اسد مرزا
پی ایم مودی نے گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن، آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی اور جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیڈا کے ساتھ صدر بائیڈن کے آبائی شہر ولمنگٹن، ڈیلاویئرجوکہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے 100میل شمال میں واقع ہے، وہاں کواڈ اجلاس میں شرکت کی۔گو کہ اس سال کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی ہندوستان کو کرنا تھی لیکن امریکی درخواست کی بنا پر اب وہ یہ میزبانی 2025 میں کرے گا۔ ان رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل کواڈ اجلاس میں شرکت کی۔ڈیلاویئر اجلاس کو صدر بائیڈن کی اس کوشش کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے جس کا مقصد ایک ایسے اتحاد پر حتمی مہر لگانے کی کوشش ہے جو کہ ان کی میراث کے طور پر ہمیشہ قائم رہے اور نئے امریکی صدر بھی اس کو اسی نہج پر آگے لے کر چلیں۔تاہم ٹرمپ کے اقتدار میں واپس آنے کی صورت میں کواڈ کی قسمت کے بارے میں خدشات کا اظہار بھیکیا جا رہا ہے۔
کواڈ اجلاس :سربراہی اجلاس میں، چین اور بحیرہ ٔجنوبی چین میں اس کے اقدامات ایجنڈے میں سرِ فہرست رہے۔گو کہ رہنماؤں نے اجلاس کے قبل کہا تھا کہ اجلاس کا محور علاقائی تعاون رہے گا نہ کہ چین۔اجلاس سے قبل ان رہنماؤں کا موقف اس وقت واضح ہوگیا جب صدر بائیڈن کو سرگوشی کے انداز میں یہ کہتے سنا گیا کہ میرے خیال میں چینی صدر ژی جن پنگ چین کے مفاد کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے کے لیے اپنے آپ کو کچھ سفارتی پہل اپنانے پر مجبور کررہے ہیں اور اس سے علاقے میں چینی جارحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔سربراہی اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان میں، کواڈ ممالک کے رہنماؤں نے ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی کشیدگی پر “شدید فکر مند” ہیں۔بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی انتظامیہ بیجنگ کے اقدامات کو ’حکمت عملی میں تبدیلی‘ کے بجائے ’حکمت عملی کی تبدیلی‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔ کواڈ لیڈروں نے ہند-بحرالکاہل میں بحری سیکورٹی تعاون کو تقویت دینے کے لیے ایک اہم حکمت عملی کی بھی نقاب کشائی کی اور یوکرین میں دیرپا امن قائم کرنے کا بھی عہد کیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام پر زور دیتے ہوئے قواعد پر مبنی عالمی نظم کے لیے کواڈ کے عزم کا اعادہ کیا۔ اپنے خطاب میں مودی نے کہا کہ ایک آزاد، جامع اور خوشحال ہند- پیسفک کواڈ کی مشترکہ ترجیح ہے۔مزید برآں، ہندوستان نے اتوار 22ستمبر کوتجارتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے مقصد کے لیے صاف اور منصفانہ معیشت پر 14 رکنی، انڈو- پیسیفک اکنامک فریم ورک برائے خوشحالی (IPEF) کے معاہدوں پر بھی دستخط کیے۔ ان معاہدوں سے صاف توانائی اور آب و ہوا کے موافق ٹیکنالوجیز کی ترقی، رسائی اور تعیناتی میں مدد ملے گی۔ ہندوستانی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا کہ سرمایہ کاری کو متحرک کرنے اور انسداد بدعنوانی، ٹیکس کی شفافیت وغیرہ کے لیے اقدامات کو مضبوط کرنے اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے میں ان معاہدہ سے مدد حاصل ہوگی۔صاف معیشت کے معاہدے کا مقصد توانائی کی حفاظت، GHG (گرین ہاؤس گیس) کے اخراج میں تخفیف، فوسل فیول انرجی پر انحصار کم کرنے کے اختراعی طریقے تیار کرنے، تکنیکی تعاون کو فروغ دینے، صلاحیت سازی کے لیے آئی پی ای ایف کے شراکت داروں کی کوششوں کو تیز کرنے کے علاوہ ترقی، رسائی، تکنیکی تعاون کو فروغ بھی دیا جائے گا۔ساتھ ہی صاف توانائی اور آب و ہوا کے موافق ٹیکنالوجیز کے استعمال کو بھی تقویت بخشی جائے گی۔
دریں اثنا، صدر بائیڈن کا سب سے ذاتی اعلان کینسر سے لڑنے کے لیے نئی مشترکہ کوششوں پر مرکوز رہا جس کا اعلان اجلاس کے اختتام پر کیا گیا۔اس کے تحت کواڈ لیڈرز نے ایک نئی شراکت داری کا آغاز کیا جس کا مقصد انڈو- پیسیفک میں سروائیکل کینسر کو کم کرنا ہے، اور جو کہ صدربائیڈن کے دستخط شدہ “کینسر مون شاٹ” اقدام کی عالمی توسیع ہے۔ اس کے ذریعے خطے میں سروائیکل کینسر کی مزید اسکریننگ فراہم کرنے کی کوششوں اور ہیومن پیپیلوما وائرس یا HPV کے لیے ویکسینیشن بڑھانے کی کوششوں کو اورزیادہ بڑھانا ہے کیونکہ HPV سروائیکل کینسر کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔تاہم چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک اداریے میں کواڈ اجلاس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ کواڈ اجلاس کا اصل نشانہ چین ہے، لیکن شرکاء اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چین کے گھیراؤ کو بین الاقوامی میدان میں بہت کم حمایت حاصل ہے۔اخبار کا کہنا تھا کہ امریکہ چھوٹے اور علاقائی اتحادوں کے ذریعہ چین کو گھیرنے کی کوشش کررہا ہے،لیکن اس میں وہ ناکام رہے گا۔
مودی اور عباس کی ملاقات : دریں اثنا، وزیر اعظم نریندر مودی نے فلسطین کے لوگوں کے لیے ہندوستان کی ’’غیر متزلزل حمایت‘‘ کا بھی اعادہ کیا جب انھوں نے اتوار (22 ستمبر 2024) کی شام کو فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ نیویارک میں بات چیت کی۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ہندوستان نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو مسترد کر دیا تھا جس میں اسرائیل سے اگلے 12 ماہ کے اندر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔یعنی کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر ہندوستان بہت احتیاط کے ساتھ ایک ایسی پالیسی اپنا رہا ہے جس میں کہ وہ نہ تو اسرائیل کا ساتھ چھوڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی مدد کرنا اور اسی طرح کی گول مول پالیسی اس نے امریکہ کے ساتھ بھی اپنائی ہے۔
مودی کی پبلک ڈپلومیسی : دریں اثنا، وزیر اعظم نے نیویارک کے ناساؤ کولیزیم میں ہندوستانی تارکین وطن سے بھی خطاب کیا اور انہیں راشٹردوت کا نام دیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے ہمیشہ ہندوستانی باشندوں کی صلاحیتوں کو سمجھا ہے۔ میں نے اسے تب بھی سمجھا جب میرے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا…میرے لیے، آپ سبھی ہندوستان کے مضبوط برانڈ ایمبیسیڈر رہے ہیں۔ اس لیے میں آپ کو راشٹردوت کہتا ہوں۔‘‘دراصل ہندوستانی تارکین وطن سے خطاب اس لیے اہم ہے کیونکہ ہندوستانی انتخابات کے وقت یہ تارکین وطن بی جے پی اور مودی کی حمایت میں ایک کردارادا کرتے ہیںاور ہندوستان میں اپنے خاندان کے افراد پرزور ڈالتے ہیںکہ وہ بی جے پی اور مودی کی حمایت کریں۔
مجموعی طور پر، وزیر اعظم کے امریکی دورے نے ان کی ترجیحات کو کافی واضح کردیا ہے۔ یعنی کہ وہ ایک ایسی خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جس میں کہ بالکل آزادانہ طور پر ہندوستان کا موقف اور پالیسی قائم کرنا چاہتے ہیں بغیر کسی دوسرے ملک کے دباؤ کے، یا پھر ملک کے اندرونی حلقوں کے دباؤ کے، جیسا کہ انھوں نے یوکرین مسئلہ پر امریکہ کی حمایت نہیں کی ہے اور روس کے ساتھ کھڑے ہیں، وہیں مسئلۂ فلسطین پر وہ اسرائیل کے ساتھ صف بند ہیں لیکن لفظی طور پر فلسطینی عوام کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان کے دورئہ امریکہ اور کواڈ اجلاس میں شرکت کے باوجود ہندوستان کو کوئی خاطر خواہ فائدہ یا کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اور شاید یہ ماحول اور اس طرح کے تعلقات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ وہ کھل کر امریکہ کی حمایت اور روس کی مخالفت کرنا شروع نہ کردیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)