatsappپر دئے گئے ایک پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی طرف سے سبھی پارٹیوں سے مشترکہ جدوجہد کرنے کی اپیل کی گئی کو فردِجرم عائد کرنے کی بنیاد بنائی گئی ہے۔ تحریک حریت کے ایک اور لیڈر الطاف احمد شاہ کے موبائل سے برآمد ایک ویڈیو کلپ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں گیلانی نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جہاد الفاظ سے، تحریروں سے اور عسکریت پسندوںکی امداد اور ان کی ضروریات کو پورا کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔تحریک حریت کے ایک اور لیڈر پیر سیف اللہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے فیس بُک پر محمد افضل گورو کی پھانسی کے وقت اس کی تصویر پروفائل پکچر اپلوڈ کیا ہے۔ ان قائدین کو ایک اور عنوان کے تحت حریت اور دہشت گردی کے تعلق میں ان کو ایک سازشی ٹولہ کا رُکن بتایا گیا ہے، اسی طرح نعیم احمد خان کے خلاف الزام ہے کہ انہوں نے بڈگام میں تین عسکریت پسندوں کے جانبحق ہونے پر ان کے جنازہ میں شرکت کی۔ شاہد الاسلام پر یہ الزام ہے کہ ان کے گھر سے ان کے ساتھ سید صلاح الدین لی گئی ایک پرانی تصویر برآمد ہوئی ہے۔ تحریک حریت نے واضح کردیا کہ چارج شیٹ کے بغور مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس قسم کی کارروائیوں سے کشمیر میں جاری جائز جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے نہ صرف غیر اخلاقی، غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر انسانی طریقہ اپنایا گیا ہے بلکہ اقوامِ عالم کے ان راہنمایانہ خطوط کی بھی خلاف ورزی کی گئی جو انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مقرر کئے ہیں اور جن کو خود بھارت نے بھی تسلیم کیا ہے۔