عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر// جنوبی ضلع پلوامہ میں گزشتہ سال پارلیمانی انتخابات کے دوران پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور ایم ایل اے وحید الرحمان پرہ کے خلاف ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) کی خلاف ورزی سے متعلق کیس کو جمعہ کے روز ایک عدالت نے مسترد کر دیا۔
ایڈیشنل اسپیشل موبائل مجسٹریٹ اونتی پورہ، منیر احمد بٹ نے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے طے شدہ قانونی اصولوں اور کیس کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تعزیراتِ ہند کی دفعہ 188 کے تحت کسی جرم کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔
عدالت نے کہا، ’’چالان (پولیس چارج شیٹ) مسترد کیا جاتا ہے اور ملزم (پرہ) کو رہا کیا جاتا ہے۔ ملزم کے ضمانتی مچلکے اور ذاتی ضمانتیں ختم کی جاتی ہیں۔ ضبط شدہ دستاویزات یا اشیاء، اگر کوئی ہوں، تو متعلقہ مالک یا دعویدار کو اس کی ذاتی ضمانت پر واپس کی جائیں گی، اور وہ کسی اپیلیٹ عدالت کے حکم کے تابع ہوں گی۔‘
پرہ جو سرینگر لوک سبھا نشست سے پی ڈی پی کے امیدوار تھے، نے 27 اپریل کو ایک ریلی روڈ شو کی شکل میں منعقد کی تھی جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھی، جس پر انہیں پولیس نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ 188 کے تحت ایک سرکاری حکم کی نافرمانی پر بک کیا تھا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا، ’’سپریم کورٹ کے قانونی اصولوں کی روشنی میں کیس کے حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ دفعہ 188 کے تحت جرم کا نوٹس صرف تعزیراتِ جرم کی دفعہ 195(1)(a)(i) کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس کیس میں چالان بغیر کسی تحریری شکایت کے دائر کیا گیا ہے، اس لیے جرم کا نوٹس نہیں لیا گیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ کسی صورت میں ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کو دفعہ 188 کے تحت سرکاری حکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
’’ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ صرف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے ایک رہنما اصول کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسے بھارت کی سیاسی جماعتوں کی باہمی رضامندی سے قائم کیا گیا تاکہ ہمارے ملک کے سیاسی نظام کی بنیادوں کو مضبوط کیا جا سکے۔ اس کے پاس قانونی حیثیت نہیں ہے اور اس کی کئی دفعات قابلِ عمل قانون نہیں ہیں۔
عدالتی حکم کے مطابق، ’’یہ خود سیاسی جماعتیں ہی ہیں جنہوں نے اس ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے پر رضامندی ظاہر کی، اس لیے وہ اخلاقی طور پر اس کی پابند ہیں۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اگرچہ ایم سی سی کو دفعہ 188 کے تحت حکم مان بھی لیا جائے، تو بھی اس دستاویز میں یہ واضح نہیں کہ یہ حکم کس سرکاری افسر نے جاری کیا۔
عدالت نے کہا کہ یہ وضاحت ضروری ہے کیونکہ دفعہ 188 کے تحت کسی جرم کا نوٹس صرف اس سرکاری افسر یا اس کے اعلیٰ افسر کی شکایت پر ہی لیا جا سکتا ہے جس کا حکم توڑا گیا ہو۔
’’بلاشبہ ایم سی سی الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے، جو ایک آئینی ادارہ ہے؛ لہٰذا کسی بھی قانونی کارروائی کے لیے ضروری ہے کہ شکایت خود الیکشن کمیشن کی طرف سے ہو۔ اس صورت میں دفعہ 195 کی شرائط پوری نہیں ہوتیں، جس سے یہ مقدمہ محض رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہےـ
پی ڈی پی رہنما پرہ کے خلاف ”ایم سی سی“ کی خلاف ورزی کا مقدمہ مسترد
