عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک اہم عرضی دائر کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریاست کے تمام زیرِ سماعت قیدیوں کو، جو فی الحال جموں و کشمیر سے باہر مختلف جیلوں میں بند ہیں، فوری طور پر واپس لایا جائے۔
محبوبہ مفتی کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایسے تمام قیدیوں کو جموں و کشمیر کی مقامی جیلوں میں منتقل کرنے کے احکامات صادر کیے جائیں، جب تک کہ متعلقہ حکام کسی مخصوص معاملے میں تحریری وجوہات کے ساتھ یہ ثابت نہ کریں کہ انہیں باہر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے تمام معاملات کا ہر تین ماہ بعد عدالتی جائزہ لیا جانا چاہیے۔
عرضی میں کہا گیا ہے، ’درخواست گزار ایک سیاسی کارکن اور سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان سے کئی قیدیوں کے اہل خانہ نے اپیل کی ہے کہ وہ زیرِ سماعت قیدیوں کی حالتِ زار کے سلسلے میں حکومت سے مداخلت کریں۔‘ محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت سے بارہا گزارش کی، مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جس کے بعد انہیں عوامی مفاد میں یہ عرضی داخل کرنا پڑی۔
درخواست میں آئین ہند کے آرٹیکل 226 کے تحت عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک رِٹ آف منڈیمَس کے ذریعے مرکز، جموں و کشمیر کے ہوم ڈیپارٹمنٹ اور پولیس سربراہ کو ہدایت دی جائے کہ وہ تمام زیرِ سماعت قیدیوں کو واپس جموں و کشمیر کی جیلوں میں منتقل کریں۔
محبوبہ مفتی نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، جموں و کشمیر کے کئی باشندوں کو جو یہاں کے مقدمات میں زیرِ تفتیش یا زیرِ سماعت ہیں، ریاست سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی آرز اور مقدمات تو جموں و کشمیر میں درج ہیں مگر قیدیوں کو سینکڑوں کلومیٹر دور جیلوں میں رکھا گیا ہے، جس سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات، وکیل سے مشاورت اور عدالتی رسائی نہایت دشوار ہو گئی ہے۔‘
عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو دور دراز جیلوں میں بھیجنے کی یہ پالیسی آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے، جو منصفانہ سماعت، وکیل تک رسائی اور اہل خانہ سے رابطے کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ عالمی و قومی قوانین، بشمول ماڈل پریزن مینول، زیرِ سماعت قیدیوں کے ساتھ انسانیت پر مبنی برتاؤ، وکیل سے ملاقات، اور اہل خانہ سے رابطے کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ’زیرِ سماعت قیدیوں کو سزا یافتہ مجرموں سے بدتر حالت میں رکھنا انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘
عرضی میں عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ حکومت ایک واضح ’رسائی پروٹوکول‘ بنائے تاکہ قیدیوں کو ہر ہفتے اہل خانہ سے ملاقات کا حق، اور وکیل سے بلا رکاوٹ بات چیت کا موقع حاصل ہو۔
محبوبہ مفتی نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ ایک دو رکنی نگرانی و شکایتی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج اور اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کا نمائندہ شامل ہو۔ یہ کمیٹی زیرِ سماعت قیدیوں کے مقام، ملاقاتوں کے ریکارڈ، وکیل سے رابطے اور عدالت میں پیشی کے عمل کی نگرانی کرے اور ہر دو ماہ بعد رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔
آخر میں محبوبہ مفتی نے مطالبہ کیا کہ جب تک ان قیدیوں کو واپس نہیں لایا جاتا، حکومت ان کے اہل خانہ کے سفری و رہائشی اخراجات کا مناسب معاوضہ فراہم کرے تاکہ وہ کم از کم ہر ماہ میں ایک بار اپنے پیاروں سے ملاقات کر سکیں۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے عدالت میں عرضی دائر کی، جیلوں سے باہر قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ